ملک کے موجودہ اور سابقہ وزرائے داخلہ نے موجودہ بحرانی سیاسی صورت حال پر بیان دیتے ہوئے دو متضاد آرا کا اظہار کیا ہے حالانکہ احسن اقبال اور چوہدری نثار علی خان کا تعلق حکمران مسلم لیگ (ن) سے ہی ہے۔ اس سے نہ صرف حکمران جماعت کے درمیان سیاسی معاملات پر اختلاف رائے کی صورت حال واضح ہوتی ہے بلکہ یہ اندازہ بھی کیا جا سکتا ہے کہ حکومت اپنی غلطیوں کا ادراک کرنے اور ان کا سیاسی حل تلاش کرنے کی بجائے ان پر اصرار بھی کرتی ہے اور بدستور یہ سمجھ رہی کہ قومی اسمبلی میں اکثریت کی وجہ سے اسے کمزور کرنا یا ہٹانا ممکن نہیں ہے۔ یہ خوش گمانی اس صورت میں تو درست ہو سکتی تھی اگر ملک میں ایک ایسا جمہوری نظام استوار ہوتا جس پر کسی کو کوئی شک و شبہ نہ ہوتا۔ لیکن موجودہ نظام کے حوالے سے توخود اس نظام کو مستحکم کرنے کی ذمہ دار سیاسی قوتیں نہ صرف یہ کہ مشکوک رہتی ہیں بلکہ وہ طاقتور حلقوں کے تعاون سے موجودہ منتخب حکومت کو گرانے اور خود اپنے لئے جگہ بنانے کا کوئی بھی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتیں۔
ابھی وفاق میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت فیض آباد دھرنے سے سامنے آنے والی افسوسناک صورت حال سے باہر نکلنے نہ پائی تھی کہ پنجاب حکومت کو لاہور ہائی کورٹ کے حکم پر 2014 میں ماڈل ٹاؤن سانحہ کے بارے میں جسٹس نجفی کی تحقیقاتی رپورٹ شائع کرنا پڑی۔ اب اس رپورٹ کے بارے میں ہر شخص اپنی صوابدید کے مطابق تبصرہ بھی کررہا ہے اور نتائج اخذ کرنے کی کوشش بھی کی جارہی ہے۔ اس موقع پر چونکہ منہاج القرآن اور پاکستان عوامی تحریک کے 14 کارکن جاں بحق ہوئے تھے، اس لئے علامہ طاہر القادری ایک طرف اس رپورٹ کو جعلی قرار دینے کی کوشش کررہے ہیں لیکن اس کے ساتھ ہی اسی رپورٹ کے بعض نکات کو بنیاد بنا کر وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف اور وزیر قانون رانا ثناء اللہ خان کے استعفیٰ کا مطالبہ بھی کررہے ہیں۔ وہ اپنے مطالبات منوانے کے لئے دھرنا دینے کا ارادہ بھی رکھتے ہیں۔ اس دوران سرگودھا کے پیر حمید الدین سیالوی بھی رانا ثناء اللہ خان کے استعفیٰ پر اصرار کررہے ہیں اور لاہور تک لانگ مارچ کرنے اور دھرنا دینے کی دھمکی بھی دے چکے ہیں۔ فیض آباد دھرنے کے دوران مسلم لیگ (ن) کے 14 ارکان اسمبلی نے اپنے استعفے پیر سیالوی کے حوالے کردیئے تھے تاکہ وہ ان کی رکنیت اور مسلم لیگ (ن) کے سیاسی مستقبل کا فیصلہ کرسکیں۔
پیپلز پارٹی کے آصف زرداری مسلم لیگ (ن) اور نواز شریف کی مشکلات سے لطف اندوز بھی ہو رہے ہیں اور انہیں کمزور کرکے پنجاب میں کچھ سیاسی اہمیت حاصل کرنے کے بھی خواہشمند ہیں۔ اسی نقطہ نظر سے انہوں نے ماڈل ٹاؤن سانحہ کی رپورٹ سامنے آنے کے بعد علامہ طاہر القادری کی آواز میں آواز ملاتے ہوئے شہباز شریف کے استعفیٰ کا مطالبہ کیا ہے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ تحریک انصاف کے عمران خان پنجاب میں نواز شریف سے ’فارغ‘ ہو کر سندھ میں آصف زرداری کے خلاف مہم چلانے اور ان کی بدعنوانی کا بھانڈا پھوڑنے کے لئے بے تاب نظر آتے ہیں۔ وہ یہ اعلان بھی کرچکے ہیں کہ اگر طاہر القادری نے دھرنا دیا تو تحریک انصاف اس کا بھرپور ساتھ دے گی۔ حالانکہ 2014 میں طاہر القادری اسلام آباد دھرنے میں عمران خان کو تنہا چھوڑ کر لاہور واپس آگئے تھے۔ تاہم اس وقت سوال حکمران جماعت کو کمزور کرنے اور ان کے خلاف سیاسی کامیابی حاصل کرنے کا ہے ، اس لئے دشمن کا دشمن دوست اور ہمدرد دکھائی دیتا ہے۔
