سخن ور فورم کو یہ اعزاز بھی حاصل ہوا کہ اس نے جمعرات 28 ستمبرکو پہلے ردیفیہ مسالمے کا انعقاد کیا ۔ یہ مسالمہ ملتان آرٹس کونسل کی ادبی بیٹھک میں منعقد ہوا ۔ مسالمے میں ”ماتم“ کی ردیف میں پیش کئے جانے والے سلام اس پوسٹ میں شامل کئے جائیں گے ۔ بعد ازاں انہیں کتاب کی صورت میں بھی شائع کیا جائے گا ۔ جو دوست مسالمے میں شریک نہیں ہو سکے وہ بھی اس ردیف میں اپنے سلام ارسال کر کے اس پہلے ردیفیہ مسالمے کا حصہ بن سکتے ہیں ۔ ۔
۔۔۔۔۔۔
جو دیکھی مقتلِ خوں رنگ کی فضا ماتم
غموں کے دشت کی تصویر بن گیا ماتم
سو اس کے سامنے رہتی ہے سرنگوں ظلمت
جمالِ رنج سے پاتا ہے وہ ضیا ماتم
گماں ہے آمد و شُد دیکھ کر یہ سانسوں کا
کہ جیسے سینے کے اندر ہو مبتلا ماتم
کسی کے حُسنِ مودت میں گرم رو آنسو
کسی کے عشق کی معراج انتہا ماتم
تجھے خبر نہیں شاید یہ واعظِ ناداں
کہ درد سینوں میں کرتا ہے خود بپا ماتم
جو دیکھا لاشہء ہابیل تو بہ فرطِ غم
زمیں پہ بیٹھ کے آدم نے تھا کیا ماتم
سمجھ کے درس کرامت اسے عبادت کا
غمِ حسینؑ میں ہوتا ہے جابجا ماتم
۔۔ سید کرامت گردیزی
……
ہزار سال سے جاری ہے روایتِ ماتم
لکھی گئی ہے لہو سے حکایتِ ماتم
ہے سوگوار فضااور اداس اداس ہے دل
کہ کربلا کی زمیں ہے علامتِ ماتم
ہر ایک دور کے مظلوم کی کہانی ہے
زمانہ لکھتا ہے خود ہی صداقتِ ماتم
لبِ فرات دریدہ ہوا ہے مشکیزہ
یہ تیرِ ظلم تھا وجہِ قیامتِ ماتم
نمودِ صبح سے پہلے ہوئی سحر پیدا
بجھے چراغ نے دی ہے شہادتِ ماتم
وہ اہلِ بیت کے خیمے تھے جو جلائے گئے
یہ آگ بنتی گئی ہے نظامتِ ماتم
رموزِ غم سے ہمیں غم زدہ ہی واقف ہیں
اسی لیے ہیں امینِ وراثتِ ماتم
۔۔ ڈاکٹر محمد امین
۔۔۔۔۔۔
تف یزیدی ستم ہوا ماتم
ہے جو دنیا میں جا بجا ماتم
خونِ ناحق گرا ہے دھرتی پر
پھر کرے کیوں نہ کربلا ماتم
آنسوؤں سے عیاں حسین ؓ کا غم
دل کی دھڑکن کی ہے صدا ماتم
اس میں آلِ عبا کا غم پنہاں
یوں یہ ہر سو ہے مرحبا ماتم
ننھے اصغر ؓ پہ یہ ستم کا تیر
کر رہا ہے یہ تذکرہ ماتم
پیاس کو یاد کر رہا ہے فرات
شورِ دریا میں ہے بپا ماتم
خونِ شبیر ؓ کی ہے یاد شفق
رنگ دکھلا رہا ہے کیا ماتم
خاندانِ نبیؐ پر اتنا ظلم
کیوں نہ ہو اس پہ پھر روا ماتم
داستاں کربلا کی لکھوں وسیم
اور کریں لفظ با خدا ماتم
۔۔ وسیم ممتاز
……
صبح کا ماتم ہے شام کا ماتم
کربلا خود ہے کربلا ماتم
غم ِ شبیر تیرا احساں ہے
بخش دیتا ہے جو جِلا ماتم
جس کی تاریخ میں مثال نہیں
وہ زمیں پر بپا ہوا ماتم
آسمانوں سے کیسے ضبط ہوا
مصطفیٰؐ تیری آل کا ماتم
پوچھنا ہے یزید تجھ سے یہی
کیا دلوں سے مٹا سکا ماتم
کربلا کی زمیں پہ لے پہنچا
خواب میں ایک جاگتا ماتم
حلق تشنہ تھے سست رُو خنجر
اور اس پر فُرات کا ماتم
برتری حق کی ہوگئ ثابت
ہے صداقت کا بولتا ماتم
بن گیا ہے اساسِ کون و مکان
فاطمہ تیرے لعل کا ماتم
دل میں گونجی صدائے کرب و بلا
پڑھ کے جب مرثیہ کیا ماتم
ہے یہی تو حُسنیت رہبر
ابتدا غم تو انتہا ماتم
۔۔ رہبر صمدانی
۔۔۔۔۔۔
تشنگی اور بڑھا دیتا ہے تشنہ ماتم
صحنِ ادراک میں برپا ہوا کیسا ماتم
تھر تھرا اُٹھا تھا خود عرشِ معلیٰ کا وجود
یومِ عاشور تھا اور آخری شب کا ماتم
مرثیہ خوانی نے بخشا مجھے جینے کا جواز
دل کی دھڑکن کا سبب ہے یہ دھڑکتا ماتم
سینہ کوبی ہے عجب اور عزاداری ہے
کربلا والوں کا ہوتا ہے نرالا ماتم
کر گیا دیں کو جلایاب بہَتَر کا لہو
یہ دکھاتا ہے تڑپنے کا نظارہ ماتم
آگئی شامِ غریباں مجھے رو لینے دو
کرنے دو آج مجھے ابنِ علی ؓ کا ماتم
غمِ شبیر ؓ سے یہ عقدہ کھلا ہے سرور
میرے جینے کا فقط اب ہے سہارا ماتم
۔۔ سرور صمدانی
……
زوالِ سطوتِ شاہی کی ابتدا ماتم
ہے انقلاب ِحسینی کی انتہا ماتم
غمِ حسینؑ میں مضمر شفائے روح و بدن
علاجِ حزنِ خلائق ہے باخدا ماتم
یہ اک تسلسلِ کرب و بلا ہے اہلِ نظر!
