کسی امریکی اہلکار کے اس دعوے کو ایک لطیفے سے زیادہ اہمیت نہیں دی جاسکتی کہ پاکستان بلیسٹک میزائل کی ایسی قسم تیار کرنے کے قابل ہوگیا ہےجو امریکہ تک مار کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ اس سے جغرافیائی سلامتی کے بارے میں امریکی تشویش میں اضافہ ہؤا ہے۔ یہ لطیفہ نما تبصرہ کسی اور نے نہیں بلکہ صدر جو بائیڈن کے قومی سلامتی کے نائب مشیر جان فائنر نے کیا ہے۔
یہ بیان دو روز قبل امریکہ کی طرف سے پاکستان میں میزائل پروگرام پر کام کرنے والے قومی ادارے نیشنل ڈویلپمنٹ کمپلیکس (این ڈی سی) کے علاوہ کراچی کی تین کمپنیوں پر نئی پابندیاں لگانے کے اعلان کے بعد سامنے آیا ہے۔ پاکستان پر نئی پابندیاں عائد کرتے ہوئے امریکی وزارت خارجہ کا کہنا تھا کہ ’امریکہ جوہری پھیلاؤ اور اس سے وابستہ خریداری کی سرگرمیوں کے خلاف کارروائی جاری رکھے گا‘۔ بیان کے مطابق یہ فیصلہ پاکستان کے طویل فاصلے تک مار کرنے والے میزائلوں کی تیاری اور خطرناک ہتھیاروں کے مسلسل پھیلاؤ کے خطرے کی روشنی میں کیا گیا ہے۔ امریکی وزارت خارجہ کا مؤقف ہے کہ این ڈی سی اور تین کمپنیوں پر ایگزیکٹو آرڈر (ای او) 13382 کے تحت پابندیاں عائد کی گئی ہیں۔ اس حکم کے تحت بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں اور ان کی ترسیل کے ذرائع کو نشانہ بنایا گیا ہے۔
پاکستان کی وزارت خارجہ نے ان پابندیوں کو ناروا اور یک طرفہ قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ اس طرح علاقے میں طاقت کا توازن خراب ہوگا جو بے حد تشویشناک ہے۔ پاکستان نے نیشنل ڈیولپمنٹ کمپلیکس (این ڈی سی) اور 3 تجارتی اداروں پر امریکی پابندیوں کومتعصبانہ قرار دیا تھا۔ ترجمان دفتر خارجہ نے امریکی پابندیوں پر ردعمل دیتے ہوئے کہا تھا کہ پاکستان کی اسٹریٹجک صلاحیتوں کا مقصد اپنی خودمختاری کا دفاع کرنا اور جنوبی ایشیا میں امن و استحکام کا تحفظ ہے۔ پابندیوں کی تازہ ترین قسط امن اور سلامتی کے مقصد سے انحراف کرتی ہے۔ اس کا مقصد فوجی عدم توازن کو بڑھانا ہے۔ بیان کے مطابق اس طرح کی پالیسیاں ہمارے خطے اور اس سے باہر کے اسٹریٹجک استحکام کے لیے خطرناک مضمرات رکھتی ہیں۔ دفتر خارجہ نے واضح کیا کہ اسٹریٹجک پروگرام پاکستانی عوام کی مقدس امانت ہے اور اس پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہو سکتا۔ نجی تجارتی اداروں پر پابندیاں عائد کرنے پر بھی افسوس ہے۔ ماضی میں بھی تجارتی اداروں پر پابندیاں بغیر کسی ثبوت کے محض شکوک و شبہات پر مبنی تھیں۔
