یہ جو گورے ہوتے ہیں ناں یہ ہم سے بھی زیادہ توہم پرست ہوتے ہیں۔ ان کے ہاں بھی سعد و نحس کا چکر بہت چلتا رہتا ہے اور تقریباً سارے ہی گورے 13 کے عدد کو بہت ہی منحوس جانتے ہیں۔ اتفاق سے اونچے نیچے راستوں کے اس سفر کا آج تیرہواں پڑاؤ ہے اور گوروں کی بات کچھ کچھ ٹھیک ہی لگتی ہے۔
ہم اب1977ءمیں داخل ہورہے ہیں اور شاید 1971ء کے بعد اس سال کا ہماری تاریخ، سیاست اور معاشرت پر سب سے گہرا اور ان مٹ اثر پڑا ہے۔ لیکن بہتر ہے کہ کڑوی کسیلی باتیں یاد کرنے سے پہلے کچھ سنہری اور میٹھی یادیں تازہ کرلیں۔
بحرین آنے کے بعد ملکی حالات سے آگاہی کم ہی رہتی تھی یا شاید میں ہی غم روزگار میں کچھ ایسا الجھا ہواتھا کہ مجھے آس پاس کا ہوش نہیں تھا۔ لیکن خبر رکھنے والے اور پہلے سے موجود پاکستانی جن کے لئے روزگار کے مسائل اس طرح نہ تھے جیسے مجھے لاحق تھے، وہ ملک کے بارے میں ساری خبریں رکھتے تھے۔ اور کرکٹ کے دیوانے تو ویسے بھی اس سے کبھی غافل نہیں رہتے۔
76 ءکے آخر میں ہماری ٹیم آسٹریلیا پہنچی۔ ایڈیلیڈ میں کھیلے جانے والا پہلا ٹسٹ ڈرا ہوگیا۔ پہلی جنوری 77 ءسے ملبورن میں ہونے والے ٹیسٹ میں ہمیں 350 رنز کی مار پڑی۔
لیکن یہ سڈنی میں ہونے والا میچ تھا جس میں نہ صرف ہم نے پہلی بار آسٹریلیا کو اس کی سرزمین پر 8 وکٹوں سے دھول چٹائی بلکہ یہ میچ تھا جس نے پاکستان کی ماڈرن کرکٹ کی بنیاد رکھی اور اب آسٹریلیا، ویسٹ انڈیز اور انگلینڈ کے ساتھ پاکستان کو بھی کرکٹ کی بڑی طاقت تسلیم کیا جانے لگا۔ جنوبی افریقہ پر نسلی امتیاز کی وجہ سے پابندی تھی۔ بھارت اور نیوزی لینڈ کم تر درجے کی ٹیمیں سمجھی جاتی تھیں۔ سری لنکا کو اس وقت تک ٹیسٹ کھیلنے کا درجہ نہیں ملا تھا۔ کپتان مشتاق محمد کی اس ٹیم میں ماجد، صادق، ظہیر، آصف، جاوید میانداد، وسیم راجہ جیسے بلے باز تھے تو سرفراز اور عمران خان جیسے تیز گیند باز جنہو ں نے8گیندوں کے اوور والے اس میچ میں بغیر تبدیل ہوئے مسلسل گیندیں کیں ۔
کپتان گریگ چیپل نے پاکستانی اسپنرز سے خائف ہوکر اور چوتھی اننگز میں بیٹنگ سے بچنے کے لئے ٹاس جیت کر پہلے بیٹنگ کا فیصلہ کیا لیکن سرفراز نواز اور عمران نے ان کی بیٹنگ لائن کے پرخچے اڑا دیے۔ 100رنز میں آسٹریلیا کی آدھی ٹیم پویلئین لوٹ چکی تھی اور211پر پوری بیٹنگ کی بساط لپٹ گئی اور کنگروؤں کی اس تباہی کا ذمہ دار تھا عمران خان ، جس نے اپنی طوفانی بولنگ سے 6 آسٹریلویوں کو گھر کی راہ دکھائی۔
پاکستان کی باری کی ابتداء بہت اچھی نہیں تھی لیکن مرد بحران آصف اقبال ہمیشہ کی طرح دشمن کے آڑے آئے اور 120 رنز کی یادگار اننگز کھیلی۔ ان کا ساتھ اپنا پہلا میچ کھیلنے والے ہارون رشید (57رنز) اور نوجوان جنگجو جاوید میانداد ( 64 رنز) نے خوب دیا اور پاکستان کو پہلی باری میں تقریباً 150کی برتری دلادی۔
