شجاع آباد شہر اپنے اندر ایک تاریخ سموئے ہوئے ہے۔ تا ریخی کتب کے مطابق بانی شجاع آباد مسلم حکمران مولتان صوبہ نواب شجاع خان ولد نواب زاہد خان سدو زئی نے 1748ءمیں اپنے ہی نام سے اس شہر کی بنیاد رکھی۔وہ 1763ءمیں مولتان صوبہ کے گورنر بنے ۔ ان کے چار بیٹے تھے۔ بڑا بیٹا مظفر خان سدوزئی جو ان کی وفات کے بعد حاکم مولتان صوبہ کا گورنر بنا۔ ملتان کا نواحی علاقہ مظفر آباد اور ضلع مظفر گڑھ ان کے بڑے بیٹے کے نام سے منسوب ہے۔ان کا دوسرا بیٹا سکندر خان سدو زئی تھا جس کے نام پر شجاع آباد کے نواحی علاقے میں قصبہ سکندر آباد ہے۔ تیسرا بیٹا غضنفر خان اور چوتھا بیٹا سنجر خان سدوزئی ہے۔ نواب شجاع خان کا شجرہ نسب امیر افغاں حضرت سدو سے جا ملتاہے جو سدو زئی قبیلے کے بانی تھے۔ نواب شجاع خان کے آباﺅ اجداد مولتان میں آباد ہوئے۔ 1648ءمیں شاہ حسین سدوزئی نے اپنے نام سے محلہ کڑی چاہ حسین ملتان میں آباد کیا۔1648ءمیں ہی اپنے بزرگوں کے نام پر ابدالی مسجد تعمیر کر ائی اور اپنے لئے ساتھ ہی شیش محل بنوایا ۔ 1700ءمیں شاہ حسین سدوزئی نے وفات پائی اور ابدالی مسجد ملتان سے ملحقہ مدرسہ میں ان کا مقبرہ ہے۔ 1767ءمیں شاہ دردان (امیر افغان) احمد خان سدوزئی المعروف احمد شاہ ابدالی نے نواب شجاع خان سدوزئی (حاکم مولتان صوبہ ) کو ”صفدر جنگ“ کا خطاب دیا ۔ شجاع خان کی وفات کے بعد ان کے بڑے بیٹے مظفر خان سدو زئی (حکام مولتان صوبہ گورنر)کے اعزاز میں احمد شاہ ابدالی کے بیٹے تیمور شاہ درانی سدو زئی نے 1780ءمیں نواب صفدر جنگ کا خطاب بحال رکھا ۔ فروری 1818ءمیں مولتان ، رنگ پور ، مظفر گڑھ اور شجاع آباد میں سکھوں کے مسلسل حملے ہوئے ۔ اس دوران مقبرہ شجاع خان کو بھی نقصان پہنچا۔ اس شہر کے گرد بھی فصیل قائم ہے جس کے متعلق بتایا جاتا ہے کہ 1767ءمیں یہ فصیل اور چار دروازے قائم کئے گئے ۔ ہم” چوطاقہ “ چوک سے گزر کر نواب شجاع خان کے مقبرہ پر پہنچے ۔ اس فصیل کے اندر آج بازار بن چکے ہیں جبکہ نواب شجاع خان کے زمانے میں یہ قلعہ ہوتا تھا ۔ نواب شجاع خان کے مقبرہ کے سامنے والی دیوار پر ایک پرانی سی تختی لگی ہوئی ہے اور دیوار کے ساتھ ساتھ کچھ ٹوٹی ہوئی اینٹوں کے نشانات بھی موجود ہیں اس کے اوپر ہی ماربل کی ایک تختی لگی ہوئی تھی جس پر کلمہ لکھا ہو ا ہے اور تحریر درج ہے کہ یہ جو نیچے پرانی تختی ہے اس پر کلمہ لکھا ہوا تھا جس کو رنجیت سنگھ نے گولیوں سے شہید کر دیا تھا اور بتایا گیا کہ یہ دیوار میں سوراخ بھی انہی لگنے والی گولیوں کے ہیں ۔ قدیم زمانے میں قلعہ کو محفوظ بنانے کے لئے رات کے وقت دروازے بند کر دئے جاتے تھے۔
نواب شجاع خان کی وفات 1775ءمیں ہوئی اور انہیں شہر کے قدیمی قبرستان میں دفن کیا گیا ۔ شہر میں ہی ایک” سالے مار“ محلہ موجود ہے جس کو اب شالیمار محلہ کہا جاتا ہے ۔ اس کے متعلق بتایا گیا کہ نواب شجاع کے محل سے اس جگہ تک اس وقت ایک زیر زمین راستہ بنایا گیا تھا جس کو” سرنگ “ کہا جاتا ہے ۔اس”سرنگ“سے گزر کر نواب شجاع خان اس جگہ پر آ کر چہل قدمی کیا کرتے تھے ۔ نواب شجاع کے محل میں ان کا برادر نسبتی بھی ساتھ رہتا تھا ۔ ایک دن وہ چہل قدمی کے لئے سرنگ عبور کر کے اس جگہ پر پہنچا تو وہاں ایک غیر مسلم خاتون کوتنہا دیکھ کر اس کی نیت بدل گئی اور اس عورت کی عزت پر حملہ کر نا چاہا تو اسی دوران خاتون کا خاوند بھی آ گیا اور بات لڑائی جھگڑے تک پہنچ گئی اور اس کو قتل کر دیا۔جب اس کو قتل کیا گیا تو اس وقت بارش ہو رہی تھی اس وقت اور تو کوئی گواہ موجود نہ تھا تو مقتول کے آخری الفاظ تھے کہ اے بارش گواہ رہنا اس نے مجھے بے گناہ قتل کیا ہے اس واقعہ کو کافی دن گزر گئے ایک دن نواب شجاع خان اپنی بیگم اور اپنے اس سالے کے ساتھ محل کی بالکونی پر کھڑے بارش کا نظارہ کر رہے تھے کہ اچانک وہ ہنسنے لگ گیا اور جب نواب شجاع نے بے سبب ہنسنی کی وجہ پوچھی تو وہ خاموش ہو گیا۔ بہر حال جب بہت زیادہ اصرار پر بھی ہنسی کی وجہ نہ بتائی تو نواب شجاع نے اسے زندان میں قید کروادیا اور اپنی بیوی سے کہا کہ جا کر اپنے بھائی سے ہنسی کی وجہ پوچھ کر آؤ۔ جب نواب کی بیوی اپنے بھائی کے پاس زندان میں گئی اور وجہ پوچھی تو اس نے وہ واقعہ سنایا اور کہا کہ میں اس لئے ہنسا کہ بارش کیسے گواہ بن سکتی ہے اس نے جب آ کر اپنے خاوند کو یہ بات بتائی تو نواب شجاع خان نے اسے اسی جگہ لے جا کر قتل کر وا دیا ۔ بتایا جا تا ہے کہ اسی وجہ سے اس جگہ کو ”سالے مار “ کہا جاتا ہے
فیس بک کمینٹ