سرائیکی کے نامور شاعر احمد خان طارق طویل علالت کے بعد جمعہ کی صبح شاہ صدردین ڈیرہ غازی خان میں انتقال کر گئے۔ ان کی عمر 93 برس تھی۔احمد خان طارق 1924ء میں شاہ صدر دین کی نواحی بستی میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے لڑکپن سے ہی اپنے شعری سفر کا آغاز کیا اور دیکھتے ہی دیکھتے ان کا شمار سرائیکی کے اہم شعراء میں ہونے لگا۔ احمد خان طارق کو سرائیکی دوہڑے کے حوالے سے پہچانا جاتا تھا۔ انہوں نے دوہڑے کو روایتی مضامین کی بجائے نئے موضوعات دیئے۔ سرائیکی خطے کی ثقافت اور معاشرت ان کی شاعری سے جھلکتی تھی۔ دوہڑوں کے علاوہ انہوں نے بے شمار گیت اور غزلیں بھی تخلیق کیں۔ احمدخان طارق خطے میں مشاعروں کی کامیابی کی ضمانت سمجھے جاتے تھے۔ انہوں نے اپنی شاعری خاص طور پر دوہڑوں میں ان موضوعات پر بھی بات کی جن پر بات کرنا جرم سمجھا جاتا تھا۔ احمد خان طارق کے 7 شعری مجموعے منظرعام پر آئے جن میں ”گھروں درتانڑے(1989)، متاں مال ولے(1995)، میکوں سی لگدے(2001)، ہتھ جوڑی جُل(2005)، عمراں داپوہریا(2007)، سسی(2011) اور میں کیا آکھاں(2014)“ شامل ہیں۔احمد خان طارق طویل عرصے سے علیل تھے ۔ان کے علاج معالجے کے لئے مختلف ادبی تنظیموں نے مطالبات بھی کیے تھے۔احمد خان طارق کی وفات کی خبر ملتان سمیت پورے سرائیکی وسیب میں دکھ کے ساتھ سنی گئی۔ اردو اور سرائیکی کے نامور شعراء اور دانشوروں نے احمد خان طارق کی وفات کو سرائیکی شاعری کا ناقابل تلافی نقصان قرار دیا ہے۔ڈاکٹر اسلم انصاری، خالد مسعود خان، ڈاکٹر شوکت مغل، ظہوراحمد دھریجہ، عزیز شاہد، ڈاکٹر محمد امین، پروفیسر انور جمال ، رفعت عباس ، وسیم ممتاز، شاکر حسین شاکر، نوازش علی ندیم، ڈاکٹر مقبول گیلانی ، رہبر صمدانی ، تحسین غنی ، مستحسن خیال ،اکبر ہاشمی ، ضیاء ثاقب بخاری، سید سہیل عابدی، اسرار چودھری اور قیصر عمران مگسی نے کہا کہ احمد خان طارق نے اپنی شاعری کے ذریعے سرائیکی خطے کی ثقافت کو ہمیشہ کے لئے محفوظ کر دیا۔ وہ اب ہم سے جدا ہوگئے لیکن ان کی خدمات کو کبھی فراموش نہیں کیا جا سکے گا۔
فیس بک کمینٹ