اسلام آباد : پاکستان میں امریکی سفارتخانے کے ایک ترجمان نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے تصدیق کی ہے کہ وہ اس بارے میں معلومات حاصل کر رہے ہیں کہ کیا پاکستان نے گزشتہ ہفتے انڈین طیارہ گرانے کے لیے امریکہ سے خریدے گئے ایف سولہ طیارے استعمال کیے تھے۔امریکی وزارتِ خارجہ کے ترجمان نے بتایا ہے کہ ’امریکہ ان خبروں سے آگاہ ہے اور اس بارے میں مزید معلومات حاصل کی جا رہی ہیں۔‘ تاہم اس سوال کا جواب نہیں دیا گیا کہ امریکہ نے اس سلسلے میں حکومتِ پاکستان سے باضابطہ طور پر رابطہ کیا ہے یا نہیں، دراصل یہ معاہدے کیا ہیں اور کیا ان میں ایسی کوئی شق موجود ہے جو پاکستان کو پابند کرتی ہے کہ یہ ساز و سامان صرف دہشت گردی کی جنگ میں ہی استعمال کیا جا سکتا ہے؟ یا یہ کہ پاکستان ‘کسی حملے یا سرحدی خلاف ورزی کی صورت میں اپنے دفاع’ کے لیے امریکہ سے خریدے گئے جنگی طیارے اور دیگر دفاعی ساز و سامان پر انحصار کر سکتا ہے۔دوسری جانب وفاقی وزیرِ اطلاعات فواد چودھری نے اس ضمن میں امریکی حکومت کی جانب سے کسی بھی قسم کے رابطے سے لاعلمی کا اظہار کیا ہے۔اس سے قبل پاکستانی فوج کے ترجمان میجر جنرل آصف غفور نے گزشتہ ہفتے ایک پریس کانفرنس کے دوران کہا تھا کہ اس مشن کے دوران ‘کوئی ایف سولہ طیارہ استعمال نہیں ہوا’۔ وہ ایک صحافی کے اس سوال کا جواب دے رہے تھے کہ انڈیا نے پاکستان کا ایف سولہ طیارہ مار گرانے کا دعوی کیا تھا۔ فوجی ترجمان نے اس دعوے کی تردید کی تھی۔برطانوی خبر رساں ادارے روئیٹرز کے مطابق امریکی ساختہ طیارہ استعمال ہونے کی صورت میں یہ امریکہ اور پاکستان کے درمیان جنگی ساز و سامان کی خریداری کے معاہدے کی ممکنہ خلاف ورزی ہو سکتی ہے جو ایک رائے کہ مطابق پاکستان پر اس جنگی ساز و سامان کے استعمال کی حد مقرر کرتے ہیں۔تاہم اس قسم کے معاہدوں سے متعلق باقاعدہ معلومات دستیاب نہیں ہیں۔پاکستان کے سابق سیکرٹری دفاع لیفٹننٹ جنرل (ر) نعیم لودھی نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے امریکہ اور پاکستان کے درمیان ایسا کوئی دفاعی معاہدہ نہیں دیکھا جس میں ان کے استعمال سے متعلق کسی قسم کی قدغن یا حد موجود ہو۔’جب پوری دنیا کو علم ہے کہ پاکستان کا نمبر ون دشمن انڈیا ہے۔ اس کے باوجود وہ دفاعی ساز و سامان فروخت کریں اور توقع رکھیں کہ یہ کہاں استعمال ہو گا تو میرے خیال میں یہ سادہ لوحی ہے۔ دوسری بات یہ کہ پاکستان نے یہ سامان مفت نہیں خریدا ہے۔ میری نظر میں کسی دفاعی معاہدے کی ایسی کوئی شق نہیں کہ یہ طیارے دہشتگردی کے خلاف جنگ کے علاوہ استعمال نہیں ہو سکتے۔‘سابق سیکرٹری دفاع کا کہنا تھا کہ سِول استعمال کے لیے دیئے گئے چند ہیلی کاپٹرز کے علاوہ دیگر جنگی طیاروں پر ایسی کوئی قدغن موجود نہیں ہے۔سابق وزیر دفاع خرم دستگیر کا بھی کہنا ہے کہ پاکستان اپنی سرحد کے اندر رہتے ہوئے اور اپنے دفاع کے لیے ہر قسم کا جنگی ساز و سامان استعمال کر سکتا ہے۔ ‘پہلی بات تو یہ ہے کہ اس واقعے میں ایف سولہ استعمال نہیں ہوئے اور نہ ہی انڈیا کے پاس ایسا کوئی ثبوت ہے۔ تاہم پاکستان تمام جنگی ساز وسامان اپنے دفاع کی خاطر استعمال کر سکتا ہے۔ پاکستان یہ طیارے کسی ملک کے خلاف جارحیت کے لیے استعمال نہیں کر سکتا’۔دوسری جانب ایک سابق سیکرٹری دفاع نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہا کہ ‘اس بات کا امکان موجود ہے کہ نائن الیون کے بعد حاصل کیے گئے ایف سولہ طیاروں سے متعلق ایسی کوئی شق موجود ہو۔ لیکن یہ بات اہم ہے کہ پاکستان پر حملے کی صورت میں ملک کسی معاہدے کے بجائے اپنے دفاع کے بارے میں سوچے گا اور اپنے پاس موجود بہترین جنگی ساز و سامان استعمال کرے گا’۔ واضح رہے کہ پاکستان اپنے دفاع کے لیے جنگی طیاروں سمیت مختلف قسم کا اسلحہ اور جنگی سازو سامان امریکہ سے خریدتا رہا ہے۔ پاکستان یہ جنگی سازو سامان نہ صرف دہشتگردی کے خلاف جنگ میں استعمال کرتا رہا ہے بلکہ مشرقی سرحد کی حفاظت کے لیے بھی اسی پر انحصار کرتا ہے۔ امریکی وزارت خارجہ کے اس بیان سے متعلق پاکستان کی وزارتِ دفاعی پیداوار، دفتر خارجہ اور فضائی فوج سے رابطوں کے باوجود کوئی جواب نہیں دیا گیا۔
( بشکریہ : بی بی سی اردو ـ)
فیس بک کمینٹ