ماہِ محرم کا عشرہءاول اپنے اختتام کی جانب گامزن ہے۔ اس عشرے کے ساتھ مسلمانوں کی تاریخ کے ایک الم ناک باب کی یاد وابستہ ہے۔ ماہِ محرم اورخاص طور پر اس کا عشرہءاول مسلمانوں کی اکثریت کے لیے سوگ اور غم کا دورانیہ ہے۔ روایتی مجالسِ عزا سخت سکیورٹی میں ہمیشہ کی طرح جاری و ساری ہیں۔ خدا سب انسانی جانوں کو اپنے حفظ و امان میں رکھے۔ عالمِ اسلام کی سماجی، ثقافتی اور ادبی تاریخ میں عزاداری ، مرثیہ خوانی اور تعزیہ داری ایک منفرد شناخت کے حامل ہیں۔ ایسے میں جب محرم کا چاند نظر آتے ہی مسلمانوں کی اکثریت غم و الم کی چادراوڑھ لیتی ہے، کئی افراد فیس بک اور واٹس ایپ گروپس وغیرہ میں نئے اسلامی سال کی آمد کی مبارکباد پیش کرتے ہوئے پائے جاتے ہیں ۔ ا پنے عقائد کے مطابق سوچنا اور زندگی گزارنا ہر فرد کا بنیادی حق ہے مگر دوسروں کے عقائد اور مذہبی جذبات کا احترام بھی ازبسکہ ضروری ہے۔ اگر آپ کو نئے اسلامی سال کی آمد کی اس قدر ہی خوشی ہوئی ہے (ہر چند کہ آپ کی زندگی کے اکثر معمولات کا انحصار عیسوی کیلنڈر پر ہے) تو اسے اپنے اور اپنے ہم خیال لوگوں تک ہی محدود رکھیں ۔ یہ احساس کرنا بھی لازم ہے کہ آپ کا یہ اظہارِ مسرت دیگر افراد کے جذبات کو ٹھیس پہنچانے کا موجب ہے۔
تاریخِ اسلام کا یہ پہلو کس قدر افسوسناک ہے کہ پیغمبرِاسلامؐ کی آفاقی تعلیمات بھی عرب معاشرے میں پھیلی قبائل عصبیت کی جڑوں کو کمزور نہ کر سکیں اور موقع ملتے ہی قریشِ مکہ میں چلی آتی بنوہاشم اور بنوامیہ کی قدیم چپقلش نے تاریخِ اسلام کے صفحات کو خون سے سرخ کیا اور بالآخر نواسہءرسول کی المناک شہادت پر متنج ہوئی۔ عربوں کی تاریخ کے مطابق عرب قبائل کو بنیادی طور پر دو گروہوں عدنانی عربوں اور قحطانی عربوں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ عدنان کی نسل سے بتائے جانے والے عدنانی عرب، عرب کے شمال، وسط اور مغرب کے خطہ زمین میں آباد قبائل پر مشتعمل تھے جبکہ دوسری جانب سرزمینِ عرب کا جنوب اور جنوب مشرقی علاقہ قحطانی قبائل کی آماجگاہ تھا۔ قبیلہ قریش کا تعلق عدنانی عربوں سے تھا۔ عرب تاریخی روایات کے مطابق بنو قریش کے سردار عبدمناف ابنِ قوسائی کے ہاں ہاشم ابنِ مناف اور عبد شمس ابنِ مناف نامی دو جڑواں بھائیوں نے اس صورت میں جنم لیا کہ ہاشم کی ایک ٹانگ عبد مناف کے سر کے ساتھ جڑی ہوئی تھی۔ عربوں میں کہا جاتا ہے تھا کہ وہ دونوں پیدائش کے وقت ماں کے پیٹ میں بھی ایک دوسرے سے پیدا ہونے میں سبقت لے جانے میں کوشاں تھے۔ عبد مناف نے تلوار کے ایک وار سے ان دونوں کو جدا جدا کر دیا. عرب کاہنوں اور نجومیوں نے اس طرح دونوں کو جدا کرنے کو کبھی اچھا شگن نہ سمجھا اور ان کا ماننا تھا کہ پیدائش کے وقت ان دونوں کے مابین بہنے والے اسی خون نے ان کی آئندہ نسلوں کے درمیان مخاصمت اور جنگ و جدل کی بنیاد رکھ دی تھی ۔ ہاشم ابنِ عبد مناف کی اولاد بنو ہاشم کہلائی اور عبد شمس ابنِ مناف کی اولاد اس کے بیٹے امیہ ابنِ عبد شمس کے نام پر بنو امیہ کے نام سے جانی گئی۔
