نئے پاکستان کے نام پرکسی کو سلیکٹ کہیں یا الیکٹ اس سے فرق نہیں پڑتا۔نئے پاکستان میں مدینہ جیسی ریاست ہوگی یا نہیں ،چوروں ڈاکوؤں کا احتساب ہوگا کہ نہیں ، اس سے بھی عام عادمی کا کوئی سروکارنہیں ۔ لیکن نئے پاکستان کے خدو خال کیا ہونگے ؟ اس سے پاکستان میں رہنے والے معصوم ووٹرز اور ان کے معیار زندگی کو فرق ضرور پڑتا ہے۔۔وزیراعظم عمران خان نے تو اسی پارلیمنٹ کے حوالے سے جو ارشادات فرمائے وہ آج بھی زبان زدعام ہیں۔لیکن آج کیا آپ سمیت کوئی بھی شہری خود کو نئے پاکستان کا باسی تصور کر پایا ہے۔؟ ۔کیا کسی کو ایک لمحے کےلئے بھی احساس ہوا کہ یہ نواز شریف اور زرداری والا پاکستان نہیں ہے جہاں لوگوں سے سانس لینے پر بھی تاوان وصول کیا جاتا تھا ۔ اور جہاں سب اہل اقتدار کرپٹ تھے ۔ کپتان کےاوپننگ بیٹسمین کو ہی لے لیجیں آپ جو کہ وزیر خارجہ کے عہدے پر فائز ہیں۔جناب شاہ محمود قریشی صاحب جنکے دل میں پاکستانی قوم کا درد تو بہت ہے۔۔اور خاص طور پر اپنے حلقہ انتخاب کی عوام کا۔جہاں پر وہ موٹرسائیکل کے ذریعے اپنے معزز ووٹرز کو یہ یقین دلانے کیلئے جاتے ہیں کہ آپ نئے پاکستان کے باسی ہیں اب۔۔
لیکن ان کی اس بات کا یقین انہیں تب آتا ہے۔جب ووٹرز کے در پر دستک دینے والے کو پتہ ہوتا ہے کہ باہر کوئی خاص مہمان آیا ہے۔۔اور اسے ملنے کیلئے آپ کو بھی موٹر سائیکل پر ہی باہر نکلنا پڑیگا۔۔وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی تو ویسے خارجہ پالیسی پر شاید 2008 سے پہلے سے ہی عبور رکھتے تھے۔اور شاید نئے پاکستان کا خواب انہوں نے تب ہی دیکھا۔اور عمران خان صاحب کی کپتانی بھی قبول کی۔مگر شاہ محمود قریشی صاحب کو کیا کسی وزارت یا عہدے کا لالچ تھا۔۔نہیں تو ایک نیک سیرت اور صاحب حیثیت انسان جو کہ ملتان کی پہچان اور شان ، مدینہ الاولیاء کے مزرارت کے گدی نشین کو کیا ضرورت کہ وہ دنیا کی آسائیشوں کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی دیکھے۔بس انہیں تو خطے کے عوام کو درپیش مسائل کا غم ہے۔۔ویسے تو شاہ صا حب کے علم میں ملتان کے تمام مسائل ہی ہیں ۔جن میں نمبر ون پینے کے صاف پانی کا مسئلہ دوسرے نمبر پر سیوریج کا مسئلہ جو کہ شاہ صاحب کو اس قدر یاد رہتا ہے کہ جیسے شاہ صاحب کو پارٹی بدلنا۔۔مگر اس سب کے باوجود شاہ صاحب ملتان کے محسن ہیں۔وہ الگ بات کے انکے حلقہ انتخاب این اے 156 کے بیشتر علاقے بنیادی ضروریات زندگی سمیت سیوریج کے مسئلے سے دوچار ہیں۔۔ شاہ صاحب ہمیشہ اپنی گفتگو میں ملتان کے مسائل پر بات کرتے ہوئے سیوریج کے مسائل پر بات کرتے رہے ہیں۔۔جس پر ہم ان کے اتھاہ گہرائیوں سے ممنون ہیں۔لیکن کیا اولیاء کے شہر کا یہ دیرینہ مطالبہ بھی چندے کے ذریعے حل ہو گا۔۔اگر ایسا ہے تو ملتان کے بہت سے مخیر حضرات اس میں حصہ ڈالنے کے بھی منتظر ہیں۔۔