بچپن میں فلمی گانے ہمارے کچے دماغوں اور کچے بدنوں پر بہت اثر کرتے تھے۔ کوئی فلمی گاناسناتو خواہ مخواہ پہروں اداس رہے یا بے وجہ خوش ہو گئے۔ ان دنوں محمد رفیع کا گایا ایک گیت’’ یہ زندگی کے میلے دنیا میں کم نہ ہوں گے افسوس ہم نہ ہوں گے‘‘ بے حد پاپولر تھا اور عام لوگوں کے علاوہ یہ فقیر حضرات کا بھی بے حد پسندیدہ تھا جواسے گلی گلی الاپتے دست سوال دراز کرتے تھے۔ تب مجھے بھی یہ گیت اچھا لگتا تھا لیکن ایک بات کی سمجھ نہ آتی تھی کہ یہ تودرست ہے کہ یہ زندگی کے میلے دنیا میں کم نہ ہوں گے لیکن آخر میں یہ کیا ہے کہ افسوس ہم نہ ہوں گے۔بھلا ہم کیوں نہ ہوں گے۔ اگر گھر نہیں ہوں گے تو بازار میں ہوں گے، سکول میں ہوں گے، کہیں نہ کہیں تو ہوں گے توافسوس کاہے کا۔ ابھی تک یہ احساس نہ ہوا تھا کہ یہ زندگی، خوبصورت اور مزے کی زندگی بالآخر اختتام کو پہنچتی ہے۔ انسان ایک چارپائی پر رخصت ہو جاتا ہے اور میلے پیچھے رہ جاتے ہیں۔ اسی نوعیت کا ایک پنجابی گیت ’’جگ والا میلہ یارو تھوڑی دیر دا۔ ہسدیاں رات لنگھی پتہ نہیں سویر دا‘‘ بھی بہت پسندکیاجاتا تھا اور یہ گیت بھی ہماری مختصر عقل پرسے گزر جایا کرتا تھا کہ اس جہان کا میلہ اے یارو تھوڑی دیر کا ہے ہنستے ہوئے رات گزری لیکن سویر کا کچھ پتہ نہیں تو بھلا میلہ تھوڑی دیر کا کیوں ہے اور یہ کیا بات ہوئی کہ اگر رات ہنستے ہوئے گزر گئی ہے تو سویرکاکیوں پتہ نہیں، سویر تو ہو کر رہتی ہے اور اب اس عمر میں آ کر یہ آشکار ہوتا ہے کہ واقعی اس جہان کا میلہ تھوڑی دیر کا ہوتا ہے اورپھرسویر کا کچھ پتہ نہیں کہ ہو یا نہ ہو۔
آج یہ میلے خواہ مخواہ یاد آتے چلے جاتے ہیں۔دراصل جب بھی بہار کے وداع ہونے کے ان دنوں میں جب گرمی بڑھنے لگتی ہے، پنکھے چلنے لگتے ہیں اورموسم گرما کی آمدسے خوف آنے لگتا ہے تو انہی دنوں یکدم آسمان پر بادل جانے کہاں سے امڈتے چلے آتے ہیں، رم جھم پھوار پڑنے لگتی ہے اورموسم ایک دو روز کے لئے خوشگوار ہو جاتا ہے۔ آج بھی ایساہی ہوا ہے، کمرے سے باہر آیا ہوں تو نیم خنک ہوا میرے رخساروں کو چھونے لگی ایسی ہوا جس کے بارے میں غالب نے کہا تھا کہ ہے ہوا میں شراب کی تاثیر۔ بادہ نوشی ہے بادہ پیمائی۔ اور باہر مینہ برس رہا تھا پچھلے ساٹھ برس میں کبھی ایسانہیں ہوا کہ ان دنوں بارش نہ اتری ہو بلکہ لاہور کی ایک قدیم روایت ہے کہ شاہ حسین کے میلہ چراغاں کے دنوں میں بہرطور بادل امڈ کر آتے ہیں اور ڈھول کی تھاپ پربرستے ہیں اور واقعی ایساہی ہوتا ہے میلہ چراغاں ابھی پچھلے ہفتے اس شہر میں برپا ہوا اورحسب روایت بارش ہوئی اور بارش کی یہ یاد مجھے بچپن کے ان دنوں تک لے جاتی ہے جب مارچ کے آخری دنوں میں ہماری جاٹ برادری کے لوگ، دور پار کے عزیز، کھدر کی پگڑیوں میں کرتے اور تہبند میں ملبوس، ہاتھوں میں ذاتی حقے تھامے گاؤں سے شہر لاہور کا رخ کرتے تھے اور ہمارے گھر میلہ لگ جاتا تھا۔برادری کا معاملہ ہوتا ہے اس لیے امی جان ان کی خوب آؤ بھگت کرتیں۔ ان کے لئے جستی صندوقوں میں سے نئے کھیس اور سوتی چادریں نکالتیں۔ طرح طرح کے پکوان چولہوں پر چڑھاتیں جن میں سوجی کا حلوہ سرفہرست ہوتا۔ میرے ابا جی کو یوں میلوں ٹھیلوں میں جانا اچھا نہ لگتا تھا اس لیے ہم بھی گھر بیٹھے ان دیہاتی شوقینوں کو میلہ چراغاں دیکھنے جاتے حسرت سے دیکھتے۔ ایک روز ایک بزرگ نے اباجی سے کہا کہ چوہدری صاحب آپ مستنصر کو بھی ہمارے ساتھ بھیج دیں۔ یہ بچہ ہم سے بڑے سوال پوچھتا ہے تو اباجی نے اس شرط پر اجازت دے دی کہ آپ نے ہمہ وقت اس کی انگلی پکڑے رکھنی ہے اور اپنے سے جدا نہیں کرنا۔ یوں میں پہلی بار میلہ چراغاں دیکھنے گیا ۔ ان دنوں یہ میلہ شالیمار باغ کے اندر لگتا تھا۔ مجھے اس کی تفصیل کچھ زیادہ یاد نہیں البتہ ایک منظر ایک تصویر کی مانند میرے سامنے زندہ ہوتا ہے۔ واپسی پر ٹانگے ناپید ہیں اور میں اپنے دیہاتی عزیزوں کے ہمراہ ایک ریڑھے پرسوارہوں اور سب حضرات ایک حقہ درمیان میں رکھے کش لگاتے مزے کر رہے ہیں۔ اور تب ابر آلود آسمان سے بارش آبشاروں کی صورت اترنے لگتی ہے اور بوندوں میں شدید پختگی ہے جو میرے کومل بدن میں چھید ڈالتی ہے اور میں بجلی کی کڑک سے سہما جاتا ہوں۔ میری قمیض اور خاکی نیکر کھلے آسمان تلے ایک ریڑھے پر مجھے بارش کی شدت سے نہیں بچا سکتے۔ گھر پہنچا ہوں تو بدن نیلا پڑ چکا ہے، کانپ رہا ہوں اور ماتھے پر ہاتھ رکھناجیسے توے پر ہاتھ رکھنا ہو اتنا گرم ہے۔ امی جی نے روتے روتے برا حال کر لیا۔ کپڑے بدلے، تولیے سے بدن پونچھا اورسب سے دبیز رضائی میں لپیٹ دیا اور میں اس حدت کو آج بھی یاد کرتا ہوں جو مجھے سردی سے کپکپاتے ہوئے اس رضائی میں محسوس ہوئی۔ ابا جی نے اپنے دیہاتی عزیزوں کو خوب ڈانٹا اور خاص طور پر اس بزرگ کو اور پھر آئندہ کبھی میلہ چراغاں نہ جانے دیا۔
بہت مدت بعد میں ایک دوست کے ہمراہ شاہ حسین کے عرس پرگیا اور پوری ایک شب اس میں گھومتے، ڈھول کی شاندار تھاپ کی سحر انگیزموسیقی سنتے اور چراغ روشن کرتے گزری، میں دیر تک ملنگوں کے ایک ڈیرے پر بیٹھا رہا ان کے درمیان ایک بڑا الاؤ بھڑک رہا تھا اور وہ بھنگ پیتے ہوئے نعرے لگاتے تھے کہ دنیں گھوٹیاں تے راتیں پیتیاں، لوکی کہندے اسی مر گئے آں تے اساں اللہ نال گلاں کیتیاں۔ یعنی ہم دن کے وقت بھنگ گھوٹ کراسے رات کو پیتے ہیں، لوگ کہتے ہیں کہ شاید ہم مر گئے ہیں حالانکہ ہم تو اللہ سے باتیں کر رہے ہوتے ہیں۔ میں نے اللہ سے باتیں کرنے کا یہ سنہری موقع کھو دیا۔ دوچار پیالے بھنگ کے اندر انڈیل لیتا تو کیا ہی گفتگو ہوتی۔ اس سنسنی خیز تجربے کو میں نے اپنے پہلے ناولٹ ’’فاختہ‘‘ میں استعمال کیا۔پھر شالیمار باغ میں ہی ایک میلہ’’ پہلے پیر کا میلہ‘‘ ہوا کرتا تھا جس میں صرف لڑکیاں شریک ہوا کرتی تھیں۔ فواروں کے آس پاس کھانے پینے، چوڑیوں اور زیبائش کے سٹال لگتے اور وہاں بھی صرف سیلز گرلز ہوتیں، مرد اندر نہیں جا سکتے تھے۔ ایک مرتبہ میری چھوٹی خالہ جان اپنے سکول کی سہلیوں کے ہمراہ مجھے بھی لے گئیں صدر دروازے پر ایک لحیم شمیم خاتون دربان نے روک لیا کہ مرد اندر نہیں جا سکتے اس پر خالہ جان نے خوب احتجاج کیا کہ ہاہائے یہ مرد ہے، بے چارہ چھوٹا سابچہ ہے چھ سال کا۔ مجھے یاد ہے کہ آم کے پیڑوں پر جھولے پڑے جنہیں خالہ جان اور ان کی سہلیاں آسمان تک جھلاتی تھیں مجھے یہ بھی یاد ہے کہ کئی دکاندار خواتین نے نقلی مونچھیں لگا رکھی تھیں اور وہ لڑکیوں سے عجیب قسم کے مذاق کرتی تھیں۔باہر وداع بہار کی آخری بارش تھم چکی ہے اور ماضی کے وہ میلے پھرسے روپوش پو رہے ہیں۔ یہ زندگی کے میلے دنیا میں کم نہ ہوں گے، افسوس ہم نہ ہوں گے۔
( بشکریہ : ہم سب ۔۔ لاہور )
فیس بک کمینٹ