ہاشم ابنِ عبد مناف کے بیٹے اور حضورؐ کے دادا حضرت عبدالمطلب اور امیہ ابنِ عبد شمس چچیرے بھائی تھے۔ دشمنی کی ابتداء تو ہاشم کی جانب سے اپنے بھائی عبد شمس بن مناف کو مکہ بدر کرنے کے ساتھ ہی ہو گئی اور پھر آنے والے وقتوں میں ان کی اولادوں کے مابین دشمنی بڑھتی چلی گئی۔ دشمنی کی بنیادی وجوہات میں طرزِ زندگی اور سوچ کا فرق ، ایک ، دوسرے کو نیچا دکھانے کا جذبہ، سیاسی عوامل، معاشی تفاوت، انتقام در انتقام کا سلسلہ اور اس جیسے کئی دیگرعوامل شامل تھے۔ بنو ہاشم اور بنو امیہ دونوں کو اپنی اپنی جگہ مکہ میں سیادت حاصل تھی۔ بنو ہاشم مذہبی اور روحانی پیشوائی کے مرتبے پر فائز تھے تو دوسری جانب بنو امیہ کو سیاسی اور معاشی میدان میں برتری حاصل تھی۔ اور پھر اسی پس منظر میں حضرت عبدالمطلب کے خاندان میں آفتابِ نبوت طلوع ہوا۔
حضرت محمدؐ کی بعثت کے بعد کے دور میں یہی قدیم قبائلی دشمنی جگہ جگہ سر اٹھاتی نظر آتی ہے۔ بنو امیہ جو قریش کے سیاسی لیڈر تھے کبھی حضورؐ کی نبوت پر ایمان لا کر بنو ہاشم کی برتری تسلیم کرنے کے لیے تیار نہ تھے۔ بنو ہاشم کے سماجی بائکاٹ سے لے کر غزوہء بدر میں حضورؐ اور ان کے پیروکاروں کے خلاف جنگ کی قیادت تک بنو امیہ اپنے مخاصمانہ جذبات کے اسیر نظر آتے ہیں۔ ابو سفیان جو کہ امیہ کے پوتے تھے فتحء مکہ کے موقع پر بھی آخر دم تک قبولِ اسلام میں متامل رہے حتیٰ کہ جب تک انہوں نے دیکھ نہیں لیا کہ اب مسلمان غالب آ کر رہیں گے۔ دوسری جانب ان کے چچیرے بھائی مروان بن حکم کی مسلمانوں کی مخالفت ، حضورؐ کی اس سے نفرت اور شہادتِ حضرت عثمان رض میں اس کا مشکوک کردار تاریخِ اسلام کے طالبعلموں سے ڈھکا چھپا نہیں۔
حضورؐ کے وصال مبارک کے بعد با اثر اموی سردار مسلسل اقتدار کو بنو ہاشم کے ہاتھوں میں نہ جانے دینے اور اپنی گزشتہ ہزیمت کا بدلہ لینے میں مصروف نظر آتے ہیں۔ اس طرح دو جڑواں بھائیوں کی اولاد کے درمیان یہ دشمنی بڑھتے بڑھتے نواسہء رسولؐ اور ان کے ساتھیوں کی میدانِ کربلا میں المناک شہادت کی شکل میں اپنا خراج وصول کرتے ہوئے بنو عباس کے ہاتھوں ہونے والے قتلِ عام تک پہنچتی ہے۔ چند تاریخی روایات میں یہ بھی آتا ہے کہ جب حضرت حسینؑ کا سر مبارک یزید کے دربار میں دھرا تھا تو وہ شعر پڑھتا ہے جس کا مفہوم ہے کہ ہم نے بدرکی جنگ کے اپنے مقتولین کا بدلہ لے لیا۔ بنو ہاشم اور بنو امیہ کی اس دشمنی کے تاریک سائے مسلمانوں کی ہزارہا سالہ تاریخ میں پھیلے نظر آتے ہیں جس کے پردے میں عرب و فارس کی قدیم دشمنی بھی پنپتی رہی ہے۔ سو آج کئی مسلمان محرم کی ابتدا لبادہء سوگ اوڑھ کراور کئی مسلمان نئے سال کی مبارکباد کے میسجز بھیج کرکرتے ہیں۔
فیس بک کمینٹ