طویل اور کانٹے دار انتخابی مہم، اور پھر سات مراحل پر مشتمل انتخابات کے بعد انڈیا میں اقتدار کی دوڑ میں جیت کس نے حاصل کی، اس کا علم انڈین عوام اور باقی دنیا کو 23 مئی کو ہو جائے گا۔19 مئی کو آخری مرحلے کے انتخابات کے بعد جمعرات کی صبح سے انڈین پارلیمنٹ کی 542 نشستوں پر ارکان کے انتخاب کے لیے ڈالے گئے ووٹوں کی گنتی مقامی وقت کے مطابق صبح آٹھ بجے سے جاری ہے۔ابتدائی رجحانات کے مطابق 250 سے زیادہ نشستوں پر بی جے پی جبکہ مجموعی طور پر 300 سے زیادہ نشستوں پر اس کا اتحاد آگے ہے۔ان انتخابات میں تقریباً ساٹھ کروڑ رائے دہندگان نے ووٹ ڈالے ہیں جو 39 لاکھ الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں میں محفوظ ہیں۔نئی دلی سے نامہ نگار شکیل اختر کے مطابق ابتدا میں پوسٹل ووٹوں کی گنتی ہوئی ہے جو بیشتر فوجیوں کے ہوتے ہیں اور اس مرحلے کے بعد الیکٹرانک مشینوں کے ووٹوں کی گنتی کی جا رہی ہے۔ووٹوں کی گنتی کا عمل پورے ملک میں تمام 542 سیٹیوں کے لیے ایک ساتھ شروع ہوا ہے اور یہ عمل کئی ادوار میں پورا ہو گا۔گنتی کے دوران کون آگے چل رہا ہے اور کون پیچھے، اس کے رحجانات آنا شروع ہو چکے ہیں۔ حتمی نتائج کا اعلان مقامی وقت کے مطابق جمعرات کی شب یا جمعہ کی صبح سے پہلے متوقع نہیں ہیں۔الیکٹرانک ووٹنگ کی مشین سے موصول ہونے والے نتائج کو پرنٹ بیلٹ سے ملانے والی اضافی جانچ پڑتال کا عمل ان میں تاخیر کر سکتا ہے۔دیکھنا یہ ہوگا یہ نتیجے ایگزٹ پولز کی پیش گوئیوں کے مطابق ہوتے ہیں یا اس سے مختلف۔ ایگزٹ پولز میں بی جے پی کی زبردست فتح کی پیش گوئیاں کی گئی ہیں تاہم تجزیہ کاروں نے خبردار کیا ہے کہ ماضی میں یہ پیش گوئیاں غلط ثابت ہوتی رہیں ہیں۔بی جے پی اور کانگریس کے دفتر میں ان کے حامی اپنی جماعتوں کی جیت کے لیے پوجا پاٹھ بھی کرتے ہوئے دیکھے گئے۔اگر بی جے پی کے اتحاد کی نشستیں حکومت سازی کے لیے مطلوبہ تعداد سے کم آتی ہیں تو اپوزیشن کی 22 جماعتوں نے اپنی حکمت عملی تیار کر رکھی ہے۔ اطلاعات کے مطابق ان جماعتوں نے ایک نیا اتحاد تشکیل دیا ہے جو بی جے پی کے اتحاد کو اکثریت نہ ملنے کی صورت میں حکومت سازی کا دعویٰ کرے گا۔وزیر اعظم نریندر مودی جن کی جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) سنہ 2014 کے انتخابات میں کامیابی حاصل کرکے اقتدار میں آئی تھی۔ اس بار بھی ان کا سامنا روایتی سیاسی حریف حزب اختلاف کی جماعت کانگریس پارٹی اور ملک بھر میں طاقتور علاقائی حریفوں کے خلاف تھا۔یہ انتخاب نریندر مودی کے لیے ایک ریفرنڈم کے طور پر دیکھا گیا ہے۔ ایک ایسی شخصیت جنھیں ایک جانب بہت سے لوگ پسند کرتے ہیں تو دوسری طرف ان کے ناقدین ان پر انڈیا میں تقسیم بڑھانے کا الزام بھی عائد کرتے ہیں۔ان کی جماعت اور سیاسی اتحاد کو اپنی برتری قائم رکھنے کے لیے انڈین پارلیمنٹ یا لوک سبھا کی 543 نشستوں میں سے 272 نشستوں پر کامیابی درکار ہے۔سنہ 2014 میں بی جے پی نے 282 نشستوں پر کامیابی حاصل کی تھی جو کہ گزشتہ 30 برسوں میں کسی بھی سیاسی جماعت کی سب سے بڑی جیت تھی جبکہ کانگرس کو صرف 44 نشستیں مل سکیں تھی جو ان کی بدترین شکست تھی۔اس برس 90 کروڑ ووٹرز انتخابات میں حصہ لینے کے اہل تھے جو کہ اس انتخاب کو دنیا کا سب سے بڑا انتخاب بناتے ہیں۔ 8،000 سے زائد سیاسی امیدواروں اور 670 سیاسی جماعتوں کی قسمت کا فیصلہ ووٹوں کی گنتی پر اٹکا ہوا ہے۔
فیس بک کمینٹ