ترکی کے وزیر اعظم بنالی یلدرم نے کہا ہے کہ ترکی کی زمینی افواج شام کے شمالی حصے میں داخل ہو گئی ہیں جس کا مقصد سرحدی علاقے سے کرد جنگجوؤں کا انخلا ہے۔ ترکی سے موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق بنالی یلدرم نے کہا کہ اس کارروائی کا مقصد شام کے اندر 30 کلو میٹر گہرا ’محفوظ زون‘ قائم کرنا ہے۔
ترکی شام کے علاقے عفرین سے کرد جنگجوؤں کا انخلا چاہتا ہے جو کہ سنہ 2012 سے کردوں کے کنٹرول میں ہے۔
برطانوی خبررساں ادارے بی بی سی کے مطابق کرد جنگجو تنظیم وائی پی جی ملیشیا کا کہنا ہے کہ انھوں نے عفرین میں ترک فوج کو پیچھے دھکیل دیا ہے۔
ترکی کی سرکاری خبر رساں ایجنسی اناتولو کے مطابق اس کی افواج نے پہلے ہی شام کے علاقے میں پانچ کلومیٹر پیش قدمی کی ہے تاہم 30 کلومیٹر محفوظ زون کے بارے میں مزید تفصیلات فراہم نہیں کی گئیں۔ واضح رہے کہ ترکی کے صدر رجب طیب اردوغان نے اتوار کو ایک بیان میں شام میں موجود کرد جنگجوؤں کے ساتھ ساتھ کردستان ورکرز پارٹی کو کچلنے کے عزم کا اظہار کیا تھا۔
انھوں نے کہا: ’ہمارے جنگی جہازوں نے بمباری شروع کر دی اور اب وہاں زمینی آپریشن جاری ہے۔ اب ہم دیکھتے ہیں کہ وائی پی جی عفرین سے فرار ہو رہے ہیں۔ ہم ان کا پیچھا کریں گے۔ خدا جانتا ہے ہم اس آپریشن کو بہت جلد مکمل کریں گے۔‘
ادھر شام کے صدر بشار الاسد نے ترکی کی اس کارروائی کی مذمت کی ہے جبکہ فرانس کے وزیرِ خارجہ ژاں ایو دریاں نے کہا ہے کہ وہ اس مسئلے پر اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کا ہنگامی اجلاس بلائیں گے۔
اس سے پہلے ترکی کی فوج نے کہا تھا کہ اس کے جنگی طیاروں نے شام کے شمال میں کالعدم کردستان ورکرز پارٹی سے منسلک کرد ملیشیا کے ٹھکانوں پر فضائی حملے کیے ہیں۔