دوسری باری میں عمران اور سرفراز ایک بار پھر قہر بن کر کنگروؤں پر ٹوٹے اور 100 رنز کے اندر 7 کھلاڑیوں کو واپسی کا رستہ دکھلایا۔ عمران نے اس باری میں بھی صرف 63 رنز دیکر 6 وکٹیں لیں اور مرد میدان رہے۔ پاکستان نے 8 وکٹوں سے ناقابل فراموش فتح حاصل کی۔ عمران اور سرفراز نے اس کے بعد پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا اور نہ صرف دونوں نے پاکستان کے لئے کارنامے انجام دئے بلکہ فاسٹ بالروں کی ایسی کھیپ تیار کی جو نسل در نسل چلی آرہی ہے اور آج کرکٹ میں پاکستان کی پہچان اور اس کا افتخار تیز گیند باز ہی ہیں ۔ سرفراز اور عمران کے بعد وسیم اور وقار کی جوڑی نے دنیائے کرکٹ پر حکمرانی کی اور اب تک فاسٹ بولروں کی فہرست میں سب سے کامیاب جوڑی مانے جاتے ہیں۔ طوفانی گیند بازوں کی اسی نسل سے دنیا کا تیز ترین بولر شعیب اختر نے جنم لیا اور یہ سلسلہ آج کے محمد عامر اور وہاب ریاض تک چلا آرہا ہے۔ ہاں یاد آیا اس سیریز کا ایک مزیدار واقعہ ماجد خان اورڈینس للی کی اعصابی جنگ بھی تھی۔ للی نے ماجد کی ہیٹ گرانے کا دعویٰ کیا تھا اور ماجد ہر بار للی کو چوکا چھکامار کر ہیٹ کی طرف اشارہ کرتے۔للی تو ماجد کی ٹوپی نہ گر اسکے البتہ ماجد نے میچ کے بعد اپنی وہ مخصوص فلاپی ہیٹ للی کو تحفتاً پیش کردی۔
چلئے جی یہ تو اچھی اچھی باتیں ہوگئیں۔ ادھر وطن میں وزیراعظم بھٹو نے مارچ میں انتخابات کا اعلان کردیا۔ یہ اعلان کچھ اچانک
ہی تھا کہ10 جنوری کو یہ اعلان ہوا اور 7 مارچ الیکشن کی تاریخ مقرر کی گئی۔ بھٹو صاحب کا خیال تھا کہ منتشر اور اختلافات میں گھری ہوئی حزب مخالف کو انتخابات کی تیاری کا موقع نہیں ملے گا اور انہیں کسی مزاحمت کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔ عام خیال بھی یہ تھا کہ بھٹو صاحب یہ الیکشن آسانی سے جیت جائیں گے۔۔لیکن یاد رہے یہ پاکستان ہے اور یہاں سیاستدانوں کے علاوہ ایک اور مخلوق بستی ہے جسے نوکرشاہی کہتے ہیں جو بادشاہ گر کا کردار ادا کرتی ہے۔ یہ نوکر شاہی سول اور عسکری دونوں صورتوں میں موجود رہتی ہےاور خفیہ ایجنسیاں ان کا آلہ واردات ہوتی ہیں۔
انہی ایجنسیوں نے بھٹو صاحب کو کچھ ایسی پٹیاں پڑھائیں اور بھٹو صاحب نے کچھ ایسے اقدامات کئے کہ حزب اختلاف نہ صرف چوکنّا ہوگئی بلکہ 9 جماعتوں نے یعنی تقریباً ساری جماعتوں نے راتوں رات قومی اتحاد قائم کر ڈالا۔
