جوانی میں جنازوں پر جانے سے وحشت ہوتی تھی۔ کبھی غم، کبھی غصہ، اور ہمیشہ زندگی کی بے ثباتی کا احساس۔
اب ایسا کچھ نہیں ہوتا، ایک نماز، ایک معانقہ اور ایک دعا۔
اب کسی جنازے پر جانا ایسا ہی لگتا ہے جیسے بچے کو اس کے دوست کی برتھ ڈے پارٹی پر لے کر جانا۔
وہاں پر دوسرے بچوں کے والدین سے ہلکی پھلکی گپ شپ کرنا اور واپس آ جانا۔
بلکہ اب تو یہ احساس بھی ہونے لگا ہے کہ ہمارے جنازے بڑے سہل ہیں اور جدید زمانوں کے تقاضوں کے مطابق ہیں۔ جتنا ٹائم ایک سگریٹ پینے میں لگتا ہے اتنی دیر میں ہم نماز جنازہ پڑھ کر سلام پھیر لیتے ہیں۔
ایک دوست نے حال ہی میں سمجھایا کہ جنازوں سے وحشت اس لیے نہیں ہوتی کہ ہمارے جتنے دوست عزیز زمین پر موجود ہیں ان سے زیادہ اب زمین کے نیچے ہیں جن میں سے زیادہ تر کو ہم اپنے ہاتھوں دفنا چکے ہیں۔ اب وحشت کاہے کی۔
تو میت کا انتظار تھا۔ مصافحوں کے بعد وہی سوال کہ مرحوم کو کیا مرض تھا، انتقال کتنے بجے ہوا، تیسرا سوال پوچھا گیا کہ یہ عثمان بزدار کب جائے گا؟
میرے پاس تو اس سوال کا بھی جواب نہیں کہ وہ آئے کب تھے اور کیوں اب میں جانے کا کیا بتاؤں۔ لیکن مجھے احساس ہوا کہ ہمارے لوگ چاہے وہ گاؤں کے ہوں، بڑے شہر کے باسی ہوں یا کہیں بیچ میں پھنسے ہوں سب کو ایک ہی شوق ہے سیاست پر بات کرنے کا۔
کبھی ایسے نہیں ہوا کہ کسی رشتے دار، پرانے دوست یا پھر ٹرین یا جہاز میں ساتھ بیٹھنے والے سے گفتگو شروع ہوئی ہو اور ٹھیک تیسرے منٹ میں اس نے یہ نہ پوچھا ہو کہ تو کیا عمران خان کی واقعی۔۔۔؟
کسی حد تک یہ بات سمجھ آتی ہے کہ سیاست ہماری گھٹی میں اس لیے بھی پڑی ہوئی ہے کیونکہ ہمارا روٹی روزگار، ہماری سکیورٹی، ہمارے بچوں کا مستقبل سب سے سیاست جڑا ہوا ہے تو لوگ اس پر یقینا ًبات کریں گے۔
لیکن ہم نے سیاست کے معنی اتنے محدود کر دیے ہیں کہ ہماری سماجی زندگی ایک مسلسل ٹاک شو بن کر رہ گئی ہے جس میں گمبھیر اینکر سر ہلا ہلا کر پوچھتے ہیں کہ تو پھر آپ اس کو کیسے دیکھتے ہیں۔ تو کیا آپ یہ نہیں سمجھتے کہ جو خواب علامہ اقبال نے دیکھا تھا جس کی تعبیر قائد اعظم نے کی تھی وہ۔۔۔
اور سچی بات یہ ہے کہ سوال کا جواب بھی آپ کو سوال میں ہی مل جاتا ہے، ورنہ سوال کرنے والا آپ کو اس وقت تک سمجھاتا رہے گا جب تک امام صفیں درست نہ کروانے لگے۔
ہمارے سیاسی سوال بھی بہت ارجنٹ قسم کے ہوتے ہیں جیسے ہماری زندگی موت کا انحصار اسی بات پر ہو کہ حمزہ شہباز کو عبوری ضمانت پانچ دن کی ملی یا سات دن کی۔ آپ کو پتا ہے کہ فیاض چوہان کونسی وزارت میں واپس آ رہا ہے؟ صدارتی نظام کا شوشہ بنے یا واقعی اس پر کوئی بات چل رہی ہے؟
شادیوں پر، ہسپتالوں میں، بن کباب کی ریڑیوں پر، کریم والی کاروں میں اور ہاں جنازوں میں بھی کبھی کبھی کسی نے سلام و دعا کے بعد یہ نہیں پوچھا کہ بھائی آج کل کتاب کونسی پڑھ رہے ہیں۔ یہ جو گرمیاں آ گئيں لیکن لاہور کی فضا اب بھی زہر آلود ہے۔ اس پر کوئی تحقیق ہو رہی ہے؟ جلیانوالہ باغ پر کوئی اچھی ڈاکومنٹری مل سکتی ہے؟
نواز شریف کے دل کی ہر شریان کا حال پوری قوم جانتی ہے لیکن نہ کوئی بتاتا ہے نہ کوئی پوچھتا ہے کہ لاہور شہر کے کنارے ایک راوی دریا ہوتا تھا وہ کہاں مر گیا۔
جوانی میں پڑھے جنازوں میں ایک رسم ایسی تھی کہ آخری رسوم سے پہلے مرحوم کا کوئی وارث کھڑا ہو کر سوال پوچھتا تھا کہ اگر مرحوم نے کسی کا قرض دینا ہے تو وہ ہاتھ اٹھا کر بولے یا دل ہی دل میں معاف کر دے۔
میں نے کبھی کسی کو ہاتھ اٹھاتے نہیں دیکھا لیکن سنا ہے کہ بعض جنازوں میں لوگ ہاتھ اٹھا کر اپنا قرض مانگ لیتے تھے۔ ایک دفعہ تو اتنے ہاتھ اٹھ گئے کہ بیچارے وارث کو کہنا پڑا کہ وہ تو ٹھیک ہے اب میت اٹھ کر گواہی دے تو میں تب مانوں گا۔
اب شاید یہ رسم اس لیے نہیں رہی کہ نیب اس زندگی میں ہی سب کا حساب کرنے کے درپے ہے اور مرحوم بھی شاید دنیا سے یہی پوچھتا جاتا ہے کہ آخر جو خواب علامہ اقبال نے دیکھا تھا، جس کی تعبیر۔۔۔ اور کیا عمران خان ایک بار پھر۔۔۔
( بشکریہ: بی بی سی اردو )
فیس بک کمینٹ