16 دسمبر 2014 کی وہ صبح امید جب مائیں ہمیشہ کی طرح اپنے معصوم بچوں اور جویان علم کے ننھے مسافروں کو ہنسی خوشی تیار کرکے ان کے سنہرے مستقبل کے حصول کے سفر پر روانہ کر رہی تھیں۔کسے خبر تھی کہ یہ سفر ان کو دنیا میں عظمت و ناموری کی رفعتوں تک پہنچانے کی بجائے آسمان کی بلندیوں پر پہنچا کر انجام پذیر ہوگا۔
سر اٹھاتے ہی ہو گئے پامال سبزہ نودمیدہ کی مانند
جب یہ ہولناک اور اندوہناک سانحہ پیش آیا تو اس وقت آرمی پبلک سکول،پشاور کے اساتذہ اور طلباء وقفہ کے بعد اپنی کلاسز میں پہنچے تھے۔کچھ طالب علم آڈیٹوریم میں اکٹھے ہو کر ایک لیکچر سن رہے تھے۔تب ایف سی کی وردی میں ملبوس دہشت گردوں نے حملہ کردیا۔ان خونی درندوں نے عمارت میں داخل ہوتے ہی اندھادھند فائرنگ شروع کردی اور بچوں کو قریب سے اپنی گولیوں کا نشانہ بنایا۔بدترین خونریزی اور قتل عام کیا گیا۔کالعدم شدت پسند تنظیم تحریک طالبان پاکستان نے اس حملہ کی ذمہ داری قبول کی اور اس کو شمالی وزیرستان میں پاک فوج کے آپریشن ضرب عضب اور خیبر ایجنسی میں آپریشن خیبر ون کا ردعمل قرار دیا۔
لیکن کیا راہ علم کے وہ ننھے مسافر وہ معصوم بچے واقعی مر گئے؟نہیں ہرگز نہیں۔وہ تو شہید ہوگئے اور شہید کے لئے تو اللہ نے خود قرآن مقدس میں فرمایا ہے "انہیں مردہ نہ کہو بلکہ وہ زندہ ہیں۔ہاں تمہیں خبر نہیں” بلاشبہ ان دہشت گرد خون آشام بھیڑیوں ان بزدلوں غافلوں اور جہنمیوں کو خبر نہ تھی کہ جنہیں اپنی دانست میں انہوں نے مارا وہ تو ہمیشہ کے لئے زندہ ہوگئے کہ دین،وطن اور انسانیت کی بقاء کی خاطر جان کا خراج جس طرح بھی دیا جائے شہادت ہی تو کہلاتا ہے۔132 بچوں کی شہادت سمیت تقریبا”150 افراد کی ہلاکت اور بے شمار زخمی۔عورتوں اور بچوں کو تو ہر دور میں جنگوں میں امان ملتی رہی اور یہاں دشمن کی نام نہاد جرات اور بہادری کی انتہا تو ملاحظہ فرمائیں ۔سلامتی اور امن کے داعی دین اسلام کے جھوٹے نام لیوا جو انسانیت کی تباہی وبربادی کی ایسی خونی داستان رقم کریں۔اللہ کی بنائی اور بسائی اس دنیا کو خرابہ کی جاء بنا دیں۔ان کا مقدر اس دنیا اور آخرت میں ذلت اور روسیاہی کے سوا اور کیا ہو سکتا ہے۔کیونکہ مسلمان تو وہ ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے دوسرے محفوظ رہیں۔جو خدا اور اس کے بندوں سے پیار کریں ۔ خدا اور اس کے بندوں سے پیار کرنے والے تو آرمی پبلک سکول کی پرنسپل میڈم طاہرہ قاضی شہید جیسے ہوتے ہیں۔خیر اور سلامتی کے نمائندے جو انسانیت کی فلاح اور بقاء کے لئے اپنی سلامتی کو بھی داؤ پر لگا دیتے ہیں۔