ایودھا : انڈیا کے وزیراعظم نریندر مودی نے ملک کی شمالی ریاست اترپردیش کے شہر ایودھیا میں متنازع رام مندر کا سنگِ بنیاد رکھ دیا ہے۔ایودھیا پہنچنے کے بعد نریندر مودی نے مندر کی تعمیر کے قریب واقع ہنومان گڑھی میں پوجا کی جس کے بعد وہ سنگِ بنیاد رکھنے کی تقریب میں شرکت کے لیے پہنچے۔
نریندر مودی کی آمد کے بعد رام مندر کی تعمیر کے مقام پر ’بھومی پوجا‘ کی گئی جس میں وزیراعظم اور اترپردیش کے وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے بھی شرکت کی۔انڈین وزیراعظم نے بھومی پوجا کے بعد مندر کے سب سے اندرونی حصے میں ایک چاندی کی علامتی اینٹ رکھی جو کہ آئندہ بننے والے مندر کا سب سے مقدس حصہ ہو گا۔
انڈین وزیراعظم کی ایودھیا آمد کے موقع پر سکیورٹی کے سخت انتظامات کیے گئے جبکہ کورونا کی وبا کی وجہ سے تقریب میں چنندہ افراد کو ہی شرکت کی اجازت تھی۔کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا نے نریندر مودی اور آدتیہ ناتھ کی بھومی پوجا کے پروگرام میں شرکت پر تنقید کی ہے۔جماعت کی جانب سے ٹوئٹر پر دیے گئے پیغام میں کہا گیا ہے کہ ’ریاست کو مذہب سے الگ رکھنے والے آئین کی روح کا خیال کریں۔ جب کہ انڈیا کا آئین واضح کرتا ہے کہ مذہب اور سیاست کو ملانا نہیں چاہیے تو انڈیا کے وزیراعظم اور اترپردیش کے وزیراعلیٰ کیوں ایک مندر کی بھومی پوجا کی تقریب سے سیاسی فائدہ اٹھانے کی کوشش کر رہے ہیں‘۔
خیال رہے کہ رام مندر جس مقام پر تعمیر کیا جانا ہے وہاں 16ویں صدی میں بنائی جانے والی بابری مسجد قائم تھی جسے سنہ 1992 میں ہندو ہجوم نے یہ کہتے ہوئے منہدم کر دیا تھا کہ یہ ان کی مقدس ہستی رام کی جائے پیدائش ہے۔
ایودھیا میں رام مندر اور بابری مسجد کا تنازع ایک صدی سے زیادہ پرانا ہے۔ یہ مقام ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان کشیدگی کا باعث رہا ہے اور دونوں فریق اس کی ملکیت کے دعویدار تھے۔گذشتہ سال ملک کی سپریم کورٹ نے یہ مقام ہندوؤں کو دے کر کئی دہائیوں پرانی قانونی لڑائی کو ختم کر دیا تھا۔ عدالت نے مسلمانوں کو شہر میں ایک اور مقام پر مسجد تعمیر کرنے کے لیے زمین دی ہے۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق ملک بھر سے لوگ چاندی اور سونا، سکوں اور اینٹوں کی شکل میں مندر کی تعمیر کے لیے بھیج رہے ہیں۔ پولیس کو کہا گیا ہے کہ وہ ان قیمتی عطیات کی حفاظت کریں۔
ٹائمز آف انڈیا کے مطابق گذشتہ سالوں میں ہندو افراد سے تقریباً دو لاکھ سونے کی اینٹیں جمع کی گئی ہیں جن پر ’شری رام‘ لکھا گیا ہے اور یہ اینٹیں مندر کی بنیاد بنانے میں استعمال ہوں گی۔
مجوزہ مندر پر کام کرنے والے چیف آرکیٹیک چندرا کانٹ سومپورہ نے مقامی نیوز ویب سائٹ دی پرنٹ سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ مندر نگارہ سٹائل، جو کہ شمالی انڈیا میں مندروں کی تعمیر کے لیے مقبول سٹائل ہے، میں تعمیر کیا جائے گا۔
مندر کا اندرونی حصہ، جہاں مرکزی بت رکھا جائے گا آٹھ دیواروں والا ہوگا۔ مندر میں ایک بڑی عمارت بھی بنائی جائے گی جو کہ تین منزلہ ہو گی جس میں 366 ستون اور پانچ گنبد ہوں گے۔چندراکانٹ سومپورہ کا کہنا ہے کہ مندر کی تعمیر میں شامل افراد کی یاد میں ایک علامتی دیوار بھی بنائی جائے گی۔
ایودھیا کا تنازع کیا تھا؟
اس تنازع کی بنیاد 16ویں صدی کی ایک مسجد تھی جسے 1992 میں ہندؤوں نے گرا دیا تھا جس کے بعد مذہبی فسادات میں تقریباً 2000 افراد مارے گئے تھے۔
بہت سے ہندوؤں کا ماننا ہے کہ بابری مسجد ایک ایسے مقام پر بنائی گئی تھی جہاں پہلے ایک ہندو مندر تھا جس پر مسلمانوں نے انڈیا قتح کرنے کے بعد ایک مسجد بنا دی تھی۔مسلمانوں کا کہنا ہے کہ انھوں نے دسمبر 1949 تک اس مسجد میں نماز ادا کی جب کچھ ہندوؤں نے وہاں رام کے بت لا کر رکھ دیے اور ان کی پوجا شروع کر دی۔
اس کے بعد کئی سالوں تک یہ معاملہ عدالت میں زیرِ بحث رہا کہ کس مذہب کے لوگوں کے پاس اس مقام پر عبادت کا حق ہے۔
( بشکریہ : بی بی سی اردو ـ)
فیس بک کمینٹ