اگر اُس جیسا کوئی شخص ہمارے ہاں ہوتا تو اس کے لواحقین اسے کسی ریڑھی میں ڈالتے، پورا شہر گھماتے، رات کو اس کے کمائے ہوئے پیسوں سے گزر اوقات کرتے یا پھر اس کی ریڑھی چلانے کے لیے کسی ملازم کو رکھ لیتے، اس کو تنخواہ دیتے۔ یوں اس طرح کے معذور کے ذریعے گھر بیٹھے لاکھوں روپے کما رہے ہوتے۔ ہم شاید ایسے ہی ہیں۔ شاید نہیں یقینا ایسے ہیں۔ ہم تو وہ سفاک لوگ ہیں اﷲ تعالیٰ اچھی خاصی خوبصورت اولاد دیتا ہے اور ہم اسے دولے شاہ کا چوہا بنا دیتے ہیں۔بچہ اگر گونگا ہو تو اس کو ناکارہ کر کے سسک سسک کر مرنے کے لئے چھوڑ دیتے ہیں۔ تھوڑی سی معذوری ہو تو اسے سڑکوں پر لے آتے ہیں۔ ڈاکٹر اگر مریض کو جواب دے دے تو ہم لوگ زندہ شخص کے لیے گورکن سے رابطہ کر کے کہتے ہیں ایک قبر تیار کرنا ہے۔ ہم اتنے بے رحم ہیں کہ سفاکی بھی ہم سے پناہ مانگتی ہے۔ ایسے میں اگر سٹیفن ہاکنگ کو ڈاکٹرز 1963ءمیں اس کی بیماری (موٹر نیورون) کو دیکھ کر یہ کہیں کہ وہ مزید دو سال تک جی سکے گا تو ڈاکٹروں کی رائے کو آسانی سے رَد نہیں کیا جا سکتا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ موٹرنیورون بیماری کی ہسٹری ہے کہ جب کوئی شخص اس بیماری کا شکار ہوتا ہے تو بیماری اپنے مریض کا شکار کر کے ہی دَم لیتی ہے۔ یعنی 55 برس قبل جب سٹیفن ہاکنگ کو یہ بیماری ہوئی تو اس وقت کی میڈیکل سائنس کی تحقیقات اتنی زیادہ نہیں تھیں جتنی آج ہیں۔ ایسے میں سٹیفن ہاکنگ خود ہی اپنے ڈاکٹر ثابت ہوئے۔ اپنی قوتِ ارادی سے اس نے دماغ کی خطرناک بیماری کو اس انداز سے شکست دی کہ موت کو 14 مارچ 2018ءتک کا انتظار کرنا پڑا۔
سٹیفن ہاکنگ سے میرا پہلا رابطہ اس وقت ہوا جب آج سے 30 برس پہلے ان کی کتاب ”اے بریف ہسٹری آف ٹائم“ منظرِ عام پر آئی۔ ”وقت کی تاریخ“ ایک موضوع ہے جس پر اس سے پہلے کسی نے کام نہیں کیا۔ لطف کی بات یہ ٹھہری کہ انہوں نے جب اس موضوع پر تحقیق کی تو اس وقت تک وہ بلیک ہولز اور نظریہ اضافیت پر کتاب لکھ چکے تھے۔ اس میں حیرت کی بات یہ تھی کہ بطور سائنسدان انہوں نے اچھوتے اور مشکل موضوعات پر کام تب کیا جب وہ قوتِ گویائی سے محروم ہو چکے تھے۔ ان کا جسم پیرالائز ہو چکا تھا۔ وہ آنکھوں سے مکمل بات کرتے تھے۔ بیماری کی شدت اتنی زیادہ تھی کہ جس وہیل چیئر پر بیٹھ کر کام کرتے تھے اس پر بھی وہ سیدھے نہیں بیٹھے ہوتے تھے۔ وہیل پر بیٹھنے کا انداز بھی ٹیڑھا تھا۔ لیکن انہوں نے بطور سائنسدان ایسے کام کیے جو بے شمار نارمل سائنسدان بھی نہ کر سکے۔ انہوں نے اپنے شعبہ فزکس میں حیرت انگیز کام کیا۔ انہوں نے آئن سٹائن کی تھیوری کششِ ثقل سے آگے کی منزل کو اپنا موضوع کیا۔ وہ کہا کرتے تھے:
"Theory of Everything would allow mankind to know the mind of God.”
