انسان کے نفسی اور جمالیاتی ذوق کی تسکین کا باعث بننے والے تمام علوم ”فنون لطیفہ“ کہلاتے ہیں۔ شعرو ادب، سازوسر ود، تصویرا ور تمثیل کے تمام علوم ہی فنون لطیفہ کہلاتے ہیں۔ان علوم میں حسن و خوبی کی معراج پانے کی خواہش انسان کی فطرت کا لازمی تقاضا ہے کیونکہ فاطرِ فطرت نے انسان کو خود ہی احسنِ تقویم پر پیدا کیا ہے تو پھر انسان کیونکر حسنات کا خواہشمند نہ ہو۔ انسان کی یہی فطری طلب اسے اپنے جذبوں کے اظہار کیلئے خوبصورتی، رعنائی خیال اور حسنِ ابلاغ کا طلب گار بناتی ہے۔ وہ اپنے ابلاغ کو مؤثر بنانے کیلئے اپنی زبان کو شعر و ادب کے قالب میں ڈھالتا ہے، اپنے الفاظ کواس طرح ترتیب دیتا ہے کہ اُن کا آہنگ اور معنی حسنِ بیان کا مظہر اور اُس کے ذوقِ جمال کا آئینہ دار ہو۔وہ اپنے صوتی اتار چڑھاؤ کے ذریعے سے اپنے معنی اور مفاہیم کو واضح کرتا ہے۔ وہ اپنے ماحول کی آوازوں سے مسحور بھی ہوتا ہے اور اپنی آواز کے زیروبم سے راگ ترتیب دے کر دوسروں کو سحر زدہ کرنے کی صلاحیت سے بھی مالامال ہے۔ اپنے ذوقِ جمال کی تسکین کیلئے انسان ہمیشہ بہترین کا انتخاب کرتا ہے۔ وہ قدرت کی رعنائیوں سے محظوظ ہوتا ہے اور اپنے ارد گرد کے ماحول کوخوبصورت بنانے کیلئے اس کی تزئین و آرائش کی سعی بھی کرتا رہتا ہے۔ حسن بیان، حسن صوت، حسن سماعت اور حسن نظر کی صورت میں انسان کا یہی ذوق جمالیات جب اپنے کمال کو پہنچتا ہے تو فن کامقام حاصل کرتاہے او ر شاعری، موسیقی اور مصوری سے موسوم ہوتا ہے۔ شعر و ادب، ساز و سرود اور تصویر و تمثیل سے متعلق اِنھی فنون کے مجموعے کا عنوان فنون لطیفہ ہے۔ اس بارے میں معروف محقق اور سکالر حضرت علامہ رحمت اللہ طارق ؒ نے کیا خوب کہا ہے،
”جس طرح شاعر الفاظ کے پیکر میں فطرت کی رعنائیاں بیان کرتا ہے اسی طرح مصوّربھی ”تخیل“ اور احساس کے کیمرے میں اُمنگوں اور آرزُوؤں کو کیچ کرکے صورت اظہار دیتا ہے۔ اور یہ صلاحیّتیں چونکہ فطرت خود ہی ودیعت فرماتی ہے، لہٰذا کوئی فطرت ناشناس کتنی ہی ناگواری کا مظاہرہ کرے، فطرت کے نشانات کو نہیں مٹا سکتا۔اسی طرح موسیقی سے نرم و نازک احساسات بھی جنم لیتے ہیں اور طوفان خیز جذبات بھی! کیونکہ جب کسی خوش نوا کی نوائے دلنواز سماعت کے پردوں سے ہوتی ہوئی دل کی گہرائیوں میں پہنچ جاتی ہے، تو ”من“ کا مور بے ساختہ ناچنے لگتا ہے اور پورے جسم انسانی میں ارتعاش اور جنبش پیدا ہوجاتی ہے۔اُسے کائنات کی ہر شے جھومتی نظر آتی ہے۔ اس کے ہونٹ گنگناتے ہیں، سر اورہاتھ مستی و بے خودی سے سرشار ہوجاتے ہیں۔ اب بتائیے فاطرِ ارض و سماء نے حضرتِ انسان کو جواسقدر نفیس و نازک جذبات عطا کر رکھے ہیں، ذوقِ جمالیات سے محروم لوگ انہیں کیسے محو کر سکتے ہیں۔انسان کے اندرطربیہ احساسات جب انگڑائی لیتے ہیں تو پورا جسم مُرتعش ہوجاتا ہے اور یہ ارتعاش، انسان کی ہر تارِنفس کا مضراب بن کر وجدانی کیفیت پیدا کردیتا ہے۔نس نس رقصاں ہو جاتی ہے، دل اُچھلتا اور جسم پھڑکتا ہے، ہاتھ فضا میں لہراتے اور دماغ میں بانداز بے خودی محویّت طاری ہوجاتی ہے۔“
