وزیر اعظم اور ان کے بیٹوں کے مالی معاملات کی تحقیقات کرنے والی جے آئی ٹی کے ارکان کو بالواسطہ دھمکیاں دینے پر مشتمل سینیٹر نہال ہاشمی کی ویڈیو سامنے آنے کے بعد انہیں سینیٹ سے استعفیٰ دینے پر مجبور کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے انہیں آج عدالت کے سامنے حاضر ہونے کا حکم دیا ہے جہاں ان کے خلاف توہین عدالت کے الزام میں کارروائی کی جاسکتی ہے۔ یہ دونوں اقدام نہال ہاشمی کی ویڈیو منظر عام پر آنے کے تھوڑی دیر بعد ہی ہوئے جس میں وہ نواز شریف اور ان کے خاندان کے خلاف تحقیقات کرنے والوں کو سنگین نتائج کی دھمکیاں دے رہے تھے۔ اس درشت اور غیر مہذب پیغام پر ایک طرف چیف جسٹس نے فوری اقدام کیا ہے تو وزیر اعظم نے بھی نہال ہاشمی کو سینیٹ سے استعفیٰ دینے کا مشورہ دیا۔ ان کی مسلم لیگ (ن) کی رکنیت بھی معطل کردی گئی ہے۔ اس طرح ایک بات تو ثابت ہو گئی کہ فعال جمہوریت میں جب بھی کوئی مسلمہ ریڈ لائن عبور کرنے کی کوشش کرے گا تو اسے سزا بھگتنا پڑے گی۔ یہ افسوسناک واقعہ ہم سب کو یہ اہم سبق سکھاتا ہے کہ اس ملک میں جمہوریت اور اس کی روایات کو راسخ کرنے کی بات کیوں ضروری ہے۔ یہ جمہوری مزاج اور اس کے لوازمات کا ہی تقاضہ تھا کہ حکمران پارٹی کے ایک بااثر رہنما کو ایک غیر ذمہ دارانہ تقریر کرنے کے جرم میں فوری طور پر نہ صرف یہ کہ سینیٹ کی نشست سے محروم ہونا پڑا بلکہ اس غیر ذمہ دارانہ طرز گفتگو پر اب سپریم کورٹ کے سامنے جوابدہ بھی ہونا پڑے گا۔ یہ واقعہ اس ملک کے ان تمام عناصر کے لئے ایک اہم پیغام کی حیثیت رکھتا ہے جو جمہوریت کو یا تو ملک کے لئے ناقص قرار دیتے ہیں یا یہ دلیل دیتے ہیں کہ اس نظام میں ظالم کا احتساب ممکن نہیں ہے۔ یہ اسی جمہوری نظام اور اس کے مستعد اور خود مختار اداروں کے سبب ممکن ہو سکا ہے کہ ایک سینیٹر کو معافی مانگنے کا موقع دیئے بغیر اپنا عہدہ چھوڑنا پڑا ہے۔ اور ملک کی عدالت کی مقرر کردہ ایک تحقیقاتی کمیٹی ملک کے وزیر اعظم اور ان کے بیٹوں کے خلاف تحقیقات کررہی ہے۔
حسین نواز نے اس کمیٹی میں شامل دو ارکان کی وابستگی پر عدم اعتماد کا اظہار بھی کیا ہے لیکن سپریم کورٹ کے بینچ کی طرف سے اس اعتراض کو مسترد کئے جانے کے بعد وہ اسی کمیٹی کے سامنے پیش ہوئے اور ارکان کے تند و تیز سوالات کے جوابات بھی دیئے۔ یہ فیصلہ کرنا تو بہر حال عدالت کا کام ہے کہ وہ تحقیقات کے بعد کس نتیجہ پر پہنچتی ہے لیکن پاکستان جیسے ملک میں جہاں جمہوریت اور اس کی نگہبانی کرنے والے اداروں کو گوناں گوں خطرات لاحق رہے ہیں، ایک برسر اقتدار حاکم کے خلاف یوں کارروائی ہونا بھی جمہوری نظام کی کامیابی کی دلیل ہے۔ اس لئے ان لوگوں کو بھی اپنا طرز عمل تبدیل کرنا چاہئے جو ایک طرف ان جمہوری سہولتوں کا فائدہ اٹھا کر وزیر اعظم اور سیاسی مخالفین کے خلاف گھیرا تنگ کرنے کی کوشش کررہے ہیں تو دوسری طرف اگر انہیں اس مقصد میں کامیابی نہ ہو تو اداروں اور عدالتوں کے خلاف نعرے لگاتے ہوئے انہیں بدعنوان او ر ’بکاؤ مال‘ قرار دینے سے بھی گریز نہیں کرتے۔ اس حوالے سے یہ دلیل بھی دی جائے گی کہ وزیر اعظم نے مجبوری کے عالم میں نہال ہاشمی سے استعفیٰ لینے کا فیصلہ کیا ہے ورنہ وہ تو اداروں کو پامال کرنے کی پالیسی پر عمل کرتے آئے ہیں۔ اس میں کوئی شبہ نہیں ہونا چاہئے کہ کوئی بھی لیڈر اپنے ایک ایسے وفادار کے خلاف خوش دلی سے اقدام نہیں کرے گا جو اس کی وفاداری میں غیر ذمہ دارانہ گفتگو کرنے کا مرتکب ہؤا ہو۔ لیکن اگر اسے یہ قدم اٹھانے پر مجبور ہونا پڑا ہے تو اسے بھی ملک میں استوار ہونے والی جمہوری روایت کی کامیابی ہی قرار دینا چاہئے۔ اس قسم کے واقعات یہ امید دلاتے ہیں کہ اگر ملک اس راستہ پر گامزن رہا اور تمام ادارے اپنی حدود میں رہتے ہوئے غیر جانبداری اور خود مختاری سے کام کرنے لگے تو عوام میں بھی یہ حوصلہ پیدا ہوگا کہ وہ اپنے لیڈروں سے ان کی بد اعمالیوں کا حساب طلب کرسکیں۔ اسی طرح ملک میں ووٹ دینے کے طریقہ کار میں بھی تبدیلی رونما ہو گی جو اس وقت برادری بازی یا اثر و رسوخ کے دیگر طریقوں کا محتاج ہے۔ نہال ہاشمی نے جو کہا غلط کہا لیکن ان کے خلاف فوری سیاسی اور قانونی کارروائی اس ملک میں جمہوریت کی فتح کا اعلان ہے۔ ملک میں پاؤں پاؤں چلتی جمہوریت کو ایسی بہت سی کامیابیاں حاصل کرنا ہے۔ شفاف اور پائدار جمہوری نظام کے سفر میں ابھی اس ملک کے عوام کو بہت سے دشوار گزار مراحل سے گزرنا ہے لیکن انہیں یہ یقین بھی رکھنا چاہئے کہ اگر وہ استقامت سے جمہوریت کے راستے پر چلتے رہیں گے تو انہیں وہ منزل ضرور حاصل ہو جائے گی جہاں صرف طاقت اور دھونس کی بنیاد پر من مانی نہیں کی جا سکے گی۔ اسی لئے ان لوگوں کو مسترد کرنا ضروری ہے جو سیاسی حرص میں جمہوری آزادیوں سے استفادہ بھی کرتے ہیں لیکن جمہوریت کو مسترد کرنے کا کوئی موقع بھی ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔
(بشکریہ:کاروان۔۔ناروے)