ریاض : سعودی عرب کی افواج میں اعلیٰ سطح پر تبدیلیاں ایک مرتبہ پھر شاہی خاندان میں غیرمعمولی اختلافات سے متعلق خبروں کو تقویت دے رہی ہیں۔مشرقِ وسطیٰ کی ایک ویب سائٹ کی رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ پاک فوج کے اضافی دستے ولی عہد محمد بن سلمان کی خواہش پر بھیجے گئے۔ پاک فوج کے 1600 اہلکار پہلے سے سعودی عرب میں تعینات تھے جبکہ 1000 اہلکار مزید بھجوائے گئے ہیں۔ اس پر پارلیمان میں سوال اٹھائے گئے لیکن پاکستان کی حکومت واضح جواب نہ دے پائی۔ رپورٹ کے مطابق مزید فوجی سعودی شاہی خاندان کی حفاظت کے لیے بھجوائے گئے ہیں۔ مشرقِ وسطیٰ کے امور کے ماہرین کا کہنا ہے کہ سعودی شاہی خاندان کے اندرونی معاملات کی وجہ سے اُنہیں مقامی افراد پر اعتماد نہیں، اس لیے انہوں نے پاک فوج سے مدد طلب کی ہے۔ سی آئی اے کے سابق عہدیدار بروس ریڈل کا کہنا ہے کہ پاک فوج کے نئے بھجوائے گئے دستے ولی عہد محمد بن سلمان کے شاہی محافظوں کے ساتھ بیک اپ کا کام کریں گے۔ کسی بھی خطرے یا سازش کی صورت میں پاک فوج کے دستے پاکستان اور سعودی شاہی خاندان سے وفادار رہیں گے۔ بروس ریڈل کا کہنا ہے محمد بن سلمان نے 3 سال کے دوران سعودی شاہی خاندان کے افراد سمیت کئی دشمن بنا لیے ہیں۔مشرقِ وسطیٰ کی ویب سائٹ کا دعویٰ اور بروس ریڈل کا تجزیہ کس حد تک درست ہے؟ اس کی تصدیق یا تردید متعلقہ فریق ہی کرسکتے ہیں لیکن حالات اور شواہد اس طرف اشارہ ضرور کرتے ہیں۔ اگر بروس ریڈل کے خدشات واضح اطلاعات کی بنیاد پر ہیں تو حکومت پاکستان کا فیصلہ یقیناقابل تحسین ہے اور ممکنہ بغاوت کی صورت میں حرمین شریفین کی حفاظت افواج پاکستان کے لئے کسی اعزاز سے کم نہ ہو گا۔ دوسری طرف یمن جنگ سعودی حُکمرانوں کے گلے پڑ چکی ہے، ایران جو اِس جنگ کے آغاز کے وقت یمن کے حوثی باغیوں سے زیادہ مضبوط رابطے نہیں رکھتا تھا مگر اب باغیوں کو میزائل تک فراہم کررہا ہے، جو سعودی دارالحکومت سمیت اہم تنصیبات پر داغے جا رہے ہیں۔ عرب امارات پر بھی میزائل حملہ ہوچکا، اس حملے میں بھی باغیوں کو ایران کی مدد حاصل ہونے کا شبہہ ظاہر کیا جا رہا ہے۔ یمن جنگ سے پیدا ہونے والا انسانی المیہ بھی سعودی عرب کو دنیا بھر میں تنقید کی زد پر رکھے ہوئے ہے، جبکہ اس لڑائی میں امریکا کی حمایت حاصل کرکے سعودی عرب نے روس کو بھی ایران کے پیچھے لا کھڑا کیا ہے۔ اس بین الاقوامی اکھاڑے میں جاری لڑائی کا کوئی انجام مستقبل قریب میں نظر نہیں آتا۔
یاد رہے گزشتہ سال نومبر میں درجنوں سعودی شہزادوں اور حُکام کی گرفتاری نے دنیا کو چونکا دیا، کرپشن کے خلاف مہم کے نام پر گرفتاریوں کے بعد تحقیقات کے حوالے سے سعودی حکام کی خاموشی نے کئی قیاس آرائیوں کو جنم دیا۔ اب ایک بار پھر شاہ سلمان نے ایک فرمان کے ذریعے رات کے اندھیرے میں اعلیٰ فوجی قیادت کو اچانک گھر بھیج کر دنیا کو دوسرا بڑا سرپرائز دیا ہے۔ سعودی عرب میں تبدیلیاں صرف حکومتی عہدوں پر ہی نہیں سماجی اور معاشی شعبوں میں بھی آ رہی ہیں اور دنیا بدلتے ہوئے سعودی عرب کو حیرت اور تجسس سے دیکھ رہی ہے۔سعودی عرب میں تبدیلیوں کی بُنیاد شاہ سلمان نے اُس وقت ہی رکھ دی تھی جب اُنہوں نے روایت کو توڑتے ہوئے اپنے بیٹے محمد بن سلمان کو نائب ولی عہد نامزد کرنے کے لیے اپنے بھتیجوں اور شاہی خاندان کے سینئرز کو برطرف کیا تھا۔ محمد بن سلمان کو ولی عہد کے ساتھ وزیرِ دفاع بھی مقرر کیا گیا۔ نوجوان شہزادے نے تقرر کے فوری بعد اپنی صلاحیتیں منوانے کے لیے یمن کی جنگ چھیڑی، جو اس کی ناتجربہ کاری اور حد سے بڑھے ہوئے اعتماد کا مظہر ہے۔برطانوی ہفت روزہ اخبار اکانومسٹ کا کہنا ہے کہ اس وقت سعودی فرانروا کا سب سے بڑا مسئلہ اناڑی اور اکھڑ شہزادہ ہی سمجھا جا سکتا ہے۔عالمی اور مشرق وسطی کے علاقائی میڈیا میں شائع ہونیوالی خبروں سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ شاہ سلمان اندرون خانہ شورشوں کے ساتھ ساتھ عالمی سفارتکاری میں بھی مکمل تنہائی کا شکار ہو چکے ہیں اور ولی عہد کے اضطرابی اقدامات شاہ سلمان کے پاس آپشنز کو محدود کئے چلے جا رہے ہیں۔
(مڈل ایسٹ آئی اور بروکنگ انسٹی ٹیوٹ کی تازہ ترین رپورٹوں سے ماخوذ)