ایک روز دو پہر کو میں کسی کام سے محلے کی مارکیٹ کی طرف گیا تو دیکھا کہ کچھ لوگ ریڈیو پر خبریں سن رہے تھے ،خبروں کے بعدپتہ چلا کہ پاکستان اور بھارت کے در میان جنگ چھڑ گئی ہے ۔ میں نے دیکھا کہ جنگ کی خبر سن لوگ پریشان ہونے کی بجائے ہنس رہے تھے ،کیوں کہ لوگوں کو پورا یقین تھا کہ اس جنگ میں جیت پاکستان کی ہو گی ۔جنگ کے اعلان کے ساتھ ہی بلیک آؤ ٹ اور رات کا کرفیو بھی شروع ہو گیا ۔ شام ڈھلتے ہی ہر طرف اندھیرا چھا جاتا تھا،اور لوگ گھر سے باہر نکلتے ہوئے ڈرتے تھے۔ سرحدوں پر جھڑپیں تو پہلے بھی ہوتی تھیں لیکن اب ان میں شدت آگئی تھی اور اب اکثر دن کے وقت بھی دھماکوں اور فائرنگ کی آوازیں آنے لگیں تھیں اور دھماکوں کی آواز سے ہمارے گھر کی کھڑکیاں اور دیواریں لرز اُٹھتی تھیں۔ دن میں تین چار مرتبہ بھارت کے جنگی طیارے بھی ہمارے علاقے میں چکر لگاتے ،ایک جہاز نے بم بھی گرایا تھا لیکن کوئی جانی یا مالی نقصان نہیں ہوا۔ ایسی صورت حال میں لوگوں کا خوف زدہ ہونا فطری بات تھی ، اس لئے بہت سے لوگ دیناج پور سے نقلِ مکانی پر مجبور ہو گئے اور اپنا گھر بار چھوڑ کر جانے لگے۔زیادہ تر لوگ سیّد پور اور ڈھاکہ جا رہے تھے ،ڈھاکہ صوبائی دارالحکومت ہونے کی وجہ سے محفوظ سمجھا جاتا تھا جب کہ سیّد پورمیں تقریباً پوری آبادی بہاریوں پر مشتمل تھی۔ ان حالات میں میرے والد صاحب نے بھی شہر چھوڑنے کا فیصلہ کر لیا ،اُنہوں نے اپنے دوست کے ذریعے سیّد پور میں کرائے پر مکان حاصل کیا اور ہمیں کہا کہ یہاں حالات ٹھیک نہیں تم لوگ کل ہی سیّد پور چلے جاؤ میں بعد میں بعد میں آ جاؤ ں گا۔ میں اور میری والدہ سیّد پور نہیں جاناچاہتے تھے لیکن والد صاحب کے مجبور کرنے ہم راضی ہو گئے۔اگلے دن میری والدہ نے ایک سوٹ کیس میں کچھ کپڑے ڈالے اور ایک تھیلے میں کچھ برتن لیئے اور سیّد پور آگئے۔
سیّد پور خاصا پُررونق شہر تھا اور سب سے بڑی بات یہ کہ یہاں دیناج پور کی طرح رات کو دھماکوں کی آوازیں نہیں آتی تھیں، لیکن اس کے باوجود یہاں میرا اور میری والدہ کا دل بالکل نہیں لگ رہا تھا۔میں اکثر اپنے دیناج پور کو یاد کر کے روتا تھا۔آٹھ دس دن بعد میری والدہ نے دوبارہ سامان باندھا اور ہم دیناج پور واپس آگئے۔ ہمیں واپس دیکھ کر والد صاحب بہت ناراض ہوئے اور کہنے لگے ” لوگ یہاں سے جان بچا کر بھاگ رہے ہیں اور تم واپس آگئے“ ان کی بات کافی حد تک درست تھی کیوں کہ ان آٹھ دس دنوں میں دیناج پور کا نقشہ ہی بدل گیا تھاتمام دُکانیں بند تھیں اور سڑکوں پر ٹریفک بالکل نہیں تھی،صرف اِکا دُکا لوگ دکھائی دے رہے تھے ۔ایسا لگ رہا تھا جیسے شہر میں کرفیو نافذ ہو۔والد صاحب نے کہاکہ کل کچھ لوگ یہاں سے جا رہے ہیں تم بھی چلے جانا ،میں بعد میں آؤ ں گا۔ سیّد پور جانے کا سن کر میری جان نکل گئی ،میں کسی بھی صورت وہاں نہیں جانا چاہتا تھا۔میں رونے لگا کہ میں نہیں جاؤں گا لیکن میری کسی نے نہ سنی چنانچہ اگلے دن ہم دوبارہ سیّد پور کے لئے روانہ ہوئے،اپنا گھرچھوڑتے وقت ہمارے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ ہم آخری بار گھر چھوڑ رہے ہیں اور ہمیں دوبارہ اپنے گھر میں آنا نصیب نہ ہو گا۔ اس مرتبہ سیّد پور جانے کے لئے ہمیں بس اسٹینڈ نہیں جانا پڑا بلکہ سیٹلائٹ ٹاون سے ہی ایک بس سیّد پور جارہی تھی، بس کھچا کھچ بھری ہوئی تھی کیو ں کہ ایک ہم ہی نہیں بلکہ اور بھی بہت سےلوگ جا رہے تھے ۔ 