اپنی تخلیق سے مایوس نہیں ہوں بیدل
میں نے اربابِ نظر کے لیے چھوڑا ہے بہت
ڈاکٹر بیدل حیدری کو برصغیر پاک و ہند کے شاعر اور استاد سخن ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔انہوں نے کبیروالا جیسے چھوٹے سے قصبہ میں بیٹھ کر اردو ادب کے صف اول شعراء کرام میں اپنا شمار کروایا۔بیدل حیدری 20 اکتوبر سنہ 1920ء کو میرٹھ (بھارت) میں پیدا ہوئے۔آپ کا اصل نام عبدالرحمن اور قلمی نام بیدل حیدری تھا۔آپ نے سولہ سال کی عمر میں شاعری کا آغاز کیا اور آپ نے جو پہلی غزل کہی اس کا مطلع یہ تھا۔
تم ہمارے ہو، ہم تمہارے ہیں
ایک دریا کے دو کنارے ہیں
بیدل حیدری کی شاعری میں رومان، پسے ہوئے طبقات کے مسائل اور گھر کا سارا سامان پشت پہ لادے ہجرت کرتے انسانوں کے دکھوں کا ذکر ملتا ہے۔انہوں نے شاعری میں استاد شاعرجلال الدین حیدر دہلوی کی شاگردی اختیار کی اور اپنے استاد محترم سے خاص انس ہونے کی وجہ سے اپنا تخلص حیدری رکھا۔برصغیر کے تقسیم کے بعد آپ نے اپنے آبائی علاقہ سے ہجرت کی اور لاہور کو اپنا مسکن بنایا جہاں قیام کے دوران سنہ 1956ء میں آپ کی شاعری پر مشتمل پہلی کتاب ”اوراق گل“ شائع ہوئی جو وقت کے ساتھ ناپید ہو گئی۔بعد ازاں آپ نے کبیر والاکو اپنامسکن بنایا ۔ ڈاکٹر بیدل حیدری نے نصف صدی سے زائد دنیائے ادب پر حکمرانی کی اور آج بھی اپنی لازوال شاعری کے ذریعے اہل سخن کے دلوں پر راج کر رہے ہیں۔کبیروالا میں ان کے کلینک پر مریضان صحت سے زیادہ وابستگان ادب کی آند و رفت رہتی تھی ۔ بیدل حیدری نے کبیروالا جیسے چھوٹے سے شہر کو علم و ادب کے بڑے مراکز کراچی، لاہور، ملتان کے برابر لا کھڑا کیا انہوں نے اپنی ادبی تنظیم ”کاروان ادب“ کے پلیٹ فارم سے کبیروالا میں قومی سطح کے مشاعرے کروائے جن میں نامور اہل قلم حبیب جالب، احمد ندیم قاسمی، و دیگر تشریف لاتے رہے۔
”کلیات بیدل حیدری“ ادبی ادارہ ’’ادب و ثقافت انٹرنیشنل‘‘ نے 2015ء میں شائع کی۔ڈاکٹر بیدل حیدری کو فن عروض پر ایک اتھارٹی تسلیم کیا جاتا تھا کیونکہ فنی نقائص پر آپ کی گرفت بہت سخت ہوتی تھی۔آپ کی شاعری پر مشتمل تین مزید کتابیں میری نظمیں، پشت پہ گھر اور ان کہی شائع ہوئیں اور اہل سخن میں مقبولیت کے درجہ پر فائز ہوئیں۔
بیدل حیدری کے شاگردوں کی بڑی تعداد ملک اور بیرون ملک موجود ہے جو ادب کی خدمت کرنے میں مصروف ہیں گو کہ ڈاکٹر بیدل حیدری نے صرف اردو میں شاعری کی مگر ان کے شاگردوں میں سرائیکی اور پنجابی زبان کے شاعر بھی موجود ہیں ۔اردو ادب کی نامور شخصیات کے مطابق بیدل حیدری کی شاعری اس بات کو ثبوت ہے کہ انہوں نے اپنی پیرانہ سالی کے باوجود روایت اور جدت کو بہت خوبصورت انداز میں پیش کیا ہے۔برصغیر پاک و ہند میں شاعری کی مضبوط آواز ڈاکٹر بیدل حیدری کی وفات سات مارچ سنہ 2004ء کو کبیروالا میں ہوئی۔
یہ ساری خرابی غلط رزق کی ہے بیدل
اڑنے سے جو قاصر ہیں دعاؤں کے پرندے