سابق گورنر مغربی پاکستان نواب آف کالاباغ ملک امیر محمد خان مرحوم کے بیٹے اور ان کے مبینہ قاتل کا 23 اگست کو انتقال ہوا۔ نوابزادہ ملک اسد خان کی گزشتہ روزنمازجنازہ ان کی سٹیٹ کالاباغ کے بڑے میدان میں ادا کردی گئی۔ انہیں کالاباغ میں آبائی قبرستان میں ہزاروں افراد کی موجودگی میں سپرد خاک کر دیا گیا۔ مرحوم نوابزادہ ملک اسد خان کے بھائی نوابزادہ ملک مظفر خان، ملک اللہ یار خان اور ملک اعظم خان پہلے انتقال کرچکے ہیں۔ اس وقت کالاباغ سٹیٹ کے نواب کا منصب نواب ملک امیر محمد خان مرحوم کے بڑے بیٹے ملک مظفر خان مرحوم کے بیٹوں ملک وحید خان، ملک ادریس خان کے پاس ہے
26 نومبر 1967ء کو مغربی پاکستان کے سابق گورنر نواب آف کالا باغ‘ ملک امیر محمد خان کو پراسرار طور پر قتل کردیا گیا۔ نواب آف کالا باغ‘ ایوب خان کی حکومت کے ایک اہم ستون تھے۔ یکم جون 1960ء کو انہوں نے مغربی پاکستان کے گورنر کا عہدہ سنبھالا۔ اس عہدے پر وہ 18ستمبر 1966ء تک فائز رہے ۔ گورنری سے مستعفی ہونے کے بعد وہ اپنی جاگیر پر واپس چلے گئے جہاں 26 نومبر 1967ء کو انہیں قتل کردیا گیا۔ اس قتل کا الزام ان کے بیٹے ملک اسد پر لگایا گیا مگر اس الزام کو ثابت نہ کیا جاسکا ۔ وہ عائلہ ملک اور سمیرا ملک کے دادا تھے۔صدر ایوب خان کی اصل طاقت اس دور میں نواب آف کالا باغ اور ذوالفقار علی بھٹو تھے ،جب دونوں ہٹے تو ایوب خان کے اقتدار کا سورج بھی غروب ہوگیا تھا۔
ان کا قتل غیر معمولی تھا اور اس پر اسرار کے پردے ڈال دئے گئے لیکن سابق صدر فیلڈ مارشل ایوب خان نے اپنی ڈائری میں اس واقعہ کا یوں ذکر کیا ہے کہ ” جنرل موسیٰ نے دوپہر میں فون پر بتایا کہ نواب کالا باغ کو ان کے بیٹے اسد نے گولی مار کر ہلاک کردیا۔ کہا جاتا ہے کہ نواب کی اپنے بیٹے سے سخت تکرار ہوگئی اور نواب نے اسد پر دو فائر کئے جن سے اس کا بازو زخمی ہوگیا۔ اسد نے جواب میں پانچ فائر کئے اور نواب کالا باغ موقع پر جاں بحق ہوگئے۔
کچھ اور ذ رائع کا کہنا ہے کہ قتل ان کی بیگم نے کیا تھا جبکہ اپنی والدہ کو قتل کے الزام سے بچانے کے لئے نواب اسد نے الزام اپنے سر لے لیا ۔
نواب صاحب پردے کے بڑے سخت پابند تھے ۔ میجر دوست اور ملک شیرمحمد بھی ڈیوڑھی میں نواب صاحب کی بیگم سے ملاقات کرکے واپس چلے جاتے ۔ ننگے سر اندر جانے کی کسی کو اجازت نہیں تھی۔
اسکندر مرزا کالاباغ کے دورے پر آئے تو ان کی بیگم زبیدہ نے کہا میں اندر جانا چاہتی ہوں ۔ نواب صاحب نے جواب دیا ہماری عورتوں کا پردہ ہے ۔ زبیدہ نے کہا میں بھی عورت ہوں ۔ نواب صاحب نے کہا آپ جیسی عورتوں سے بھی پردہ ہے ۔
سخت گیر اور پردہ کے پابند نواب آف کالا باغ کی پوتیاں آج ملک کی سیاست میں کردار ادا کر رہی ہیں ۔
سابق آرمی سٹاف کار ڈرائیور ملک محمد خان کی یادوں کے مطابق ایک شام ملک مظفرخان نے احمد کوکہا گیلری والا دروازہ کھول دینا نواب صاحب کے ساتھ ضروری بات کرنی ہے ۔ کھاناکھانے کے بعد نواب صاحب اخبار پڑھ رہے تھے کہ ملک مظفرخان نے کار بین سے فائر کیے۔
نواب صاحب کو سمجھ نہیں آیااور کہامظفر خان دیکھو مجھے کسی نے فائر مار دیا ہے ۔صبح سویرے نواب صاحب کے خاندان کی خواتین نے رونا شروع کیا تو ملازمین کو پتہ چلا کہ نواب صاحب کی رات کے وقت وفات ہوگئی ہے ۔شیخ حنیف وکیل نے کمرے میں جاکر نواب صاحب کی لاش دیکھی تو خوف کی وجہ سے بے ہوش ہوگیا تھا ۔نواب آف کالا باغ کی میت کو جس کسمپرسی سے دفن کیا گیا وہ عبرت کا نشان تھا وہ شخص جس کا رعب اور دبدبہ پورے مغربی پاکستان پر چلتا تھا‘ اس کے جنازے میں گنتی کے صرف چند افراد موجود تھے۔
کیا عجب واقعہ کہ جس بیٹے پر قتل کا الزام اور لمبی مدت تک وہ گھر میں نظر بند رہے اس کا جنازہ ایسا کہ ہزاروں شریک اور یہاں تک کہٗ نماز جنازہ کے موقع پر کئی افراد کی جیبیں کٹ گئیں اور وہ نقدی موبائل اور کاغذات سے محروم ہو گئے۔