سکردو : گلگت بلتستان کے حکام نے پاکستانی کوہ پیما علی سدپارہ سمیت دنیا کے دوسرے بلند ترین پہاڑ کے ٹو کو موسمِ سرما میں سر کرنے کی کوشش کے دوران لاپتہ ہونے والے تین کوہ پیماؤں کی موت کی تصدیق کرتے ہوئے ان کی تلاش کے لیے جاری کارروائی ختم کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔ علی سدپارہ، آئس لینڈ کے جان سنوری اور چلی کے ہوان پابلو موہر کو پانچ فروری کو آٹھ ہزار میٹر سے زیادہ بلندی پر کے ٹو کی چوٹی کے قریب آخری مرتبہ علی سدپارہ کے بیٹے ساجد سدپارہ نے دیکھا تھا جو آکسیجن ریگولیٹر کی خرابی کی وجہ سے مہم ادھوری چھوڑ کر واپس آنے پر مجبور ہو گئے تھے۔ علی سدپارہ اور ساجد سدپارہ اس مہم میں بطور ہائی ایلٹیچیوڈ پورٹر شریک تھے۔
اپنے والد سمیت تینوں کوہ پیماؤں کی موت کا اعلان بھی ساجد سدپارہ نے ہی جمعرات کو سکردو میں منعقدہ ایک پریس کانفرنس میں کیا۔ ساجد سدپارہ کا کہنا تھا کہ ’کےٹو نے میرے والد کو ہمیشہ کے لیے اپنی آغوش میں لے لیا ہے۔‘ اس پریس کانفرنس میں ساجد سدپارہ کے ہمراہ گلگت بلتستان حکومت کے وزیر سیاحت راجہ ناصر علی خان کے علاوہ جان سنوری اور جے پی موہر کے اہلخانہ اور دوست بھی موجود تھے۔ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وزیر سیاحت راجہ ناصر علی خان کا کہنا تھا کہ موسمی حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے حکومت، پاکستانی فوج اور تینوں کوہ پیماؤں کے لواحقین اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ لاپتہ کوہ پیما اب اس دنیا میں نہیں رہے۔ خیال رہے کہ علی سدپارہ اور ان کے ساتھیوں کی تلاش کے لیے سرچ اینڈ ریسکیو آپریشن چھ فروری سے جاری تھا جسے موسم کی خرابی کی وجہ سے درمیان میں روکنا بھی پڑا تھا۔ ساجد سدپارہ نے اس موقع پر امدادی آپریشن میں مدد کرنے پر حکومت پاکستان، پاکستان آرمی، حکومتِ گلگت بلتستان، دوست ممالک کے علاوہ دنیا بھر میں موجودہ کوہ پیما کیمونٹی کا بھی شکریہ ادا کیا۔
محمد علی سدپارہ کے بیٹے مظاہر حسین نے اپنے والد کی یادیں بی بی سی سے شیئر کرتے ہوئے کہا ’میرے ابو حوصلے کا پہاڑ تھے۔ کوہ پیمائی کی ہر مہم پر جانے سے پہلے امی اور ہم لوگوں سے ہنستے مسکراتے مل کر جاتے اور تسلی دیتے کہ سب ٹھیک ہو گا۔ وہ کہتے کہ بس تم لوگوں نے پریشان نہیں ہونا بلکہ ہر صورتحال کا سامنا کرنا ہے۔ کے ٹو کی مہم پر جانے سے پہلے بھی انھوں نے ہم سے یہی کہا تھا۔‘ مظاہر حسین نے بتایا کہ ’ہم نے اپنے ابو کو ہمیشہ ہنستے مسکراتے دیکھا۔ وہ تو پہاڑوں کے عشق میں مبتلا تھے اور کوہ پیمائی تو ان کا جنون تھا۔ وہ مجھے ہمیشہ کہتے تھے کہ مزہ تو تب ہے جب تم تعلیم حاصل کرو اور کوئی کارنامہ سرانجام دو۔‘
