جب ہمیں کچھ سیاسی سوجھ بوجھ آئی اورہم نے اخبارات کامطالعہ شروع کیااور سیاستدانوں کے بیانات ہماری نظر سے گزرے تودل پریشان رہنے لگا ۔ہمیشہ یہی پڑھنے اورسننے کوملاکہ خزانہ خالی ہے،ملک دیوالیہ ہونے والا ہے،کسانوں اورمزدور وں کی حالت خراب ہے ،کاشتکاروں کوان کی اجناس کی صحیح قیمت نہیں ملتی اورمزدور کو بھی اتنامعاوضہ نہیں دیاجاتاکہ وہ بہترگزراوقات کرسکے۔ سرکاری ملازمین تنخواہوں کاروناروتے الگ دکھائی دیئے ۔سرکاری سکولوں میں چاردیواری اوربجلی نہ ہونا اوردیگرسہولیات کی کمی کا شکوہ معمول رہا ،سرکاری ہسپتالوں میں ادیات کی غیرموجودگی پربھی عوام ہمیشہ سراپااحتجاج دکھائی دیئے۔،لاکھوں بچوں کاتعلیم حاصل نہ کرنا اورشرح خواندگی کی کمی بھی ایک مسئلہ رہا۔ہراپوزیشن جماعت نے حکومت پرلوٹ کھسوٹ اوراختیارات سے تجاوز کے الزامات عائد کئے ۔ حکومت اوراپوزیشن جماعتیں ایک دوسرے پربھارت کایارہے غدارہے غدارہے کے الزمات عائد کرتی رہیں اورایک دوسرے کو سکیورٹی رسک قراردینے کاچلن بھی برسوں سے جاری ہے ۔کیسے کیسے محب وطن قومی رہنماﺅں پرغداری کے مقدمات قائم کرکے انہیں پابند سلاسل کیاگیا۔عوام کی نظروں میں انہیں بے توقیرکیاگیا۔سیاستدانوں پربھینس چوری سے لے کر دہشت گردی تک کے الزمات عائد کئے گئے ۔ہرسیاسی جماعت نے اپوزیشن میں ہوتے ہوئے جمہوریت اورعوام کے مسائل کی بات کی اورحکومت پرغیرجمہوری رویہ اختیار کرنے کے الزام عائد کئے گئے۔ جوسیاسی جماعت بھی اقتدارمیں آئی وہ میڈیاسے ناراض رہی ،جبکہ اپوزیشن میں رہنے والی سیاسی جماعتیں ہمیشہ میڈیا کے کردارکی تعریف کرتی رہیں ۔قیام پاکستان سے اب تک 70برس سے وہی سیاسی خانوادے سیاست کے افق پرچمک رہے ہیں۔ یہی اشرافیہ اورمراعات یافتہ طبقے سے تعلق رکھنے والے سیاسی خاندان کبھی حکومت اورکبھی اپوزیشن کاحصہ ہوتے ہیں جبکہ مارشل لاءکے ادوار میں بھی یہی سیاسی خانوادے آمروں کیلئے بیساکھیوں کاکام دیتے ہیں۔لیکن عوام بیچاری کے 70برسوں سے مسائل اور مطالبات و ہی ہیں ،غریب کسان، مزدور اورعام ملازمین کے مسائل میں کمی ہونے کی بجائے اضافہ ہوا ۔اب بھی کسانوں کوان کی اجناس کی مناسب قیمت نہیں ملتی ۔مزدور کومناسب معاوضہ نہیں دیاجاتا۔سرکاری سکولوں میں سہولیات ناپید ہیں ،ہسپتالوں میں ادویات نہیں ۔تین کروڑ بچے تعلیم سے محروم ہیں ۔سرکاری سکولوں کی حالت ناگفتہ بہ ہے۔ہسپتالوں میں ایک ایک بسترپردو،دو،تین ،تین مریض پڑے ہیں دیہی علاقوں میں صحت کی بنیادی سہولیات موجودہی نہیں۔وڈیرے ،جاگیردار اورسردار اپنی عدالتیں لگاتے اورموت تک کی سزائیں سناتے ہیں ۔بے حرمتی کے بدلے بے حرمتی کرتے ہیں ۔گویادیہی علاقوں میں اب بھی قانون اشرافیہ کے تابع ہے۔70سال بعد بھی عوام کوآزادی کی جھلک کہیں نظرنہیں آتی ۔مسائل کم ہونے کی بجائے بڑھے ہیں ،اب توعام آدمی کو آلودہ پانی پی کر اورآلودہ فضا میں سانس لے کرجینا پڑرہاہے ،جبکہ بجلی کی لوڈ شیڈنگ اورسوئی گیس کی نایابی عوام کے لئے اضافی مسئلہ بن گیاہے ۔اشرافیہ غریب اورامیر طبقے کے مابین لکیرگہری ہورہی ہے۔ غریب اورامیرطبقے کے مابین خلیج وسیع ہوچکی ہے۔ معاشرہ میں متوسط طبقہ ختم ہورہاہے ۔کیونکہ متوسط طبقے کے لوگ کرپٹ اشرافیہ میں شامل ہورہے ہیں ۔جبکہ اسی طبقے کے ایماندار لوگ غربت کی طرف جارہے ہیں ۔گویاقیام پاکستان سے اب تک سیاسی خانوادوں نے اپنی مراعات اورشان وشوکت میں اضافے کیلئے اقدامات کئے ۔آمروں کی آمد پرانہوں نے ان کااستقبال کیا۔سیاستدانوں نے ہی ہمیشہ آمروں کو سہار ادیا۔خداراکچھ توبدلو ،عوام کی حالت نہیں بدل سکتے تو سیاستدا ن ایک دوسرے پرعائدکئے جانے والے الزامات ہی بدل لیں۔سیاستدان عوام کوکچھ نہیں دے سکتے تونہ دیں ۔اداروں کو ہی بااختیار کردیں ۔عوام کوبنیادی سہولیات نہیں دے سکتے تو قانون کی حکمرانی ہی قائم کردیں ۔مزدورکسان کے مسائل حل نہیں کرسکتے نہ کریں ،لیکن سیاستدان آمروں کی بیساکھیاں بننے سے توبازآجائیں۔
فیس بک کمینٹ