اگر انسان کی نفسی تسکین کا باعث بننے والے یہ فنون ناپید ہو جائیں اور اس کے حظ و نشاط کا سامان پیدا کرنے والے عناصر اس کی دسترس میں نہ ہوں تو پھر انسان کے اندر تلخی اور کڑواہٹ پیدا ہونے لگتی ہے اور اس کے محاسن میں بگاڑ پیدا ہونے لگتا ہے اور پھر ایک اچھا بھلا انسان دائرہ ِحیوانیت میں داخل ہونے لگتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر معاشرہ انسان کے ذوق جمال کی تسکین بننے والے علوم و فنون کی نہ صرف سرپرستی کرتا ہے بلکہ ان میں نکھار اور جدت پیدا کرنے کیلئے دن رات کوشاں رہتا ہے۔ انسانی جذبوں کے اظہار کیلئے مصوری اور موسیقی کے علاوہ فنِ خطاطی ایک ایسا فن ہے جو انسان کے ذوقِ جمال کی تسکین کا ایک بہترین ذریعہ ہے۔ خطاطی کو دنیا بھر کے مسلمانوں کا ایک تہذیبی ورثہ تصور کیا جاتا ہے۔ یعنی خطاطی اور مسلم ثقافت لازم و ملزوم ہیں۔بقول صابر ظفرؔ
روحِ اسلام کا یہ پوری طرح ہے عکاس
فنِ خطاطی اسی واسطے ہے اثباتی
خطاطی کی مسلم ثقافت میں کیا حیثیت ہے اس پر ہم گذشتہ کالم میں تفصیلی بحث کر چکے ہیں۔ آج ہمارے کالم کا موضوع ہے ملتان کے معروف خطاط راشد سیال۔ جنکے بارے میں بلامبالغہ کہا جا سکتا ہے کہ راشد اپنی انگلیوں کی جادوگری سے الفاظ کو بولنے پر مجبور کر دیتا ہے۔ یہ بے جان الفاظ جب راشد کے قلم سے گزرکر تخلیق پاتے ہیں تو دیکھے والے کی بصارت کا امتحان ہوتا ہے کہ اس کی نظریں کتنی دیر ان پر ٹکی رہ سکتی ہیں۔
پر سے لکھتا ہوں کہ اب یہ ہی قلم ہے میرا
لفظ طائر کی طرح اْڑتا ہو الگتا ہے
کاش تم آؤ کبھی جانب دارالتحریر
خوش خطی سیکھو قلم چلتا نظر آئے گا
کسی خطاطِ محبت کا لکھا لگتا ہے
نون کو دیکھوں تو آویزہ ترا لگتا ہے
ذوقِ جمال کا یہ خوبصورت سفیر 1985ء میں خطاطی کے اُفق پر اس وقت نمایاں ہوتا ہے جب یہ اپنے فنی سفر کا آغازروزنامہ ”آفتاب“ کی کتابت سے کرتا ہے۔ یہ اس دور کی بات ہے جب کتابت کی دنیا میں ایک انقلاب برپا ہونے جارہا تھا۔ دستی کتابت سے ڈیجیٹل کتابت کا سفر روایتی کاتبوں کیلئے مایوسی اور پریشانی کا سفر تھا۔ کمپیوٹر کے ذریعے کتابت کے آغاز نے کاتبوں کو بے روزگا ر کرنا شروع کردیاتھا۔ پریس اور پبلشنگ کی دنیا میں ایک نیا جہان متعارف ہونے جا رہا تھا۔ ایسے میں راشد سیال کہاں پیچھے رہنے والا تھا۔ اپنی گوناں گوں فنی صلاحیتوں اور خطاطی کے فیلڈ میں کچھ کرنے کا اضطراب راشد کو چین سے بیٹھنے نہیں دے رہا تھا۔ جلد ہی کمپیوٹر کی دنیا میں راشد کے نام سے موسوم ایک خط ”خطِ راشد“مارکیٹ میں متعارف ہوتا ہے۔یہ غالباً1992ء کا واقعہ ہے جب ایک سوفٹ ویئر انجینئر انعام علوی نے راشد سیال کی خطاطی کو دیکھتے ہوئے فرمائش کی کہ وہ خطِ نستعلیق کی طرز پر ایک نیا خط بنانا چاہتے ہیں۔چنانچہ انعام علوی اور راشد سیال نے تین سال تک شبانہ روز محنت کی جس کے نتیجے میں ایک نیا اردو سوفٹ ویئر ایجاد ہوا جو بغیر کسی غلطی کے ہر لفظ کو خطِ نستعلیق میں تحریر کر سکتا تھا۔
