لاہور : معروف آرٹسٹ اور کارٹونسٹ رفیق احمد نے اپنے ایک حالیہ انٹرویو میں کہا ہے کہ ڈان کے ایڈیڑ ظفر عباس کے دور میں جس قدر گھٹن، سیلف سنسر شپ کی گٹھیا شکل کے نفاذ کا احساس ہوا، اتنا اپنےسارے صحافتی دورانیہ میں نہیں ہوا۔ "بلکہ جنرل ضیاء کے دور میں میں نے زبردست جبر اور سنسر شپ کے باوجود اپنے ایڈیڑوں کی جانب سےحوصلہ افزائی سے لطف اٹھایا اور کھل کر کام کیا”۔فیکا کے نام سے 1980 کی دہائی میں اپنے فنی سفر کا آغاز کرنے والے آرٹسٹ اپنے لبرل ازم کے رجحانات کی بدولت ضیا دور میں جبر کا سامنا بھی کر چکے ہیں۔ لاہور سے شائع ہونے والے ایک ماہنامہ کو انٹرویو کے دوران ملتان سے تعلق رکھنے والے آرٹسٹ نے شکوہ کیا کہ پاکستان میں آرٹ کا کوئی پرسان حال نہیں اور ضیاالحق کے دور میں فنون کی حوصلہ شکنی کی گئی۔اس انٹرویو کے شائع ہونے سے پیشتر ڈان اخبار کو پاکستان کے معتبر اخبارات میں گردانا جاتا ہے۔ گزشتہ تین عشروں سے ڈان سے منسلک رفیق احمد کے اس بیان کے بعد روزنامہ ڈان کی ادارتی پالیسیوں پر ایڈیٹر ظفر عباس کے کنٹرول کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔ اور اب ڈان لیکس میں ظفر عباس کے مبینہ کردار پر نئے سوالات جنم لے رہے ہیں۔ یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ صحافتی حلقوں میں رفیق احمد کو انتہائی احترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ یاد رہے جون 2015 میں بی بی سی کو انٹرویو دیتے ہوئے ظفر عباس کے بھائی اور پاک فوج کے سابق ترجمان جنرل اطہر عباس نے پاک فوج کے سابق سربراہ جنرل اشفاق پرویز کیانی پر الزام لگایا تھا کہ انہوں نے 2011 میں شدت پسندوں کے خلاف آپریشن میں تامل کیا تھا۔ زیادہ قرین قیاس بات یہ معلوم ہوتی ہے کہ بی بی سی اور ڈان لیکس کے بیانیہ میں مماثلت اتفاقیہ نہیں۔رفیق احمد کے دو ٹوک انکشاف کے بعد پاکستان کے معروف روزنامہ کی ادارتی پالیسی کے منفی پہلو بھی منظر عام پر آ گئے ہیں۔
(بشکریہ:نیوز فلیش)