کہ روز اٹھتے ہیں لاشے،ہے جابجا ماتم
نہ رک سکے گا یزیدو ں سے حشر تک ماتم
کہ ہے حسینؑ کا یہ زندہ معجزہ ماتم
کسی گروہ کا ہرگز نہیں حسینؑ مگر
ستم گروں کے لئے ہے یہ ناروا ماتم
حسینیت تو ہے انسانیت کی آئینہ دار
جو اہل ِدل ہیں وہ کرتے ہیں شاہ کا ماتم
کبھی تو ہم کو بلائیں گے کربلا مولا
کبھی تو ہم بھی کریں گے وہاں رضاؔماتم
۔۔ سیدرضا مہدی باقری
……
کربل والوں کے دم سے ہم کو ہے پیارا ماتم
اپنے دکھوں کا اس جیون میں ایک سہارا ماتم
جہاں پہ مشکیزے پر تیر لگا تھا اک ظالم کا
کرتا ہوگا نہر ِفرات کا اب وہ کنارہ ماتم
کربل کے دامن میں سیکھیں عشق کی رمزیں ساری
نیزے پر ہے محو تلاوت راج دلارہ ، ماتم
تپتی ریت پہ وہ ننھی معصوم سسکتی جانیں
جن کے لہو سے جیون کا ہر اک ہے شمارہ ماتم
جب تاریکی میں بی بی زینب کے دکھ کو سوچا
ان پلکوں پر چمک اٹھا تھا ایک ستارا ماتم
عشق خدا میں ہجر اور وصل کا اک جیسا ملبوس
اور یہی ملبوس تو خود کرتا ہے اشارہ ماتم
اپنا جیون تو نجمہ اس دھارے میں بہتا ہے
ایک کنارہ گریے والا ایک کنارہ ماتم
۔۔ ڈاکٹر نجمہ شاہین کھوسہ
۔۔۔۔۔۔
نبی کی آل لٹی اور ہوا بپا ماتم
اور اب تو حشر تلک کا ہےسلسلہ ماتم
تڑپتے دل ہیں تو پڑتے ہیں ہاتھ سینوں پر
نہیں ہے رسم کوئی اور نہ مشغلہ ماتم
کہانی کرب و بلا کی عجب کہانی ہے
شہید جس نے کیے اس کے گھر بچھا ماتم
زمیں نے پوچھا کہ جنت کا راستہ ہے کہاں
جواب دیتے ہوئے عرش نے کہا ماتم
یزیدِِ وقت بھی ماتم کناں ہے جانتا ہوں
مگر ہے اس کا جدا اور مرا جدا ماتم
حقیقتوں کا ہے ادراک اس سے پوشیدہ
مری بقا ہے مگر اس کی ہے سزا ماتم
مجھے بھی چاہیے اشہر حسینیت کی نیاز
کسی کا کوئی بھی ہو میرا فیصلہ ماتم
۔۔ اشہر حسن کامران
……
ہے مومنوں کی حیات ماتم
منافقوں کی ممات ماتم
حسینؑ کے غم میں کر رہا ہے
اک ایک لمحہ فرا ت ماتم
حسینی ہو کر گلی گلی میں
اٹھا کے کیجے گا ہات ماتم
حسینیوں کی جہان بھر میں
فقط متاعِ حیات ماتم
نجات پائے گا نار سے وہ
سمجھ گیا جو نکات ماتم
۔۔ مرتضیٰ زمان گردیزی
……
شبیر کا ماتم ہے یہ دلگیر کا ماتم
قرآن کی تصویر کا تفسیر کا ماتم
یہ نسبتِ شبیر ہے جھکنے نہیں دیتی
کرتی ہی نہیں میں بھی تقدیر کا ماتم
محشر میں محمدؐ کی شفاعت ہے اسی کی
کرتا ہے جو اسلام کی جاگیر کا ماتم
کہنے کو تو چھ ماہ کا ننھا سا پسر تھا
تا حشر چلے گا یہاں بے شیر کا ماتم
مانا کہ یہ شبیر کی عظمت ہے شہادت
کرتی ہوں مگر شاہ کی ہمشیر کا ماتم
۔۔ فضہ شہوار