اسلام آباد : کراچی میں پولیس کے ہاتھوں نوجوان شہری نقیب اللہ محسود کے فرضی مقابلے میں قتل کے مقدمے کے مرکزی ملزم اور سابق ایس ایس پی ملیر اچانک سپریم کورٹ میں پیش ہو گئے ہیں اور عدالت کے حکم پر انھیں گرفتار کر لیا گیا ہے۔میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے اسلام آباد میں نقیب اللہ قتل کے مقدمے کے بارے میں ازخود نوٹس کی بدھ کو سماعت شروع کی تو راؤ انوار کو ایک سفید رنگ کی گاڑی میں عدالت لایا گیا۔سیاہ کپڑوں میں ملبوس راؤ انوار نے چہرے پر سرجیکل ماسک پہنا ہوا تھا۔بی بی سی کے نامہ نگار شہزاد ملک کے مطابق اس موقع پر راؤ انوار کا کہنا تھا کہ وہ عدالتی حکم پر خود کو پیش کر رہے ہیں جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ’راؤ صاحب آپ کون سا احسان کر رہے ہیں۔ جب عدالت نے وقت دیا تھا تب تو آپ پیش نہیں ہوئے۔‘چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ عدالت کو حیرانگی ہے کہ آپ نے کتنی دلیری سے ہمیں دو خط لکھے اور اتنا عرصہ روپوش رہے اور کسی ادارے کو آپ کے بارے میں علم نہیں ہو سکا۔راؤ انوار کا کہنا تھا کہ انھیں سندھ پولیس کی تحقیقاتی کمیٹی پر تحفظات ہیں جس پرچیف جسٹس نے ان سے استفسار کیا کہ وہ کن لوگوں کو اس کمیٹی میں شامل کرنا چاہتے ہیں۔ اس پر راؤ انوار نے کہا کہ اس کمیٹی میں انٹیلیجنس بیورو اور آئی ایس آئی کے اہلکار بھی شامل ہونے چاہییں۔اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ’ہم جانتے ہیں کہ آپ ان اداروں کے اہلکار کیوں شامل کروانا چاہتے ہیں۔‘عدالت نے اس معاملے میں نئی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کی تشکیل کا حکم دیا ہے جس کے سربراہ ایڈیشنل آئی جی سندھ آفتاب پٹھان ہوں گے تاہم اس ٹیم میں خفیہ اداروں کا کوئی اہلکار شامل نہیں ہے۔عدالت نے اس نئی جے آئی ٹی سے کہا ہے کہ وہ مقدمے کے دوران دیے گئے عدالتی ریمارکس سے متاثر ہوئے بغیر آزادانہ تحقیقات کرے اور تحقیقات کی تکمیل تک سندھ پولیس راؤ انوار کی حفاظت کو یقینی بنائے۔عدالتِ عظمیٰ نے سماعت کے بعد راؤ انوار کی حفاظتی ضمانت کی درخواست مسترد کرتے ہوئے انھیں نقیب اللہ کے مقدمۂ قتل میں گرفتار کرنے کا حکم دے دیا جس پر انھیں عدالت کے باہر سے گرفتار کر لیا گیا۔عدالت نے ان کے منجمد اکاؤنٹ بحال کرنے کا حکم دیتے ہوئے کہا ہے کہ ان کا نام ای سی ایل میں شامل کر لیا جائے۔خیال رہے کہ راؤ انوار نے نقیب اللہ محسود کو شاہ لطیف ٹاؤن کے علاقے عثمان خاصخیلی گوٹھ میں ایک مقابلے میں ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا تھا اور ان کا تعلق تحریک طالبان سے بتایا تھا تاہم بعدازاں تحقیقات میں یہ مقابلہ جعلی ثابت ہوا تھا۔راؤ انوار روال سال 19 جنوری سے روپوش تھے اور عدالتِ عظمیٰ نے ان کی گرفتاری کے لیے ملک کے خفیہ اداروں کو بھی قانون نافذ کرنے والے سویلین اداروں کی مدد کرنے کو کہا تھا۔
(بشکریہ : بی بی سی اردو )
فیس بک کمینٹ