شدید بیماری کی وجہ سے ڈاکٹروں کا کہنا تھا کہ وہ دو برس سے زیادہ نہیں جی سکیں گے۔ اس بیماری کے بعد ان کی زندگی کا جزو وہیل چیئر ہو گئی۔ گفتگو کرنے کے لیے ان کے لیے خصوصی طبی آلات تیار کیے گئے۔ کمپیوٹر ان کے ذہن کو پڑھ کر ایک ایک جملہ تقریباً دس منٹ میں مکمل کرتا تھا۔
8 جنوری 1942ءمیں آکسفورڈ میں پیدا ہونے والے ہاکنگ نے 1959ءمیں نیچرل سائنس کی تعلیم کے لیے آکسفورڈ کا انتخاب کیا۔ کیمبرج یونیورسٹی سے پی۔ایچ۔ڈی کیا۔ 1963ءمیں موٹر نیورون مرض کی تشخیص ہوئی۔ 1974ءمیں انہوں نے تحقیق کے بعد بتایا کہ خلا میں بلیک ہولز ”ہاکنگ ریڈی ایشن“ خارج کرتے ہیں۔ 2014ءمیں ان کی زندگی پر فلم ”دی تھیوری آف ایوری تھنگ“ بنائی گی۔ جس میں مرکزی کردار ایڈی ریڈ میئر نے ادا کیا۔ اس فلم کو دیکھ کر انہوں نے کہا جس اداکار نے فلم میں میرا کردار ادا کیا ہے مَیں اس سے کہیں زیادہ خوبصورت ہوں اور میرے بال اس سے زیادہ کشش رکھتے ہیں۔ اس بات سے سٹیفن ہاکنگ کی حسِ مزاح کا اندازہ بھی لگایا جا سکتا تھا۔
سٹیفن ہاکنگ کا پہلا موضوع کائنات میں پھیلے ہوئے اَن گنت بلیک ہولز تھے جن پر تحقیق کر کے انہوں نے بتایا کہ یہ بلیک ہولز حرارت بھی خارج کرتے ہیں۔ اگرچہ بلیک ہولز کے بارے میں اس سے قبل بھی بے شمار نظریئے موجود تھے لیکن ہاکنگ نے Radiation Theory کے ذریعے اس نظریئے کو نئی جان دی۔ اگر ہم ان کی تحقیق کا مطالعہ کریں تو علم ہوتا ہے گزشتہ کئی برسوں سے کائنات کے اسرار و رموز کو جاننے کے لیے سائنسدان محنت کر کے نئے در وا کر رہے ہیں۔ اسی محنت کا نتیجہ ہے کہ سائنسی نظریئے اور فارمولہ جات کو بڑے سائنسدانوں نے کائنات کے دو نظریئے بنا دیئے ہیں۔اب ان کی اگلی منزل یہ ہے کہ اس کائنات کو کسی ایک نقطہ پر لایا جائے کیونکہ دو نظریوں میں فی الحال ایک Macro Level پر مادے کی خصوصیات کو بیان کرتا ہے جبکہ دوسرا نظریہ چھوٹے چھوٹے ذرات کی تفصیلات کا مرکز ہے۔ یہ دونوں نظریات آپس میں کافی اختلافات رکھتے ہیں۔ ڈاکٹر ہاکنگ کی تحقیق کا زیادہ تر کام یہ ٹھہرا کہ وہ ان دو روٹھے سیاروں کو منانے میں مصروف رہا۔ اس موضوع کو تفصیل سے جاننے کے لیے ان کی دوسری کتاب ”The Universe in A Nutshell“ کا مطالعہ بے حد ضروری ہے۔
ڈاکٹر سٹیفن ہاکنگ نے ایک طرف کائنات کے اسرار و رموز پر کام کیا تو دوسری جانب انہوں نے ہمیشہ فلسطین میں ہونے والے انسانی قتل و غارت کی مذمت کی۔ 2012ءمیں اسرائیل میں ایک بڑی کانفرنس میں جب انہیں شرکت کا دعوت نامہ ملا تو انہوں نے یہ شرط لگا دی کہ مَیں کانفرنس میں شرکت تب کروں گا جب فلسطین میں ہونے والے قتلِ عام کو روکا جائے۔ جب ہاکنگ کا یہ پیغام کانفرنس کے منتظمین تک پہنچا تو انہوں نے ہاکنگ سے رابطہ کیا تو کیمبرج یونیورسٹی کے ترجمان نے اس سے پوچھے بغیر یہ بیان داغ دیا کہ ڈاکٹر سٹیفن ہاکنگ کی صحت ٹھیک نہیں ہے۔ اس بات کا علم ہونے پر انہوں نے ازخود یہ بیان دیا کہ مَیں اسرائیل میں ہونے والی کانفرنس میں تب شریک ہوں گا جب فلسطین میں ہونے والے قتلِ عام پر اسرائیل معذرت کرے۔ اسی طرح 2013ءجب شام میں جنگ مسلط کی گئی تو ڈاکٹر سٹیفن ہاکنگ نے 2014ءمیں شام میں ہونے والے قتلِ عام کے خلاف ہونے والے مظاہرے میں نہ صرف شرکت کی بلکہ اس میں شام میں مارے جانے والوں کے نام لے کر ان کو خراجِ تحسین پیش کیا۔ وہ جب مظاہرے میں شریک تھے تو انہوں نے آخر میں اس بات پر معذرت کی کہ ان کا بولنے والا سوفٹ ویئر شاید شہید ہونے والے عربی ناموں کا تلفظ درست نہ لے سکا ہو اس لیے شہداءکے غلط نام بولنے پر وہ معذرت چاہتے ہیں۔
اپنی آنکھوں کی پتلیوں سے رموزِ کائنات کے راز کھولنے والا ہاکنگ یہ بھی بتا گیا کہ ”انسان کو خدا نے تسخیرِ کائنات کے لیے پیدا کیا۔“ اس کے ساتھ ہی وہ انسانوں کو منع کر گیا وہ ماضی میں ٹائم مشین کے سفر کا نہ سوچیں کیونکہ اگر کسی نے ماضی میں جا کر ہٹلر کا قتل کر دیا تو تمام تاریخ تبدیل ہو جائے گی۔ اس لیے ماضی میں جا کر تاریخ سے چھیڑ خانی انسانی کو مہنگی پڑے گی۔(جاری ہے)
( بشکریہ : روزنامہ ایکسپریس )