واضح رہے رواں برس اکتوبر میں بھی امریکی محکمہ تجارت کے بیورو آف انڈسٹری اینڈ سیکیورٹی (بی آئی ایس) نے مبینہ طور پر پاکستان کے بیلسٹک میزائل پروگرام میں معاونت کرنے والی 16 کمپنیوں کو بلیک لسٹ کیا تھا۔ اس سے قبل ستمبر میں چینی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ اور متعدد کمپنیوں پر پاکستان کے جوہری میزائل پروگرام کو مواد فراہم کرنے کے الزام میں پابندیاں عائد کی گئی تھیں۔ اس صورت حال کا جائزہ لیتے ہوئے امریکہ میں پاکستان کی سابق سفیر اور تجزیہ نگار ملیحہ لودھی کا کہنا ہے کہ امریکی پابندیوں سے پاکستان کا میزائل پروگرام متاثر نہیں ہوگا۔ ان پابندیوں سے پاکستان کے میزائل پروگرام کی رفتار بھی سست نہیں ہوگی۔’جیو نیوز‘ سے گفتگو کرتے ہوئے ملیحہ لودھی نے کہا کہ حالیہ پابندیاں کوئی نئی بات نہیں ہیں ۔ بائیڈن انتظامیہ نے گزشتہ 4 سال میں 6 یا 7 بار پابندیاں عائد کی ہیں۔ سابق پاکستانی سفیر نے کہاکہ ایک بات ہمیں یاد رکھنے کی ضرورت ہے کہ اس طرح کی پابندیاں پاکستان کی صحت کو متاثر نہیں کرتیں۔ پاکستان کی جوہری پالیسی یا میزائل پالیسی نہ سست ہوگی اور نہ ہی رکے گی۔ تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ جب سے پاکستان نے اپنا جوہری پروگرام شروع کیا ہے، امریکہ پابندیاں عائد کر رہا ہے۔ وہ پاکستان کے جوہری پروگرام کو بند کرنے یا اسے کمزور کرنے کی کوشش کر رہے تھے یا کوشش کر رہے ہیں کہ پاکستان میزائل تیار نہ کرے۔ امریکی پابندیاں امتیازی ہیں کیوں کہ امریکا نے ان پابندیوں کا اطلاق کبھی بھی طرح بھارت پر نہیں کیا، جس کا میزائل پروگرام پاکستان سے زیادہ جدید ہے۔ بھارت کے پاس ڈی اینڈ ڈی سسٹم ہےجو بیلسٹک میزائل دفاعی نظام ہیں۔ یہ سسٹم خود امریکہ نے بھارت کو فراہم کیا ہے۔ یا انہوں نے اسے خود تیار کیا ہے اور اسرائیل سے بھی لیا ہے۔امریکہ نے بھارت پر کبھی پابندیاں عائد نہیں کیں۔ پاکستان کے خلاف یہ امتیازی پالیسی ہے لیکن پاکستان پر اس کے اثرات صفر ہوں گے۔
ابھی پاکستان میزائل پروگرام پر امریکی پابندیوں کے حوالے سے تجزیے اور رد عمل ہی سامنے آرہے تھے کہ امریکی تھنک ٹینگ کارنیگی انڈاؤمنٹ کے زیراہتمام منعقد ہونے والی ایک تقریب میں خطاب کرتے ہوئے صدر جو بائیڈن کے قومی سلامتی کے نائب مشیر جان فائنر نے دعویٰ کیا کہ پاکستان کا میزائل نظام امریکی قومی سلامتی کے لیے خطبرہ بن رہا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان نے لانگ رینج میزائل سسٹم اور ایسے دیگر ہتھیار بنا لیے ہیں جو اسے بڑی راکٹ موٹرز کےتجربات کرنے کی صلاحیت دیں گے۔ اگر یہ سلسلہ جاری رہتا ہے تو پاکستان کے پاس جنوبی ایشیا سے باہر بھی اپنے اہداف کو نشانہ بنانے کی صلاحیت آ جائے گی۔ اس میں امریکہ بھی شامل ہے اور اس چیز سے پاکستان کے ارادوں پر حقیقی سوالات اُٹھتے ہیں۔ امریکی صدر کے نائب مشیر نیشنل سکیورٹی کاکہنا تھا کہ ’ایسے ممالک کی فہرست چھوٹی ہے جو جوہری ہتھیار بھی رکھتے ہوں اور ان کے پاس براہِ راست امریکہ کو نشانہ بنانے کی صلاحیت بھی ہو ۔ وہ امریکہ کے مخالفین ہیں یعنی روس، شمالی کوریا اور چین۔ہمارے لیے یہ مشکل ہو گا کہ ہم پاکستان کے اقدامات کو امریکہ کے لیے خطرے کی حیثیت سے نہ دیکھیں۔ مجھ سمیت ہماری انتظامیہ کے سینئر رہنماؤں نے متعدد بار ان خدشات کا اظہار پاکستان کے سینئر حکام کے سامنے کیا ہے۔ پاکستان طویل عرصے سے امریکہ کا پارٹنر رہا ہے اور وہ مشترکہ مفادات پر پاکستان کے ساتھ مزید کام کرنے کی بھی خواہش رکھتے ہیں۔ تاہم ان کا کہنا تھا کہ ’اس کے بعد ہمارے نزدیک یہ سوال بھی اُٹھتا ہے کہ پاکستان ایسی صلاحیت کیوں حاصل کر رہا ہے جو ہمارے خلاف استعمال ہو سکے۔ بدقسمتی سے ہمیں لگتا ہے کہ پاکستان ہمارے اور بین الااقوامی برادری کے خدشات کو سنجیدگی سے لینے میں ناکام ہوا ہے‘۔
صورت حال کی پوری تصویر میں دیکھا جاسکتا ہے کہ خطرناک ہتھیاروں کے پھیلاؤ اور پاکستان جیسے چھوٹے اور کم وسیلہ ملک سے امریکی قومی و جغرافیائی سلامتی کو خطرہ قرار دینے کے دعوے بے بنیاد اور کسی جواز کے بغیر محض کسی خاص سیاسی ایجنڈے کے تحت عائد کیے جارہے ہیں۔ ڈیموکریٹک پارٹی حالیہ انتخابات میں نہ صرف صدر منتخب کرانے میں کامیاب نہیں ہوئی بلکہ وہ سینیٹ اور ایوان نمائیندگان میں بھی اکثریت سے محروم ہوگئی ہے۔ 20 جنوری کو صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اقتدار سنبھالنے کے بعد طویل عرصہ تک ڈیموکریٹک پارٹی کا سیاسی اثر و رسوخ محدود ہو جائے گا۔ پاکستان کے میزائل پروگرام پر عائد کی جانے والی حالیہ پابندیوں کو اسی تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے کیوں کہ ری پبلیکن پارٹی ہتھیاروں کے پھیلاؤ کے حوالے سے مختلف رائے رکھتی ہے۔ پاکستان اس وقت امریکہ کی ترجیحات میں بھی شامل نہیں ہے۔ ایسے میں جو بائیڈن پاکستان جیسے ایک ’غیر اہم‘ ملک پر غیر ضروری اور بے جواز پابندیاں عائد کرکے ایک طرف بھارت کو مطمئن کرنا چاہتے ہیں تو دوسری طرف آنے والے وقت میں ڈیموکریٹک پارٹی کے بعض’ اصولوں‘ کو مسلط کرنے کی خواہش رکھتے ہیں۔ انہیں علم ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کی حکومت پاکستان پر پابندیوں کے بارے میں کوئی اصولی اقدام نہیں کرے گی، اس لیے اس وقت عائد کی گئی پابندیوں کو ڈیموکریٹک پارٹی مستقبل کے سیاسی مباحث میں ہتھیاروں کے پھیلاؤ کی اصولی بحث میں اپنے فائدے کے لیے استعمال کرسکے گی۔ کیوں کہ واشنگٹن میں ایسی روایت موجود نہیں ہے کہ سیاسی پارٹیاں اپنی پالیسیوں کے عدم توازن اور ناانصافیوں پر نظر ڈالنے کی زحمت بھی کریں۔
حقیقت یہ بھی ہے کہ امریکہ دنیا میں جمہوریت اور انسانی حقوق کے علمبردار کے طور پر اپنی حیثیت کھو چکا ہے۔ گزشتہ سال اکتوبر سے غزہ میں اسرائیلی جارحیت سے ہونے والی تباہ کاری اور 25 لاکھ انسانوں کے ساتھ روا رکھے جانے والے سلوک پر اقوام متحدہ کے علاوہ دنیا کا ہر صاھب دل انسان چیخ اٹھا ہے ۔ لیکن امریکہ بدستور اسرائیل کی عسکری، مالی اور سفارتی امداد کررہا ہے۔ ہتھیاروں کے پھیلاؤ کو روکنے کی پالیسی کا دعویٰ کرنے والے امریکہ نے ایرانی میزائل حملوں کے وقت نہ صرف اپنے بحری بیڑے اور علاقے میں امریکی فوجی اڈوں کو اسرائیل کی حفاظت پر مامور کیا بلکہ ایرانی حملوں کا ناکام بنانے کے لیے فوری طور پر جدید تھاڈ اینٹی میزائل سسٹم اسرائیل میں نصب کیا اور اسے چلانے کے لیے امریکی فوجی اہلکار بھی فراہم کیے گئے۔