ہے مری روح کے نزدیک ”خطِ نستعلیق“
بعض خط ِمردہ ہیں اور مردوں کا شمشان ہے گُم
بعض الفاظ جو بجھ جاتے ہیں مِٹ جاتے ہیں
بعض الفاظ چمکتے ہیں ستاروں کی طرح
میں جو کھویا ہوا اعراب کے دفتر میں رہا
عمر بھر زیر، زبر، پیش کے چکر میں رہا
کمپوز ہو رہے ہیں مضامین اب یہاں
لگنے لگے ہیں لوح و قلم خواب کی طرح
سیاہی سوکھنے نہیں دیتا کوئی خطاط
اور ایک میں کہ مرے پاس ہے قلم نہ دوات
اللہ کے برگزیدہ پیغمبر حضرت ادریس ؑ کے فنِ خطاطی کی میراث کولیکر آگے بڑھنے والے اس فنکارکو یہ اعزاز حاصل ہے کہ اس نے خطِ نسخ میں قرآنِ پاک کی کتابت کی۔یہ ایک بہت بڑا اعزاز تھا۔ خطِ نسخ کے بارے میں اہلِ علم کا یہ کہنا ہے کہ قرآن پاک کی پہلی کتابت خطِ کوفی میں ہوئی۔ اس کے بعد جب خطِ نسخ میں قرآن لکھا گیا تو خطِ کوفی کو منسوخ کر دیا گیا۔اس لئے اسے خطِ نسخ یعنی پہلے خط کو منسوخ کرنے والا کہا جاتا ہے۔ جبکہ بعض علماء کا مؤقف ہے کہ قرآن پاک کی کتابت چونکہ ایک نسخے سے دوسرے نسخے میں نقل کی جاتی ہے اس لیے یہ نسخ یعنی نسخہ سے معنون ہے۔ خط نسخ کا موجد عباسی وزیر ابن مقلہ شیرازی (متوفی: 20 جولائی 940ء)تھا جس نے نبطی خط کی مدد سے عباسی خلیفہ المقتدر باللہ کے عہدِ حکومت میں یہ خوبصورت خط ایجاد کیا تھا۔تقریباًگزشتہ گیارہ سو سالوں سے خطِ نسخ اپنی خوبصورتی کی وجہ سے سب سے زیادہ پسند کیا جانے والا خط ہے۔ اس خط کی خوبی یہ ہے کہ الفاظ کا عرض طوالت کے مقابلے میں بہت زیادہ ہے۔ اس لیے حروف پر اعراب و نقاط لگانا آسان ہو جاتا ہے۔ راشد سیال نے تقریباً دو برس کی شبانہ روز ریاضت کے بعد خطِ نسخ میں قرآن پاک کی خطاطی کو مکمل کیا۔ راشد سیال کا صرف یہی اعزاز ہی نہیں ہے بلکہ راشد نے پاکستان میں اور پاکستان سے باہر دنیا بھر میں تقریباً چار ہزار کے لگ بھگ مساجد میں خطاطی کرکے اپنے فن کو اَمر کر دیا ہے۔ اس کے علاوہ راشد سیال نے ہزاروں فن پارے اور ہزاروں کی تعداد میں کتابوں کے سرورق ڈیزائن کئے ہیں۔ مجھے فخر ہے کہ میرے والد گرامی قدر کی چار شہرہ آفاق کتابوں ”برہان القرآن“، ”میزان القرآن“، ”دانشورانِ قرآن“ اور ”انسانیت پہچان کی دہلیز پر“ کے ٹائٹل ڈیزائن کرنے کا اعزاز بھی راشد سیال کو حاصل ہے۔
راشد کی خطاطی کو دیکھتے ہوئے مسجدِ نبوی کے خطاط جناب شفیق الزماں نے کہا کہ:
”راشد سیال مستقل جدوجہد کرنے والے کہنہ مشق خطاط ہیں ان کی کاوش اور مستقل جدوجہد و ریاضت سے وجود میں آنے والے نئے انداز کا رسم الخط قابلِ دید ہے۔ نہایت خوبصورتی کا حامل ہے۔ راشد صاحب اسے سوفٹ ویئر کی صورت میں لے آئے ہیں۔ دُعا ہے کہ اللہ تعالیٰ اسے قبولِ عام کرے آمین!“