اور اپنے فرض کو نبھانے اور انسانیت کو بچانے کے لئے اپنی جان بھی قربان کر دیتے ہیں۔دو بار سیکیورٹی فورسز نے میڈم طاہرہ قاضی بچایا اور انہیں وہاں سے جان بچا کر چلے جانے کا کہا۔مگر وہ یہ کہتی ہوئی سکول کی عمارت میں واپس چلی گئیں کہ جب تک آخری بچہ باہر نہ آجائے وہ اندر ہی رہیں گی۔اور پھر دو گھنٹے بعد ان کی جلی ہوئی لاش سکول کے گراؤ نڈ کی جھاڑیوں سے ملی۔انہیں پیشانی پر گولی مار کر شہید کیا گیا تھا۔حملہ کے ایک زخمی بچہ نے بتایا کہ میڈم طاہرہ کے آخری الفاظ تھے
"یہ میرے بچے ہیں،میں ان کی ماں ہوں”
جس وطن میں ایسے استاد ہوں،ایسی مائیں ہوں،خیر کے ایسے نمائندے ہوں تو شر کی شیطانی قوتیں یہ سوچ بھی کیسے سکتی ہیں کہ وہ اس جہان و گیتی کو یا اس ارض پاک کو مغلوب کر لیں گی ۔اور جواں سال ٹیچر "سحر افشاں”جو آڈیٹوریم کے دروازے پر دہشت گردوں کے سامنے انہیں اندر جانے سے روکنے کے لئے ڈٹی رہیں اور بالآخر سکول کی پہلی شہید خاتون کے مقام پر فائز ہوئیں
ایسے عظیم اساتذہ کے تربیت یافتہ شاگرد اور جانثار سچے گھرانوں کے بچے تو آرمی پبلک سکول کے آٹھویں جماعت کے طالب علم عذیر علی جیسے ہوتے ہیں۔اللہ کے بندوں کو مارنے والے نہیں،بچانے والے کہ جب عذیر علی نے حملہ آوروں کو دیکھاتو اپنے دوستوں کے اوپر لیٹ گیا اور ان کی ڈھال بن گیا۔13 گولیاں لگنے کے بعد وہ زندہ نہ بچا مگر اپنے ساتھیوں کو بچانے میں کامیاب ہو گیا۔14 سالہ فہد حسین نے ایک دروازہ کھولا تاکہ اس کے دوست وہاں سے نکل جائیں اور آخری بچے کے نکلنے تک وہاں کھڑا رہا۔حتیٰ کہ خود نشانہ بن گیا
نمبر147 بذات خود ایک کہانی ہے مگر اس کے اندر 147 کہانیاں چھپی ہیں۔بچوں،خواتین اور مردوں کی شجاعت اور قربانیوں کی،اسلام کے سچے جانثار سپاہیوں کی۔اپنی جانوں کی قیمت اور خراج دے کر انسانیت کو بچانے والوں کی اور رہتی دنیا تک ایک ناقابل فراموش اور لازوال مثال بن جانے والوں کی۔اورصرف یہی نہیں بلکہ رہتی دنیا تک شر کی قوتوں کے نمائندوں کے لئے ایک یاد رہ جانے والا سبق بن جانے والوں کی کہ جب تک خیر کی قوتوں کے پیروکار اس دنیا میں موجود ہیں شر کی شیطانی قوتیں کبھی اس دنیا کو مغلوب کر کے انسانیت کو ختم نہیں کر سکتیں کہ قوموں اور مذاہب پر ایسے وقت آتے رہتے ہیں ایسی کڑی آزمائشیں آتی ہیں جب دین و وطن اور انسانیت کی سلامتی اور بقاء کے لئے بہت بڑے پیمانہ پر جانوں کا خراج اور نذرانے دینے پڑتے ہیں۔کربلا بھی پرپا ہوتی ہے مگر اسلام کے مکمل ظابطہ حیات کے ساتھ نواسہ رسول کا دیا ہوا ایک نظریہ اور فلسفہ حیات ہی اس دنیا اور مافیہہ کی اصل حقیقت ہے ۔