یہی پالیسی بھارت کے حوالے سے بھی اختیار کی جاتی ہے۔ پاکستان کے میزائل پروگرام کوامریکہ کے لیے خطرناک قرار دینے والی حکومت بھارت کے جدید میزائل پروگرام اور اینٹی میزائل پروگرام میں سہولت کاری میں کوئی مضائقہ نہیں سمجھتی۔ اس سے امریکہ کا دوغلا پن تو واضح ہوتا ہی ہے لیکن اس کے ان دعوؤں کا پول بھی کھلتا جارہا ہے کہ وہ دنیا بھر میں امن کا خواہاں ہے اور انسانوں کے خلاف ہونے والے مظالم کو برداشت نہیں کرسکتا۔ درحقیقت یہ اصطلاح محض امریکہ کی بالادستی کو چیلنج کرنے والے ممالک کو نیچا دکھانے کے لیے استعمال کی جاتی ہے۔ امریکہ کو کسی ملک میں اسی وقت انسانی حقوق پر پریشانی لاحق ہوتی ہے جب اس کے اپنے مفادات کو زک پہنچتی ہو۔ بصورت دیگر وہ خود انسانوں کو ہلاک کرنے کے لیے اسلحہ و بارود فراہم کرنے میں بھی مضائقہ نہیں سمجھتا۔
پاکستان سے لاحق خطرہ کے بارے میں قومی سلامتی کے نائب مشیر جان فائنر کا بیان اس لحاظ سے بھی مضحکہ خیز ہے کہ پاکستان کے پاس تو ابھی پونے تین ہزار کلو میٹر سے زیادہ رینج کا کوئی میزائل نہیں ہے جبکہ بھارت کا اگنی میزائل پروگرام 7ہزار کلو میٹر تک مار کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ پاکستان ایک محدود معیشت کا حامل چھوٹا ملک ہے جبکہ امریکہ دنیا کی سب سے بڑی معیشت، سپر پاور اور اسلحہ کا سب سے بڑا ذخیرہ رکھنے والا ملک ہے۔ پاکستان ایسے ملک کے خلاف جارحانہ حکمت عملی اختیار کرنے کا تصور بھی نہیں کرسکتا۔ اس کی ساری تیاری بھارت سے حفاظت کے نقطہ نظر سے ہوتی ہے۔ امریکہ اگر اپنے نام نہاد اسٹریٹیجک مفادات کے لیے چین کو نیچا دکھانے کی خواہش پالنا بند کردے تو وہ حقیقی معنوں میں مہلک ہتھیاروں کا پھیلاؤ روکنے کے لیے کام کرسکتا ہے۔ ایسی صورت میں اسے بھارت جیسے ملک کو عسکری امداد دینے کی بجائے ہمسایہ ممالک کے ساتھ امن قائم کرنے پر مجبور بھی کیا جاسکتا تھا۔
اس پس منظر میں جان فائنر کی طرف سے پاکستان سے امریکہ کو لاحق خطرے کا بیان اس پرانی کہانی کی یاد دلاتا ہے جس میں شیر ایک بھیڑ پر پانی جھوٹا کرنے کا الزام لگا کر اسے دبوچ لیتا ہے۔ یا اسے ایسا لطیفہ سمجھنا چاہئے جس پر ہنسنا بھی محال ہے کیوں کہ یہ دنیا کی سپر پاور امریکہ کے نائب مشیر کی ایک ذمہ دار پلیٹ فارم پر کی گئی گفتگو ہے۔ اس انداز گفتگو سے اندازہ ہوتا ہے کہ واشنگٹن جیسے طاقت کے مراکز میں فیصلہ سازی میں شریک لوگوں کی ذہانت اور شعور کا کیا عالم ہے۔
( بشکریہ:کاروان ۔۔ناروے )
فیس بک کمینٹ