ہفتہ کووزیر اعظم کی سربراہی میں نیشنل ایکشن پلان کے تحت قائم ایپکس کمیٹی کے اجلاس نے ملک میں دہشت گردی کے خاتمہ کے لیے آپریشن ’عزم استحکام‘ شروع کرنے کا اعلان کیا ۔ تاہم تحریک انصاف سمیت ملک کی تمام اپوزیشن پارٹیوں نے اس نئے فوجی آپریشن کی مخالفت کی ہے کیوں کہ اس سے خیبر پختون خوا کے قبائیلی علاقے متاثر ہونے کا اندیشہ ہے جہاں کی آبادی پہلے ہی شدید مشکلات کا سامنا کررہی ہے۔
وزیر دفاع خواجہ آصف نے گزشتہ روز قومی اسمبلی میں اس نئے آپریشن کی مخالفت پر لتے لینے کے بعد آج اس بات کا عندیہ دیا ہے کہ حکومت اپوزیشن کو اعتماد میں لے گی۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ کام پہلے کیوں نہیں کیا گیا اور جب قومی اسمبلی میں اپوزیشن کے لیڈر اس معاملہ پر مباحثہ کا مطالبہ کررہے تھے تو اسے کیوں مسترد کیا گیا۔ شاید شروع میں حکومت کا خیال تھا کہ یہ اعتراض صرف تحریک انصاف کی طرف سے پوائینٹ اسکورنگ کے لیے کیا جارہا ہے لیکن فوری طور سے یہ بھی واضح ہوگیا کہ یہ احتجاج صرف تحریک انصاف کی طرف سے نہیں ہؤا بلکہ خیبر پختون سے تعلق رکھنے والی بیشتر پارٹیوں نے اس نئے فوجی آپریشن کے خلاف آواز اٹھائی ہے۔ ان میں عوامی نیشنل پارٹی، نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی اور پشتون تحفظ موومنٹ شامل ہیں۔ آج جمیعت علمائے اسلام (ف) کے رہنما مولانا فضل الرحمان کا یہ بیان بھی میڈیا کی زینت بنا ہے کہ ’عزم استحکام‘ کے نام سے شروع ہونے والا نیا آپریشن ’عدم استحکام‘ کا سبب نے گا اور ملک کو مزید کمزور کرے گا‘۔
فوج اس سے پہلے خیبر پختون خوا میں دہشت گردی کے خاتمہ کے لیے آپریشن ضرب عضب اور آپریشن رد الفساد کے نام سے دو آپریشن کرچکی ہے تاہم ایک بار پھر دہشت گردی میں اضافہ ہورہا ہے اور ملک میں تشدد کے واقعات کی تعداد بڑھتی جارہی ہے۔ دہشت گردی میں حالیہ فروغ کی بنیادی ذمہ داری تحریک طالبان پاکستان پر عائد کی جاتی ہے جسے پاکستان کے بقول کابل میں طالبان کی حکومت کی سرپرستی حاصل ہے ۔ اسلام آباد تمام تر کوششوں کے باوجود افغانستان کی حکومت کو ٹی ٹی پی کی سرپرستی سے روکنے میں کامیاب نہیں ہؤا۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ طالبان حکومت تحریک طالبان پاکستان کو حکومت پاکستان پر دباؤ ڈالنے کے لیے استعمال کرتی ہے ۔ یوں بین الملکی تعلقات میں اپنی شرائط پر معاملات طے کرانے کی خواہش محسوس کی جاسکتی ہے۔ ان معاملات میں افغان تجارت، اسمگلنگ اور کرنسی کی خرید و فروخت جیسے اہم و حساس پہلو شامل ہیں جو پاکستان میں امن و امان کے علاوہ معاشی حالات پر بھی منفی انداز سے اثر انداز ہوتے ہیں۔ شاید یہی وجہ ہے پاکستانی حکومت نے اب از خود قبائیلی علاقوں میں ایک ہمہ گیر فوجی آپریشن شروع کرنے کا فیصلہ کیا ہے تاکہ مسلح گروہوں کا قلع قمع کیا جاسکے۔ کیوں کہ کابل حکومت بھی پاکستان میں دہشت گردی کو اس کا داخلی معاملہ قرار دیتی ہے اور اس کا مؤقف ہے کہ دہشت گردی کنٹرول کرنا پاکستانی حکام کا کام ہے۔ پاکستانی حکومت نے شاید اب یہی کام کرنے کا بیڑا اٹھایا ہے۔
