اپنی ہی موت پہ آیا ہوں بہانے آنسو
اپنا ہی نوحہ سُنانے کے لیے آیا ہوں
ہماری ہر محفل کے حسن، ہماری ہر گفتگو کے مرکزی خیال راشد سیال سے دوستی کا رشتہ گزشتہ 30 برسوں پہ محیط ہے۔ یہ ہمارا ایسا پیارا دوست کہ جس سے ہم بغیر کسی مطلب کے ،بغیرکسی مقصد کے اور بغیر کسی ضرورت کے ملتے اور ملتے ہی طبعیت باغ و بہار ہو جاتی۔ وہ پیاروں سے بڑھ کر پیارا اور اپنوں سے بڑھ کر اپنا تھا. پیغام اجل آنے سے دو روز پہلے میری اُس سے آخری ملاقات ہوئی۔لگتا ہی نہیں تھا کہ یہ اُس سے آخری ملاقات ہے- اُس کی مسکراہٹ زندگی کی نوید دے رہی تھی- نادِ علیؑ کا دم کیا تو اُس کا چہرہ تازہ گلابوں کی طرح کِھل اُٹھا -دل مطمئن تھا ایسا کوئی خیال بھی نہیں تھا کہ ایسا ہو بھی جائے گا جو بالاخر ہو گیا ۔
مختار علی کا ایک معروف شعر ہے
کتنا کمیاب ہو گیا ہے خلوص
میری اپنی دُکان میں بھی نہیں
راشد سیال کی ذات اِس شعر کے برعکس تھی۔ راشد۔۔۔۔۔۔ دُکان ہوتے ہوئے بھی دُکان دار نہ تھا۔
اُس کے اِیجاد کردہ خطِ راشد کو دیکھ کر اکثر یہ گمان گزرتا کہ اگر قرآن مجید کی آیات خود سے خوش نویسی کرتیں تو شاید وہ بھی یہی انداز اپناتیں۔ راشد سیال اپنی خوبصورت گفتگو سے زندگی کے ہر لمحے کو ایک فن پارہ بنا دیتا تھا۔ راشد کی وفات سے لے کر اب تک میں بے یقینی کی کیفیت میں مبتلا ہوں ۔ راشد کو کفن پہنے دیکھا،اُس کے جنازے کو کندھا دیا،نمازِ جنازہ میں شریک بے پناہ ہجوم نظر کے سامنے تھا۔ اُس کا آخری دیدار کیا، تدفین ہوئی ،کچی قبرپہ پانی کا چھڑکاو ہوا ،پھول کی پتیاں نچھاور کی گئیں، اگربتیاں سلگائی گئیں۔ موذن نے ا ذان دینا شروع کی ،احباب زخمی دل کے ساتھ رخصت ہوئے۔یہ سب کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھا۔یہ سب کچھ دیکھنے کے باوجود بھی ایسا لگتا ہے کہ جب میں وحید پلازہ اُس کے خوبصورت دفتر (آرٹ گیلری)جاؤں گا تو وہ مجھے قرآنِ پاک لکھتا ہوا دکھائی دے گا، میں پوچھوں گا راشد بھائی کتنا کام کر چکے؟ تو وہ مسکراتے ہوئے کہےگا کہ 14 پارے لکھ چکا ہوں، باقی 16 رہ گئے۔
مجھے یقین ہے کہ وہ زیرِ لحد بھی قرآن مجید کی کتابت کر رہا ہے اور نکیریں سوال پوچھنے کی بجائے اُسے خوش نویسی کے داد دے رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ اِس کام کو جلداز جلد مکمل کر لو تاکہ فردوس بریں میں الکتاب کی تقریبِ رونمائی کا اہتمام کیا جا سکے ۔ راشد کا نام اور اُس کا کام ہمیشہ زندہ رہے گا۔
فیس بک کمینٹ