ملتان کی جن ادبی اور تاریخی شخصیات کے بارے میں میرا لکھنے کا ارادہ تھا علامہ عتیق فکری ان میں شامل تھے ۔ وہ میرے والد گرامی خدابخش آسی کے بقول ان کے بچپن کے دوست اور پرائمری درجات میں ان کے ہم جماعت رہے تھے۔ ان کے مالی حالات نہایت مخدوش تھے گزر بسر تخلیقی سرگرمیوں کی مرہون منت تھی ۔ ان کا اپنا ہنر زر دوزی، مصوری، ملتان کی تاریخ نویسی اور متفرق ادبی سرگرمیاں تھیں۔ حکمت سے بھی لگاو تھا وہ اپنے بیٹے کے مستقبل کے بارے میں اکثر متفکر رہتے تھے۔
والد صاحب اکثر عید، عاشورہ، تہواروں اور خوشی غمی کے موقع پر ہمیں ملتان لے کر آتے تھے تو علامہ عتیق فکری سے ضرور ملاقات کرتے۔ ایک بار جب ہم ملتان میں تھے تو وہ مجھے ہمراہ لے کر ان سے ملاقات کے لئے گئے۔ جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے ہم دولت گیٹ کی جانب سے گلیوں میں سے ہوتے ہوئے النگ کی پشت پر ایک نیم چڑھائی والی گلی میں داخل ہو ئے جہاں تمام گھر اینٹوں کے بنے ہوئے اور نیم شکستہ سے تھے۔ گلی اور دیوار کے درمیان ایک نالی تھی جس میں ڈھلوان کے باعث نہایت تیزی سے پانی بہہ رہا تھا۔ گلی کے بائیں جانب نالی کے اوپر ایک قدمچہ تھا اور لگ بھگ گلی سے اڑھائی فٹ اوپر ایک لکڑی کا دروازہ تھا۔ اباجی نے بتایا کہ یہ عتیق فکری کا گھر ہے۔ دروازہ کھلا تھا اور اندر بیٹھک میں عتیق فکری کسی کپڑے کا کسا ہوا کشیدہ کاری کا اڈہ لگائے زر دوزی کے کام میں مصروف تھے۔ فرش پر رنگین دھاگے سوئیاں اور کروشئے رکھے تھے۔ وہ اس وقت لکھاری نہیں بلکہ ایک محنت کش کشیدہ کاری کے ماہر لگ رہے تھے۔ بھتیجے کی غیر متوقع آمد کے باعث گھر کے اندر گئے اور بھتیجےکی تواضع کے لیے پھل اور اپنے بنے ہوئے کچھ خمیرہ جات کی ڈبیاں اور جار لے آئے۔ پریشان سفید بالوں اور چمکتی ہوئی رنگت کے باعث وہ ابن سینا جیسی کوئی ہستی لگ رہے تھے۔
اباجی ان دنوں ایم سی ہائی سکول میانچنوں میں ہیڈ ماسٹر تھے۔ فٹ بال گراونڈ کے ساتھ لائبریری کی ایک وسیع وعریض عمارت کی تعمیر ہوئی تھی۔ ایک روز دروازہ کھٹکا، باہر علامہ عتیق فکری کھڑے تھے۔ ان کے ہمراہ دو مزدور تصاویر کے تین بڑے بڑے فریم لئے کھڑے تھے۔ علامہ صاحب اباجی کی فرمائش پر ملتان سے آئل والی تین پینٹنگز/تصاویر بنا کر یا بنوا کر لائے تھے جنہیں اسکول کی نئی لائبریری میں آویزاں ہونا تھا۔ انہیں خاطر تواضع اور آرام کی غرض سے بیٹھک میں رہائش پذیر کیا تو انہوں نے الگ سے رکھی ہوئی ایک پینٹنگ نکالی اور بتایا کہ وہ پینٹنگ ہمیں تحفہ دینے کی غرض سے بنا کر لائے ہیں۔ اس پینٹنگ کو بیٹھک کے ایک کونے میں رکھ کر تنقیدی جائزہ لیا، تھیلے میں سے پینٹ کی سرخ اور نیلے رنگ کی ٹیوبیں نکال کر تصویر کی سرسبز وادی میں رنگ برنگے پھول بنا دیئے اور وہ خوبصورت پینٹنگ میرے حوالے کر دی۔ یہ پینٹنگ ایک مدت تک بیٹھک میں آویزاں رہی تاآنکہ میرے ایک کپتان ماموں اسے پسند کر کے لے گئے۔ 1964 میں ہمارے پاس آنے والی یہ تصویر ھماری بیٹھک میں سے نکل کر پہلے میجر، کرنل، برگیڈیر، میجر جنرل، کورکمانڈر ہاؤس منگلا میں سے ہوتی ہو ایم ڈی فوجی فرٹیلازر ایم ڈی فوجی ادارہ بالآخر آج بھی ریٹائرڈ جنرل کی رہائش گاہ واقع شامی روڈ لاہور میں آویزاں ہے اور مرحوم علامہ عتیق فکری کی یاد دلاتی ہے۔
ایم سی ہائی اسکول میانچنوں کی لائبریری کے اندر آویزاں قائداعظم، لیاقت علی خان اور علامہ اقبال کی پینٹنگز یقینا آج بھی وہاں آویزاں ہوں گی۔ 1965 میں اباجی کی ترقی بطور پرنسپل میونسپل کالج میانچنوں اور پھر 1969 میں ان کی ریٹائرمنٹ کے بعد ملتان رہائش پذیر ہونے کے بعد سے ان پینٹنگز کے بارے میں معلوم نہیں مگر وہ جہاں بھی ہوں علامہ عتیق فکری کی یادیں تازہ رکھتی ہوں گی۔
ایک عرصہ میں حصول تعلیم کی غرض سے لائل پور(فیصل آباد ) اور لاہور میں سکونت پذیر رہا علامہ عتیق فکری سے ملاقات نہ ہو سکی بہرحال ان کی خیریت اباجی سے معلوم ہوتی رہی۔
ایک بار میں لاہور سے چھٹی پر ملتان آیا ہوا تھا کہ ابدالی روڈ پر سفید بالوں والے دانشوروں کے ایک گروہ سے سامنا ہوا جو ریڈیو پاکستان ملتان کے کچھ عہدے داروں اور فنکاروں کے ہمراہ ڈپٹی کمشنر کی رہائش گاہ کے سامنے حکمت کی بحث میں مشغول نواں شہر چوک کی جانب رواں دواں تھے۔ علامہ عتیق فکری آگے آگے قافلے کی سربراہی کر رہے تھے۔ لمحہ بھر کو یہ لگا کہ کوئی انگریز خاتون جا رہی ہے۔ ایک طویل عرصے کے بعد اتفاقی ملاقات تھی۔ میں نے اپنا تعارف کرایا تو بیحد گرم جوشی سے ملے۔ یہ واقعہ بھی پرانا ہے اباجی ابھی حیات تھے کیونکہ میں نے گھر پہنچ کر ان کے ساتھ علامہ عتیق فکری سے ملاقات کا تذکرہ بھی کیا تھا۔ پھر ایک طویل عرصے ان سے ملاقات نہیں ہوئی۔ وہ انتقال کر گئے۔اللہ ان کے درجات بلند کرے وہ بلا شبہ ملتان کی تاریخ کی ایک قدآور شخصیت تھے۔
فیس بک کمینٹ