انتخابات کے عمل کو مشکوک بنانے میں بھٹو صاحب سمیت18 بلا مقابلہ منتخب ہونے والے ارکان کا بڑا ہاتھ تھا۔ بھٹو صاحب کے مقابل پاکستان قومی اتحاد کے امیدوار مولانا جان محمد عباسی تھے جنہیں کاغذات نامزدگی داخل کرنے سے ایک دن پہلے ! اٹھوا لیا’ گیا اور کاغذات نامزدگی داخل ہونے کا وقت گذر جانے کے بعد رہا کردیا گیا۔
ان حرکتوں سے ایک طوفان اٹھ کھڑاہوا۔ انتخابات تو ہوگئے اور پیپلز پارٹی نے واضح اکثریت سے یہ انتخابات جیت لئے۔ قومی اتحاد کو صرف 36 نشستیں ملیں۔ اور متحدہ حزب اختلاف نے ان نتائج کو یکسر مسترد کردیا احتجاجی تحریک شروع کردی۔
اب ان انتخابات میں واقعی دھاندلی ہوئی تھی یا اتنی نہیں ہوئی تھی جتنا حزب اختلاف نے رولا ڈالا تھا، مجھے اس بارے میں نہیں خبر کہ میں پردیس میں تھا لیکن ایک بات مجھے آج بھی یاد ہےجس سے کچھ کچھ اندازہ ہوتا ہے کہ کیا کچھ ہوا ہوگا۔
ہم ریڈیو پر انتخابی نتائج سن رہے تھے۔ کراچی کے ایک حلقے ( غالبا شیرشاہ کالونی) کا پہلا نتیجہ بتایا گیا کہ قومی اتحاد کے ایک مولانا کو9ہزار اور حکومتی امیدوار کے 4 یا 5 ہزار ووٹ ملے۔ آگے بلیٹن میں مولانا کے9ہزار ووٹ کے مقابلے میں حکومتی امیدوار کے ووٹ 8 ہزار ہوگئے۔ُاس سے اگلے اعلان میں مولانا کے9ہزار اور پیپلزپارٹی کے امیدوار کے 20 ہزار ووٹ ہوگئے اور آخری نتیجہ آنے پر مولانا کے وہی ڈھاک کے تین پات یعنی 9 ہزار اور سرکاری امیدوار کے 60،70 ہزار ہوگئے۔۔اب اللہ جانے مولانا کے ووٹروں کا انتقال ہوگیا تھا یا ان کا ضمیر اچانک جاگ گیا تھا کہ 9 ہزار کے بعد انہیں ایک ووٹ نہیں پڑا اور سرکاری امیدوار 4ہزار سے چل کر60،70 ہزار تک پہنچ گیا۔
اس وقت اس بات پر بڑی حیرت ہوئی لیکن اللہ نےیہ دیکھنے کے لئے اب تک زندہ رکھا کہ یہ ناممکن ہرگز نہیں۔ ایسے کئی انتخابات کراچی والوں نے اس کے بعد بھی کئی بار دیکھے جہاں فرشتے ووٹ ڈال جاتے ہیں۔
تو جناب قومی اتحاد نے صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کا بائیکاٹ کردیا جہاں تمام وزرائے اعلیٰ پہلے ہی بلا مقابلہ منتخب ہوچکے تھے۔ ملک بھر میں شدید احتجاج شروع ہوگیا۔ منتخب عوامی حکومت نے اپنے ہی عوام کے خلاف طاقت کا بھر پور استعمال کیا۔ سینکڑوں لوگ جان سے گئے۔ ہزاروں قید ہوئے۔ طاقت کا سب سے بہیمانہ استعمال کراچی میں ہوا لیکن جب لاہور میں تین لوگ ہلاک ہوگئے تو فوج اور پولیس کی آنکھوں میں بھی آنسو آگئے اور انہوں نے ‘ اپنے’ ہی بھائیوں کے خلاف گولی چلانے سے انکار کردیا۔