45 سالہ علی سدپارہ کو موسم سرما میں دنیا کی بلند ترین چوٹی نانگا پربت سر کرنے کا اعزاز حاصل ہے۔ کوہ پیمائی میں اپنی مہارت کی وجہ سے انھیں قومی اور بین الاقوامی سطح پر شہرت حاصل ہوئی۔ مظاہر کے مطابق ان کے والد اکثر اپنے بچوں سے کہا کرتے کہ ’دیکھو میرے کتنے دوست اور ساتھی اس خطرناک کھیل (کوہ پیمائی) کی بھینٹ چڑھ گئے ہیں۔ درحقیقت وہ چاہتے تھے کہ پہلے ہم اچھی تعلیم حاصل کریں، پھر چاہیں تو کوہ پیمائی کا شوق پورا کریں۔ میرے ابو کا ماننا تھا کہ اگر ہم اچھی تعلیم حاصل کر پائیں گے تو اس کی مدد سے ہم کوہ پیمائی میں بھی بہتر کارگردگی کا مظاہرہ کر سکیں گے۔‘ مگر مظاہر حسین کہتے ہیں کہ شاید ’کوہ پیمائی ہمارے خون میں شامل ہے۔‘
مظاہر کے مطابق انھوں نے اپنے ابو کی تعلیم حاصل کرنے کی بات سے اتفاق کیا اور اپنی تمام تر توجہ پڑھائی پر مرکوز کی۔ ’لیکن میرے بڑے بھائی ساجد سد پارہ بالکل ابو جیسے ہیں۔ انھوں نے کوہ پیمائی جاری رکھی جس کے نتیجے میں ابو ہر مہم پر اب ان کو ساتھ لے کر جانے لگے تھے۔‘
باپ بیٹے کی آٹھ ہزار میٹر پر ’آخری ملاقات‘
مظاہر حسین بتاتے ہیں کہ اُن کے ماموں کی ساجد سدپارہ سے بات ہوئی ہے۔ ساجد سد پارہ نے بتایا ہے کہ ’آٹھ ہزار میٹر کی بلندی سے تھوڑا اوپر بوٹل نیک پر ساجد سدپارہ کو آکسیجن کی ضرورت محسوس ہوئی مگر ان کے آکسیجن سلنڈر کا ریگولیٹر خراب ہو گیا تھا۔‘ اس موقع پر محمد علی سدپارہ نے ساجد سدپارہ کو واپس جانے کی ہدایت کی۔ ’ابو نے ساجد کو کہا کہ ریگولیٹر کے بغیر اب وہ مزید اوپر نہیں جا سکتے۔ اس پر ساجد نے اس نازک موقع پر کوئی بحث نہیں کی کیونکہ اس وقت ان کے خیال میں تاریخ ساز کامیابی حاصل کرنے میں اب کچھ ہی فاصلہ باقی تھا۔‘
مظاہر کہتے ہیں کہ ’ساجد نے میرے ماموں کو بتایا کہ جب وہ نیچے آ رہا تھا تو ابو نے اسے انتہائی جذباتی انداز میں زور سے گلے لگایا۔ پھر ہدایت کی کہ احتیاط سے جانا۔ خیال رکھنا، ہم بھی جلد ہی واپس آ جائیں ہیں۔‘ ’جب ساجد نیچے اتر رہے تھے تو ابو کافی دیر تک اُن کو نیچے اترتے ہوئے دیکھتے رہے تھے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’شاید ابو کی چھٹی حس نے انھیں کسی ناگہانی آفت سے وقت سے پہلے ہی کر دیا تھا۔ انھوں نے اپنے مزاج کے برخلاف ساجد کو واپس بھیجا تھا۔‘ چند روز قبل سکردو میں میڈیا سے بات کرتے ہوئے ساجد سد پارہ نے بتایا تھا کہ واپس کیمپ تھری پر آ کر انھوں نے ساری رات لائٹس آن کر کے رکھیں تھیں کہ ٹیم واپس آئے گئی تو ان کو چائے بنا کر دیں گے۔ انھوں نے نہیں آنا تھا، نہیں آئے۔ ساجد سدپارہ پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ اب ان کے والد کی تلاش کے آپریشن کو ان کی میت کی تلاش کے آپریشن کے طور پر جاری رکھنا چاہیے۔
( بشکریہ : بی بی سی اردو )