کئی دوستوں نے مجھے فون کئے ہیں۔ صرف طنزیہ انداز میں یہ معلوم کرنے کے لئے کہ میں کس قسم کا سیاسی رپورٹر ہوں،جس کے کالموں سے یہ اندازہ ہی نہیں ہو رہا کہ چودھری شجاعت حسین کی دوبئی میں پرویز مشرف سے ایک طویل ملاقات ہو چکی ہے۔ پیرپگاڑا بھی اس شہر میں تھے۔ اشارے ملے ہیں کہ مشرف، چودھری برادران اور پگاڑا صاحب کی مسلم لیگ متحد ہوکر نواز لیگ کا مقابلہ کرنے کے لئے اصلی تے وڈی مسلم لیگ بن جائے گی۔وہ تینوں، ایک ہو گئیں تو مصطفیٰ کمال کی ہٹی اور متحدہ کے پاکستان کہلانے والے ورژن سے ابھی تک کٹے ہوئے ایم کیو ایم کے ورکر اور ووٹروں کا ایک بہت بڑا گروہ بھی اس جماعت میں شامل ہو سکتا ہے۔یہ ہو جائے تو چودھری شجاعت اپنے ٹھنڈے مگر محبانہ مزاج کی بدولت آصف علی زرداری کو اس جماعت کے ساتھ آئندہ انتخابات کے لئے اتحاد کیلئے نہ سہی تو کسی نہ کسی نوعیت کی Seats Adjustment پر آمادہ کر سکتے ہیں۔یہ سب ہو گیا تو آنے والے انتخابات میں Triangular مقابلے ہوں گے۔ کوئی ایک جماعت بھی واضح اکثریت حاصل نہیں کر پائے گی۔ بظاہر یہ انتظام نوازشریف کو کمزور کرنے کے لئے سوچا جا رہا ہے۔ اصل نشانہ اس کا مگر عمران خان اور تحریک انصا ف ہیں جو اب تک ’’باریاں‘‘ لینے والے سیاست دانوں کا حقیقی متبادل نظر آرہے تھے۔ میرے دوستوں نے جو نقشے کھینچے میں انہیں اطمینان سے سنتا اور بالآخر یہ کہہ کر فون بند کرنے کی اجازت طلب کرنا شروع ہو جاتا کہ کسی ایسے موضوع میں کوئی نئی بات اپنے کالم میں کیسے لکھ سکتا ہوں جس کے بارے میں ایک تفصیلی منصوبہ نظر بظاہر بن چکا ہے۔ بہتر یہی ہوگا کہ انتظار کر لیا جائے۔میری اس بات کو مگر دوست بدتراز گناہ والا عذر قرار دیتے ہیں جس کا الزام میری جھکی طبیعت کو دیا جاتا ہے۔ مجھے یہ دعویٰ کرنے میں ہرگز کوئی شرمندگی نہیں کہ پاکستان کی موجودہ سیاست ایک مزاحیہ کھیل بن چکی ہے۔ اس کے بارے میں قنوطی اور جھکی ہوئے بغیر رہا ہی نہیں جا سکتا۔ کئی مہینوں سے پانامہ-پانامہ والا ایک Soap Opera چل رہا ہے۔ سپریم کورٹ کے روبرو اس کی اقساط پیش ہوتی ہیں۔قطری شہزادے کے خط اور اسحاق ڈار کا اعترافی بیان ’’ڈرامائی موڑ‘‘ پیدا کرتے ہیں۔ تحریک انصاف اور حکومتی میڈیا سیل کے لئے کام کرنے والے چند لوگ جو Idiot Box کے مہا کلار مانے جاتے ہیں پیر سے جمعہ اس ڈرامے کی کہانی کو آگے بڑھاتے ہیں۔ اس کہانی کی جزئیات کو تفصیل سے بیان کرنے کے لئے شام 7 بجے سے رات 12بجے تک ہمارے عقل کل بنے اینکرخواتین وحضرات اپنی تخلیقی صلاحیتوں کو استعمال کرتے ہیں۔ ہمارے دن اس ڈرامے کی بدولت کافی ’’اچھے‘‘ گزر رہے تھے بدقسمتی سے جسٹس عظمت سعید بیمار ہو گئے۔ڈرامے میں تعطل آ گیا تو ہماری نگاہ دائیں بائیں دیکھنے پر مجبور ہو گئی۔تعطل کے اس وقفے میں دوبئی میں ہوئی ملاقاتوں نے توجہ حاصل کر لی اور متحدہ کے سلیم شہزاد بھی کئی برس کی جلاوطنی چھوڑ کر کراچی تشریف لے آئے۔ پرویز مشرف یقیناً ایک خوش نصیب شخص ہیں۔ 9 سال تک اس ملک پر ڈٹ کر راج کیا ۔2008ء کے انتخابات کے بعد گارڈ آف آنرز لے کر اس ملک سے مگر رخصت ہو گئے۔2013ء کے انتخابات میں حصہ لینے تشریف لائے تو چند مقدمے ان کے گلے پڑ گئے۔نواز شریف حکومت نے ان مقدمات کو توانا بنانے کی کوشش کی تو بہادر شاہ ظفر کی حکومت میں تبدیل ہو گئی۔ مشرف صاحب کمر سیدھی کروانے ایک بار پھر بیرون ملک چلے گئے۔ رقص کو کبھی اعضاء کی شاعری کہا جاتا تھا۔اب دریافت ہو رہا ہے کہ وہ فزیوتھراپی کا ایک مؤثر ذریعہ بھی ہے۔مشرف صاحب بھی اسے استعمال کرنے پر مجبور ہو رہے ہیں۔ربّ کریم سے فریاد ہے کہ ان کی کمر سیدھی ہی رکھے۔ سیدھی کمر کے ساتھ بھی لیکن پرویز مشرف صاحب کے لئے وطن لوٹنا کافی مشکل ہو گا۔پانامہ-پانامہ کی بدولت نوازشریف صاحب کو اپنی تین نسلوں کی دولت اور اثاثوں کا حساب دیتے ہوئے کئی سخت اور تکلیف دہ سوالوں کا جواب دینا پڑ رہا ہے جو بسا اوقات مضحکہ خیز سنائی دیتے ہیں۔ آصف علی زرداری کی پارٹی ابھی بھی سندھ میں ’’حکومت‘‘ چلارہی ہے۔ اس جماعت کے سربراہ کے بچپن کے دوست ڈاکٹر عاصم کو کمر میں بھی بہت تکلیف ہے۔ اگست 2015ء سے مگر وہ مسلسل عدالتوں اور ہسپتالوں کے چکر لگا رہے ہیں۔ ضمانت پر رہائی بھی حاصل نہیں کر پائے۔پھر ایک ’’ڈالرگرل‘‘ بھی تو ہے۔ سپریم کورٹ کے ایک حکم کے باوجود اس کا نام ابھی تک ECL پر موجود ہے۔ ان سب حقائق کے ہوتے ہوئے یہ ممکن ہی نہیں رہا کہ سیدھی ہوئی کمر کے ساتھ پرویز مشرف صاحب وطن تشریف لائیں اور انہیں عدالتوں کے روبرو ویسے ہی سوالات کا سامنا نہ کرنا پڑے جو ان دنوں شریف خاندان کا مقدر بنے نظر آرہے ہیں۔قانون کی مجبوری بن چکی ہے کہ وہ سب کے لئے برابر نظر آئے۔اس سے مفر ممکن ہی نہیں رہا۔ ایم کیو ایم کے سلیم شہزاد بھی قانون کی یہ مجبوری سمجھ نہیں پائے۔کسی نہ کسی نوعیت کے NRO کی امید میں پاکستان لوٹ آئے۔وہ کینسر جیسے موذی مرض کا نشانہ بھی رہے ہیں۔کراچی اترتے ہی مگر انہیں ایس پی راؤ انوار کی تشخیص کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔تشخیص کے مراحل سے گزرنے میں کافی وقت درکار ہو گا۔اس دوران کراچی میں مردم شماری کی وجہ سے ایک نئی کھچڑی پکنا شروع ہو جائے گی۔مجھے خبر نہیں کہ وہ کھچڑی کونسی سیاسی جماعت اپنے فائدے کے لئے استعمال کر پائے گی۔خدشہ ہے کہ شاید وہ کسی کے لئے بھی ہضم کرنا بہت مشکل ہوجائے۔ میرے منہ میں خاک ،مگر اس بات کے بھی قوی امکانات موجود ہیں کہ مردم شماری کراچی کو 1980ء کی دہائی میں بہت سفاکی کے ساتھ واپس بھیج دے۔ ایسا ہوا تو مصطفیٰ کمال کی ہٹی ،متحدہ کا خود کو پاکستان کہلاتا ورژن اور سلیم شہزاد شاید باہم مل کر بھی کوئی مناسب کردار ادا نہ کر پائیں۔ عرض مجھے صرف یہ کرنا ہے کہ مشرف صاحب اور متحدہ کی باقیات کی ٹی وی پر آنیاں جانیاں سکرینوں پر رونق تو لگادیتی ہیں مگر ٹھوس سیاسی تناظر میں ان کی کوئی خاص اہمیت کی حامل نہیں۔گجرات کے چودھری برادران کا اپنا ایک حلقہ اثر اپنی جگہ موجود ہے۔ اسے مسلم لیگ (ق)جیسی وہ صورت دینا مگر ممکن نہیں رہا جو مشرف کے دور میں میسر تھی۔ایسا ممکن ہوتا تو ہمارے راولپنڈی کی لال حویلی سے اُٹھے بقراط اپنی ’’عوامی ‘‘ لے کر بھی ممکنہ اصلی تے وڈی مسلم لیگ میں اپنا حصہ طلب کرنے کی کاوشوں میں مصروف نظر آتے۔ لہٰذا فی الوقت جو میسر ہے اسی پر گزارہ کیجئے اور ربّ سے یہ دُعا کہ جسٹس عظمت سعید صاحب جلد صحت یاب ہوں تاکہ پانامہ-پانامہ کی کہانی آگے بڑھے اور کسی انجام کو پہنچے
(بشکریہ:روزنامہ نوائے وقت)