میں چونکہ پردیس میں تھا اور اخبارات اتنی باقاعدگی سے نہیں ملتے تھے اس لئے میری یادیں زیادہ تر سنی سنائی باتوں پر مشتمل ہیں۔ سنا ہے کہ بھٹو صاحب نے انکل سام پر الزام لگایا کہ یہ سب ان کی کا رستانی ہے اور بھٹو کو ایٹمی ری پراسسنگ پلانٹ، چین سے تعلقات، تیسری دنیا میں بیداری کی مہم چلانے اور اسرائیل کے مقابلے میں عربوں کی حمایت کی سزا دی جارہی ہے جس کا ثبوت ملک میں یکایک امریکی ڈالر کی فراوانی ہے اور شاید کچھ اتنا غلط بھی نہ تھا کہ امریکی سکریٹری خارجہ ہنری کسنجر انہیں پہلے ہی عبرتناک مثال بنا دینے کی دھمکی دی چکا تھا۔
قومی اتحاد نے عوامی بے چینی اور حکومت مخالف جذبات کا فائدہ اٹھایا اور اسے کفرواسلام کی جنگ بنا دیا اور اس ملک گیر احتجاج کو تحریک نظام مصطفٰے کا عنوان دیا۔ لیکن یہاں بھٹو صاحب ان سے بڑے مسلمان نکلے اور انہوں نے وہ کام کرڈالے جو بڑے بڑے اسلام کا نام لینے والے نہ کرسکے تھے، یعنی شراب، ریس اور نائٹ کلبوں، فحاشی کے اڈوں پر پابندی، جمعہ کی چھٹی جیسے اقدامات کئے ( بعض مایوس دوست اس کا ‘ الزام ‘ بھی ضیاءالحق پر لگاتے ہیں )۔
بھٹو صاحب ایک گھاگ سیاستدان تھے ان کا ہاتھ حالات کی نبض پر رہتا تھا۔ ہوا کا رخ پہچان کر انہوں نے حزب اختلاف کو مذاکرات کی دعوت دی اور قومی اتحاد نے مفتی محمود کی سربراہی میں تین رکنی مذاکراتی ٹیم تشکیل دی جس کے دوسرے ارکان نوابزادہ نصراللہ خان اور پروفیسر غفور احمد تھے۔ بھٹو کی معاونت حفیظ پیرزادہ اور مولانا کوثر نیازی کررہے تھے۔
ریکارڈ کی خاطر بتاتا چلوں کہ اپریل میں پاکستان نے ویسٹ انڈیز کا دورہ کیا جہاں پانچ میچوں کی سیریز ہم تین صفر سے ہار گئے۔ یہاں وسیم راجہ مرحوم نے اپنی جارحانہ بلے بازی کا سکہ جمایا اور کپتان مشتاق محمد نے ایک اننگ میں سنچری بنانے اور پانچ وکٹیں لینے کا کارنامہ انجام دیا۔
واپس آتے ہیں ملکی حالات کی طرف۔۔جہاں دونوں فریقوں کی بات چیت کئی رنگ بدلتی رہی۔ کبھی بہت قریب آتے تو کبھی دور ہوجاتے۔ ایک موقع پر جب کسی نتیجے کی امید تھی تو بھٹو صاحب مشرق وسطی کے دورے پر نکل لئے۔خیر واپسی پر مذاکرات پھر شروع ہوئے۔ بھٹو صاحب نے دوبارہ انتخابات کا مطالبہ بھی مان لیا اور قریب تھا کہ حکومت اور اپوزیشن آپس میں شیرو شکر ہوجاتے اور ہمیشہ کے لئے ہنسی خوشی رہتے کہ میں نے بحرین میں اپنے ڈیڑھ سالہ قیام میں پہلی بار ٹیلیویژن پر پاکستان سے متعلق کوئی خبردیکھی۔بڑی بڑی مونچھوں اور سرمہ آلود آنکھوں والے جنرل ضیاء الحق کو قوم کو بتاتے دیکھا کہ ملک بچانے کے لئے افواج پاکستان کو مداخلت کرنا پڑی ہے، سیاسی سرگرمیاں معطل کردی گئی ہیں اور90 دن بعد انتخابات کرواکر اقتدار عوام کے حقیقی نمائندوں کے حوالے کردیا جائے گا۔
یہ اس رات کا آغاز تھا جس کی صبح گیارہ سال بعد بستی لال کمال میں 130-C طیارے کے تباہی سے ہوئی۔