فیض آباد دھرنے کے ڈرامائی اختتام اور محض چند سو لوگوں کے ذریعے لبیک تحریک نے جس طرح حکومت کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کیا تھا، اس سے بہت سے ایسے گروہوں کی حوصلہ افزائی ہوئی ہے جو یہ سمجھتے ہیں کہ وہ لبیک تحریک سے زیادہ لوگ جمع کرنے اور زیادہ تند و تیز لب و لہجہ میں بات کرنے پر قادر ہیں۔ اس لئے اگر حکومت فیض آباد دھرنے کے نتیجے میں وفاقی وزیر کا استعفیٰ دینے پر راضی ہو سکتی ہے تو ایک دوسرے دھرنے کے ذریعے پنجا ب کی حکومت کو بھی ہلایا جا سکتا ہے۔ اس لئے اب یہ امکان دکھائی دیتا ہے کہ ملک میں مزید مظاہرے اور دھرنے دیکھنے میں آئیں گے اور وہ فیض آباد کی مثال دے کر اپنے ’جائز‘ مطالبات منوانے پر اصرار کریں گے۔ اس صورت حال میں وزیر داخلہ احسن اقبال کا کہنا ہے کہ پیپلز پارٹی، لبیک تحریک اور طاہرالقادری کی پاکستان عوامی تحریک مل کر بھی حکومت کو ہلانے میں کامیاب نہیں ہو سکتیں۔ وہ یہ دعویٰ نہ جانے کس بنیاد پر کرنے کا حوصلہ کررہے ہیں۔ حالانکہ ابھی چند ہفتے قبل وہ فیض آباد دھرنے والوں کی گالیوں اور ضد کے آگے بے بس اور لاچار کھڑے تھے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ دھرنا ختم کرنے کا حکم دے رہی تھی اور ان کے زیر کمان سیکورٹی فورسز نے دھرنا کے خلاف جو ایکشن لیا وہ بری طرح ناکام ہؤا۔ اس سے عاجز آکر جب وزارت داخلہ نے فوج سے مدد طلب کی تو اس نے یہ کہہ کر صاف انکار کردیا کہ فوج اپنے لوگوں پر گولی نہیں چلا سکتی۔ تاہم بعد میں اسی فوج کے نمائندوں نے تھپکیاں دے کر اور نوٹوں بھرے لفافے بانٹ کر تحریک لبیک والوں کو دھرنا ختم کرنے اور حکومت کو ان کے تمام مطالبات ماننے پر مجبور کیا۔
احسن اقبال نے اس صورت حال میں فیض آباد دھرنا کے خلاف ناکام پولیس ایکشن کی ذمہ داری قبول کرنے سے بھی انکار کردیا تھا۔ اس طرح انہوں نے ثابت کیا کہ وہ صرف کمزور منتظم اور بے بصیرت سیاستدان ہی نہیں ہیں بلکہ ان میں بطور لیڈر اخلاقی ذمہ داری کا بھی فقدان ہے کہ اپنی وزارت کے تحت ہونے والی ایک کارروائی کی ذمہ داری قبول کرنے کا حوصلہ ہی کرلیتے۔ اس لئے ان کا یہ دعویٰ بھی ان کی کم فہمی ہی کہ عکاسی کرتا ہے کہ ملک کی کوئی بھی سیاسی قوت ان کی حکومت کو ہلانے کی صلاحیت نہیں رکھتی ۔ البتہ دھرنا کے دوران اور بعد میں احسن اقبال پر نکتہ چینی کرنے والے اور متعدد معاملات پر اپنی ہی پارٹی کے لیڈر نواز شریف سے اختلاف کرنے والے سابق وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کی اس بات میں کچھ وزن ضرور محسوس ہوتا ہے کہ اگر ملک میں احتجاج اور دھرنوں کا سلسہ بند نہ ہؤا تو ریاست ناکام ہونے لگے گی۔
یوں تو جو انتظامی صورت حال گزشتہ چند ماہ کے دوران دیکھنے میں آرہی ہے، اس کے تناظر میں متعدد حلقے اور تجزیہ نگار اب بھی حکومت کو ناکام اور ریاست کی رٹ کو محدود سمجھنے پر مجبور ہوچکے ہیں۔ لیکن چوہدری نثار علی خان کا یہ مشورہ قابل غور ضرور ہے کہ اگر ملک کو موجودہ بے یقینی اور بحران کی کیفیت سے نکالنا ہے تو تمام اسٹیک ہولڈرز کو جن میں سیاست دان، فوج اور میڈیا شامل ہیں ، مل کر اس صورت حال پر غور کرنے اور اس سے نمٹنے کے لئے حکمت عملی تیار کرنے کی ضرورت ہے۔
( بشکریہ : کاروان ۔۔ ناروے )
فیس بک کمینٹ