16دسمبر کی صبح میں جب اُٹھا تو مشرقی پاکستان بنگلہ دیش بن چکا تھااور کئی شہروں میں بھارتی فوج داخل ہو چکی تھی۔لیکن اس بات کو ماننے کو کوئی تیار نہ تھا ،سب یہی کہہ رہے تھے کہ چند روز چین کی فوج آجائے گی اور یہاں پھر سے پاکستان کا پرچم لہرائے گا۔ اُس روز میں آنکھ کھلتے ہی ٹہلتا ہوا بازار کی طرف نکل گیااور دیناج پورکی طرف جانے والی سڑک پر چلنے لگا۔ تھوڑی دور جانے کے بعد دیکھا کہ سڑک کے دونوں جانب دُکانوں کے شیڈ کے نیچے بہت سے لوگ اپنے بیوی بچوں سمیت پڑے ہیں،یہ لوگ سفر کی تھکان سے نڈھال ہو چکے تھے۔بہت سے لوگ اپنے عزیز رشتہ داروں کو ڈھونڈ رہے تھے اور کچھ اپنے رشتہ داروں کو اپنے گھر لے جا رہے تھے،ہر طرف افراتفری کا عالم تھا۔یہاں مجھے کئی شناسا چہرے دِکھائی دیئے لیکن میں نظر بچا کر آگے بڑھ گیا۔تھوڑی دور جانے کے بعد مجھے والد صاحب کے دوست نظر آئے جو اپنے بیوی بچوں کے ساتھ سڑک کے کنارے پڑ ے تھے ،میں اُن سے نظر بچا کر واپس لوٹ آیا۔صرف دیناج پور ہی نہیں بلکہ اُن علاقوں سے بھی جہاں بہاریوں کی تعداد کم تھی لوگ اپنا گھر بار چھوڑ کر آرہے تھے۔تھوڑی دیر بعد دوسری جگہوں سے آنے والے پورے سیّد پور میں پھیل گئے۔لوگوں نے ریلوے مال گودام،جناح میدان ہیں اپنا ٹھکانا بنا لیا۔ ہمارے گھر کے سامنے ایک پرانا کار خانہ جس کا مالگ بنگالی یا ہندو تھا جو فوجی آپریشن کے وقت بھارت چلا گیا تھا ،بہت سے لوگوں نے وہاں رہائش اختیار کر لی تھی۔تھوڑی دیر میں ریڈ کراس کا عملہ آگیاجو ان لوگوں کو ٹرکوں پربٹھا کر مختلف جگہوں پر لے گئے۔ریڈ کراس والوں نے سقوط ڈھاکہ کے بعد بے گھر اور بے سہارا بہاریوں کی بڑی مدد کی ، اگر یہ نہ ہوتے تو بہت سے بہاری بھوک اور بیماری سے مر گئے ہوتے۔ دن کے بارہ ایک بجے کے قریب ایک سپیشل ٹرین کے ذریعے بھارتی فوج سیّد پور میں داخل ہوئی، ٹرین سے اُترنے کے بعد یہ فوج قطار بنائے اُس طرف جا رہی تھی جہاں پاکستانی فوج کا ٹھِکانہ تھا، ان فوجیوں میں بہت سے سکھ بھی تھے جو سر پر فوجی کیپ کی جگہ پگڑی باندھے ہوئے تھے ،میں پہلی مرتبہ سکھ دیکھ رہا تھا۔راستے کے دونوں جانب بہت سے لوگ کھڑے تھے اور کچھ لوگ تالیاں بجا کر اُن کا استقبال کر رہے تھے،ایک شخص نے جوش میں آکر جئے ہند کا نعرہ لگایاتو ایک فوجی نے رک کر کہا کہ جئے ہند نہیں، جئے بانگلہ کہو، یہ سنتے کے بعد وہ شخص خاموش ہو گیا اور دوبارہ نعرہ نہیں لگایا۔بھارتی فوج کی آمد سے لوگ اس لئے خوش تھے کہ اُن کے خیال میں اب بھارت جانے کے لئے ویزا اور پاسپورٹ کی شرط ختم ہو جائے گی اوروہ آسانی سے بھارت آ جا سکیں گے۔بھارتی فوج کے گزر جانے کے بعد لوگ اپنے اپنے گھروں کو لوٹ گئے ،میں نے بھی اپنے گھر کی راہ لی در اصل میں گھر پہنچ کر اپنی والدہ کو یہ بتانا چاہتا تھا کہ بھارتی فوج آگئی ہے۔ گھر واپس آتے ہوئے راستے میں تھانہ پڑتا تھا،میں نے دیکھا کہ یہاں سے پاکستانی پرچم اُ تارا جا چکا تھا اور پولیس والوں کی جگہ بھارتی فوجی کھڑے تھے۔ جب میں گھر کے نزدیک پہنچا تو دیکھا کچھ چھوٹے چھوٹے بچے گلی میں پاکستان زندہ باد کا نعرلگاتے پھر رہے ہیں ،میرا جی چاہا کہ میں بھی اُن میں شامل ہو جاؤ ں،اتنے میں ایک شخص گلی میں نمودار اور ان بچوں کو ڈانٹ کر بھگا دیا ۔
فیس بک کمینٹ