اسلام آباد : سابق ملٹری ڈکٹیٹر اور آئین شکن جنرل پرویز مشرف کی موت کی خبر کسی بھی وقت آ سکتی ہے بعض ذرائع کا کہنا ہے کہ اس کی طبی موت واقع ہو چکی ہے اور واپسی کے انتظامات کے بعد اس کی موت کا اعلان کیا جائے گا اسے فوجی اعزاز کے ساتھ راولپنڈی کے فوجی قبرستان میں دفنائے جانے کا امکان ہے ۔ مشرف کے خاندانی ذرائع نے تصدیق کی ہے کہ وہ ایمولائی ڈوسس نامی ایک مہلک بیماری میں مبتلا ہے جس میں ان کے جسمانی اعضا آہستہ آہستہ ناکارہ ہوتے چلے جا رہے ہیں اور ان کا بچنا ممکن نہیں۔ یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ آئین شکنی میں سزائے موت کی سزا پانے کے بعد اشتہاری قرار دیے جانے والے مشرف کی ممکنہ موت کے بعد ان کے خاندان نے ان کی تدفین پاکستان میں کرنے کی خواہش کا اظہار کیا ہے۔ اس حوالے سے عسکری ذرائع نے حکومت کو بھی آگاہ کر دیا ہے۔
خیال رہے کہ اس سے پہلے جب پرویز مشرف کی والدہ کا دبئی میں انتقال ہوا تھا تو ان کی میت تدفین کے لیے پاکستان نہیں لائی گئی تھی اور انہیں وہیں دفن کردیا گیا تھا۔ خیال رہے کہ موت سے پہلے پرویز مشرف پاکستان اس لیے نہیں آ سکتا کہ وہ آئین شکنی پر موت کی سزا پانے کے بعد سے اشتہاری ہے اور وطن واپسی پر اسے سیدھا جیل جانا ہو گا۔
جسٹس وقار سیٹھ کی سربراہی میں ایک خصوصی عدالت نے مشرف کو دو مرتبہ آئین شکنی کے جرم میں ڈی چوک اسلام آباد میں پھانسی دینے کا فیصلہ دیا تھا۔ لیکن موصوف اس سے پہلے ہی ملک چھوڑ کر فرار ہو گئے تھے اور دبئی میں مقیم ہیں۔
پرویز مشرف کی موت کی افواہیں دو روز سے گردش کر رہی تھیں جن کی تردید کرتے ہوئے ان کے خاندان نے ایک بیان میں کہا یے کہ وہ تین ہفتوں سے دبئی کے ایک ہسپتال میں ہیں اور ایک پیچیدہ بیماری کی وجہ سے ان کی صحتیابی ممکن نہیں رہی۔ ٹوئٹر پر ایک پیغام میں 78 سالہ مشرف کے خاندان کا کہنا تھا کہ ’وہ وینٹی لیٹر پر نہیں ہیں۔ وہ ایمولائی ڈوسس نامی مہلک بیماری کی وجہ سے پچھلے تین ہفتوں سے ہسپتال میں داخل ہیں۔‘ پیغام میں کہا گیا ہے کہ پرویز مشرف ایک مشکل مرحلے سے گزر رہے ہیں جس میں صحتیابی ممکن نہیں اور انکے اعضا آہستہ آہستہ ناکارہ ہو رہے ہیں۔ انکی روزمرہ کی زندگی میں آسانی کے لیے دعا کریں۔
بتایا جاتا ہے کہ ایمولائی ڈوسس ایک نایاب اور سنگین بیماری ہے جس میں اعضا اور ٹشوز کے اندر غیر معمولی پروٹینز بننا شروع ہوجاتے ہیں جنکی وجہ سے جسم آہستہ آہستہ کام کرنا چھوڑ دیتا ہے۔ 10 جون کی شام قریب چار بجے سے سابق آمر کی موت کی فیک نیوز پاکستان اور انڈیا کے سوشل میڈیا پر گردش کر رہی ہے۔ کچھ ویب سائٹس نے تو ان خبروں کو تصحیح کے ساتھ اپ ڈیٹ کر دیا ہے مگر چند اکاؤنٹس پر اب بھی اس جعلی اطلاع کو دیکھا جا سکتا ہے۔ قریب ساڑھے چار بجے پاکستانی چینل وقت نیوز نے ٹوئٹر پر یہ پوسٹ شیئر کی کہ ’پرویز مشرف انتقال کر گئے‘ مگر بعد میں اسے حذف کر دیا گیا۔ ویب سائٹ پر اس خبر کے پیج کو بھی اب وہاں سے ہٹا دیا گیا ہے۔ اس جعلی خبر میں لکھا تھا کہ ان کی ’طبیعت انتہائی ناساز اور مصنوعی سانس دیا جانے لگا‘ تھا۔
خیال رہے کہ نومبر 1999 میں فوجی بغاوت کے ذریعے پاکستان کے چیف ایگزیکٹو اور پھر صدر بننے والے مشرف نے سابق وزیر اعظم نواز شریف کی حکومت کا تخت الٹانے کے بعد اگست 2008 تک حکومت کی تھی۔ 2016 میں ان پر سفری پابندی ہٹا دی گئی تھی اور وہ علاج کی خاطر دبئی روانہ ہوئے تھے جہاں وہ اب تک مقیم ہیں۔ 2019 میں سنگین غداری کے مقدمے میں انھیں سزائے موت سنائی گئی۔ جب ان کے وکلا نے اس سزا کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل کی تو اسے یہ کہہ کر مسترد کر دیا گیا کہ پہلے مجرم کو عدالت میں پیش ہوکر سرنڈر کرنا ہو گا۔ تاہم بھگوڑا کمانڈو ایسا کرنے سے انکاری ہے۔ ڈاکٹرز کے مطابق مشرف کو ہونے والی ایمولائی ڈوسس بیماری نسل در نسل منتقل نہیں ہوتی۔ اس میں اعضا اور ٹشوز میں غیر معمولی پروٹین بننا شروع ہو جاتی ہے جس سے اعضا کام کرنا چھوڑ دیتے ہیں۔
اس بیماری کی علامات کا تعین یوں کیا جاتا ہے کہ ایمولائیڈ پروٹین کن اعضا کا متاثر کر رہے ہیں۔اکثر افراد میں اس بیماری کے بعد ایمولائیڈ پروٹین گردے میں بننا شروع ہوجاتے ہیں جس سے کڈنی فیلیئر کا خطرہ ہوتا ہے۔ ایمیولائیڈ پروٹین اگر دل میں بننا شروع ہوجائیں تو اس سے پٹھے سخت ہوسکتے ہیں اور جسم میں خون کی گردش متاثر ہوتی ہے۔ طبی ماہرین کے مطابق جگر، تلی، نظام عصبی و ہاضمے میں بھی یہ پروٹین جمع ہوسکتے ہیں۔ اس بیماری کی علامات میں چکر آنا، ہاتھ پاؤں سن ہو جانا، متلی ہونا اور جسم پر زخم بن جانا شامل ہیں۔ تاہم کینسر کی طرح اس بیماری کا بھی کوئی علاج دریافت نہیں ہو سکا۔ لہذا مشرف کا بچنا محال ہے اور اگلے ایک دو روز میں اس کی موت کی خبر آ سکتی ہے، اسی لیے ان کے خاندان نے مشرف کی پاکستان میں تدفین کے لیے عسکری حکام سے رابطہ کیا ہے ۔