تاہم اس آپریشن کی مخالفت کرنے والے لیڈروں کا کہنا ہے کہ اس سے پہلے بھی دو آپریشن کیے جاچکے ہیں۔ ان کے نتائج کا جائزہ لیے بغیر ایک نیا آپریشن شروع کرنے کا کیا فائدہ ہوسکتا ہے۔ پشتون تحفظ موومنٹ خاص طور سے قبائیلی علاقوں میں عدم تحفظ اور لاتعداد فوجی چوکیوں کی موجودگی کے باوجود امن و امان کی خطرناک صورت حال پر سوال اٹھاتی ہے اور کہتی ہے کہ ایک نئے آپریشن سے شہریوں کو پریشان کرنے کے علاوہ کوئی فائدہ نہیں ہوسکتا۔ قبائیلی علاقوں کے لوگ امن چاہتے ہیں لیکن انہیں امن تو نصیب نہیں ہوتا لیکن دہشت گرد عناصر کے علاوہ فوج کی طرف سے بھی دباؤ کا شکار ہونا پڑتاہے۔ پی ٹی ایم کا کہنا ہے کہ ’ہم آپریشن کی مخالفت اس وجہ سے بھی کرتے ہیں کہ اس سے پہلے ہونے والے آپریشنز میں دو لاکھ گھر تباہ ہوئے ہیں اور لوگ آج تک گھر تعمیر کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں‘۔
آپریشن ’عزم استحکام‘ کی مخالفت کرنے والی دیگر سیاسی پارٹیوں کا ایک تو یہ مؤقف ہے کہ اس بارے میں سیاسی مشاورت کے بغیر فیصلہ کرلیا گیا ۔ تحریک انصاف کے چئیرمین بیرسٹر گوہر علی کا کہنا ہے کہ اس سے پہلے آپریشن کا فیصلہ کرنے سے پہلے فوجی قیادت پارلیمنٹ کو بریفنگ دیتی تھی لیکن اس بار اس کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی۔ وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے قومی اسمبلی کی کارروائی کے دوران دعوی کیا کہ ایپکس کمیٹی میں خیبرپختونخوا کے وزیر اعلیٰ موجود تھے جنہوں نے کوئی اختلاف نہیں کیا۔ البتہ اس پاکستان تحریک انصاف کے رہنما اور سابق اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر نے اس دعوے کو مسترد کیا ہے۔اسد قیصر نے نجی ٹی وی چینل جیو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ان کی خیبر پختونخوا کے وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور سے فون پر بات ہوئی ہے جنہوں نے بتایا کہ ’ایپکس کمیٹی کے اجلاس میں ایسی کوئی بات نہیں ہوئی بلکہ وہاں معمول کی باتیں ہوئی ہیں۔ آپریشن سے متعلق کوئی فیصلہ نہیں ہوا‘۔ ایپکس کمیٹی میں چاروں صوبوں کے وزرائے اعلیٰ بھی شامل ہوتے ہیں۔ البتہ اب کے پی کے کے وزیر اعلیٰ کے حوالے سے مختلف مؤقف سامنے لایاجارہاہے جس سے ایپکس کمیٹی کے فیصلہ کے بارے میں ہی شبہات پیدا ہورہے ہیں۔
اسلام آباد میں مشیر اطلاعات خیبرپختونخوا بیرسٹر سیف نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہےکہ وزیراعظم کے عزم استحکام آپریشن والے بیان سے کنفیوژن پیدا ہؤا ہے۔ عوام کو نہیں بتایا گیا کہ آپریشن کا طریقہ کار اور مدت کیا ہوگی؟ عوام میں آپریشن کے حوالے سے تشویش پائی جاتی ہے، دہشت گردی کے خلاف کاروائی کیلئے صوبوں سے مشاورت ضروری ہے۔ یہ انتہائی اہم مسئلہ ہے جو قومی سلامتی سے منسلک ہے۔ جب تک آپریشن کے خدوخال واضح نہیں ہوتے اس وقت تک آپریشن کی حمایت نہیں کرسکتے۔ انہوں نے بتایا کہ وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور نے بانی چیئرمین سے اڈیالہ جیل میں ملاقات کر کے آپریشن کے حوالے سے رائے لی ہے۔ عمران خان نے کہا ہے حکومت جب تک آپریشن کی تفصیلات نہیں بتاتی، حمایت نہیں کریں گے۔