راشد سیال 23فروری 1971ء ملتان میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے”دبستانِ فروغ خطاطی“ سے ”ماسٹرآف کیلیگرافک آرٹس“ کی ڈگری حاصل کی۔ روزنامہ ”آفتاب“، ”نوائے وقت“، ”امروز“، ”قومی آواز“، نوائے ملتان“ اور ”سنگِ میل“ جیسے قومی اداروں میں بطور کاتب اپنی خدمات سر انجام دیں۔ اس وقت تک فنِ خطاطی کے حوالے سے ان کی پانچ کتابیں مارکیٹ میں آ چکی ہیں۔ جنکے نام ”تدریسِ خطاطی“، ”رہنمائے خوشخطی“، ” Improve Your Writing Skill”، ”خوشخطی برائے پیشہ ور خطاط“، ”خطِ راشد“ اور ”خطِ راشد القلم“۔ راشد سیال اس وقت تک تقریباً بیس سے زائد ملکی اور بین الاقوامی سطح پر ہونے والی کیلیگرافکس نمائشوں میں حصہ لیکر اپنا اور ملک کا نام روشن کر چکے ہیں۔ سعودی عرب، ایران، مسقط،قطر، ترکی اور دبئی وغیرہ میں شاہی مہمان کی حیثیت سے جانا صرف راشد کا اعزاز ہی نہیں بلکہ ہمارے وسیب کی تعظیم کا باعث بھی ہے۔ اس وقت تک راشد سیال درجنوں ایوارڈز اپنے نام کرکے وسیب کے ایک ممتاز خطاط کے طور پر اپنی فنی صلاحیتوں کا لوہا منوا چکا ہے۔ اپنی انتھک محنت اور ریاضت کے ذریعے بین الاقوامی مقام حاصل کرنے والا راشد سیال آج بھی اتنا ہی سادہ اور منکسر المزاج ہے جتنا وہ آج سے بیس پچیس سال پہلے تھا۔ راشد سیال کا آفس آج بھی حسن پروانہ روڈ پر وحید پلازہ میں قائم ہے جہاں وہ باآسانی دستیاب ہوتا ہے۔ وہ 2009ء سے بہاء الدین زکریا یونیورسٹی کے ملتان کالج آف آرٹ میں اپنے فن کو نسل نو میں منتقل کر رہے ہیں۔
دولتِ لوح و قلم میرے لئے کافی ہے
جمع کرتا ہوں جو رکھتا ہوں سبھی حرف پہ حرف
بھروں گا مٹھی میں الفاظ، جگنوؤں کی طرح
اور ان کو خالی فلک کی طرف اْچھالوں گا
راشد سیال نے روایتی آرٹسٹوں کی طرح اپنے فن کو اپنے تک محدود رکھنے کی بجائے اسے نسلِ نو تک پہنچانے کا ہر ممکن ذریعہ اپنایا ہے۔ حتی کہ اپنی اولاد کو بھی اپنی اس فنی میراث سے آراستہ کرنے کا با ضابطہ اہتمام کیا۔ ان کی دو صاحبزادیاں جو مائیکرو بیالوجی میں اعلیٰ تعلیم حاصل کررہی ہیں وہ ساتھ ساتھ اپنے والد کے فنی سفر کے تسلسل کا باعث بھی بنی ہوئی ہیں۔ یقیناً وہ اپنے اس ورثے کو زیادہ بہتر انداز میں لے کر آگے بڑھیں گی۔ ہم اُمید کر سکتے ہیں کہ راشد سیال کے بعد بھی اُن کے فن کا یہ سلسلہ اپنی معراج کی طرف جاری و سار رہے گا۔ ان شااللہ۔
اس طرح جذب رہا جزم کی صورت پیہم
گردشوں میں بھی سدا لفظ کے محور میں رہا
مجھ کو دیتے رہے تحریر میں واوین پناہ
مدّ و جزر آتے رہے پھر بھی میں ساگر میں رہا
جو لفظ لکھتے ہوئے روشنائی سوکھتی ہے
میں ان کو اپنے لہو کی نمی سے لکھتا ہوں
زمینیں لفظوں کی زرخیز میرے واسطے ہیں
جہاں بھی چاہوں گا میں شاعری اْگا لوں گا
اگر ملا نہ کوئی اور رتجگے کے لئے
میں سوئے لفظوں کو پوری طرح جگا لوں گا
( مرحوم کی زندگی میں لکھا گیا )
فیس بک کمینٹ