اگر وزیر اعظم کے بیان سے معاملہ الجھا تھا تو خیبر پختون خوا حکومت کے ترجمان کے بیان سے اس میں مزید پیچیدگی پیدا ہوئی ہے۔ اس بارے میں عمران خان سے منسوب بیان کو بحث کا حصہ بنا کر یہ معاملہ سکیورٹی کے علاوہ وسیع تر سیاسی تصادم کا ایک نیا رخ اختیار کررہا ہے۔ اگرچہ وفاقی وزیر اطلاعات عطااللہ تارڑ نے قومی اسمبلی کے اجلاس میں کہا تھا کہ ’آج خیبر پختونخوا کے جنوبی اضلاع میں سکیورٹی کی صورت حال انتہائی خراب ہے، اس وقت سب کو دہشت گردی کے خلاف متحد ہونے کی ضرورت ہے‘۔ لیکن تحریک انصاف کے بعد خیبر پختون خوا حکومت کے مؤقف سے واضح ہوتا ہے کہ ایک تو حکومت نے یہ فیصلہ کرنے سے پہلے ہوم ورک نہیں کیا ، دوسرے عسکری قیادت بھی ملک میں سیاسی عدم اعتماد کی سنگینی کا اندازہ کرنے میں ناکام رہی ۔ تحریک انصاف بلاشبہ خیبر پختون خوا کے حوالے سے اس معاملہ کو بنیاد بنا کر فوج کے ساتھ مواصلت شروع کرنے کی خواہش رکھتی ہے۔ لیکن حکومت نے اس اہم فیصلہ سے خیبر پختون خوا کے وزیر اعلیٰ کے علاوہ قومی اسمبلی میں سیاسی جماعتوں کو اعتماد میں نہیں لیا جس کی وجہ سے ایک فوجی آپریشن کے حوالے سے ملک میں پریشان خیالی دیکھنے میں آرہی ہے۔
یہ صورت حال اس حوالے سے بھی پریشان کن ہے کہ جمعہ کے روز اسلام آباد میں پاک چین مشاورتی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے چین کے وزیر نے ملک میں سکیورٹی کی صورت حال کو سی پیک کے حوالے سے تشویشناک قرار دیا تھا۔ چینی وزیر لیو جیانگ چاؤ کا کہنا تھا کہ سی پیک کی مرحلہ وار کامیابی کے لیے ملک میں سیاسی استحکام اور میڈیا کا خوشگوار رویہ بے حد ضروری ہے۔ البتہ سیاسی مباحث میں اپوزیشن کی جانب سے چینی وزیر کی طرف سے سکیورٹی پر تشویش کا حوالہ تودیا جارہا ہے لیکن سیاسی مفاہمت و بہتر دوستانہ ماحول پیدا کرنے کے بارے میں گریز اور لاتعلقی کی صورت حال دیکھنے میں آئی ہے۔ ایپکس کمیٹی میں نیا فوجی آپریشن شروع کرنے کا فیصلہ درحقیقت چینی سکیورٹی تحفظات دور کرنے کی کوشش قرار دیا جاسکتا ہے۔ تاہم حکومت کو یہ ذمہ داری قبول کرنی چاہئے کہ ایک صوبے کی حکومت اس فیصلہ سے لاتعلقی کا اعلان کرتے ہوئے واضح کررہی ہے کہ اس اجلاس میں تو ایسا کوئی فیصلہ ہی نہیں ہؤا۔ اگر اس اہم فورم کے اجلاس اور وہاں ہونے والی بات چیت کے بارے میں بھی سیاست کی جائے گی تو ملکی سلامتی کے بارے میں سنگین سوالات کا جواب دینا مشکل ہوجائے گا۔حکومت کو ایک تو فوری طور سے ایپکس کمیٹی کے اجلاس میں ہونے والی بات چیت اور فیصلوں کی دستاویزی تفصیل سامنے لانی چاہئے تاہم صرف اسے سیاسی تصادم کی ایک نئی وجہ بنانے کی بجائے فوری طور سے اپوزیشن کے تحفظات دور کیے جائیں۔ قومی اسمبلی میں عسکری قیادت سکیورٹی صورت حال اور نئے آپریشن کی ضرورت کے حوالے سے بریفنگ دے کر ارکان پارلیمنٹ کو مطمئن کرسکتی ہے۔ اور قومی اسمبلی میں مباحثہ کے ذریعے مسئلہ حل کرنے کے لیے سیاسی اتفاق رائے پیدا کیاجاسکتا ہے۔
ملک کی حکومت اور سیاسی پارٹیاں اگر سکیورٹی سے متعلق معاملات پر بھی مل بیٹھنے پر آمادہ نہیں ہوں گی اور قومی سلامتی کو سیاسی ایجنڈا پورا کرنے کا ذریعہ بنایا جائے گا تو اس سے کسی ایک پارٹی تو کوئی فائدہ نہیں ہوگا لیکن سیاسی تصادم اور بے اطمینانی میں اضافہ ہوگا۔ سی پیک کے علاوہ ملک میں سرمایہ کاری کے دیگر امکانات بھی خطرے میں پڑ سکتے ہیں۔ اس وقت پاکستان کے بیشتر مسائل کی بنیاد معاشی بحالی کے امور سے جڑی ہوئی ہے۔ تمام سیاسی پارٹیوں کو اس بارے میں پوری ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا چاہئے۔
( بشکریہ : کاروان ۔۔ ناروے )
فیس بک کمینٹ