اپنے گھر سے پورے دس برس تک پیدل چلتے ہوئے لاہور کے رنگ محل مشن ہائی سکول جانا پڑا تھا۔ میرے راستے میں سنہری مسجد سے قبل کشمیری بازار آتا تھا۔ اس بازار میں سٹیشنری کے علاوہ ہمارے خطے کے چند معروف اور قدیمی اشاعتی اداروں کی گودام نما دوکانیں بھی تھیں۔پنجاب کے نواحی قصبات سے کتب فروش ان کے ہاں آکر کتابیں خریدا کرتے تھے۔ جن کتابوں کو وہاں تشہیری انداز میں سجایا گیا ہوتا ان میں ہیررانجھے اور یوسف زلیخا کے قصے بہت نمایاں ہواکرتے تھے۔ایک کتاب کا عنوان تاہم ہمیشہ میری توجہ اچک لیتا۔وہ کتاب تھی”ہدایت نامہ برائے خاوند“ مجھے وہ کتاب پڑھنے کا آج تک اتفاق نہیں ہوا۔ اپنے تئیں اگرچہ یہ فرض کرلیا کہ اس کتاب میں خاوند کو خوش گوار ازدواجی زندگی کے رہ نما اصول بتائے گئے ہونگے۔
”ہدایت نامہ برائے خاوند“ والا عنوان گزشتہ تین دنوں سے مجھے ایک بار پھر تسلسل سے یاد آئے چلے جارہا ہے۔اس کا تعلق اگرچہ اس موضوع سے ہرگز نہیں جو ان دنوں ہمارے ریگولر اور سوشل میڈیا پر چھایا ہوا ہے۔جو موضوع وہاں زیر بحث ہے وہ نواز شریف سے متعلق ہے۔ پاکستان کے تین بار وزیر اعظم رہے اس سیاستدان کو ریگولر اور سوشل میڈیا پر چھائے ذہن ساز سمجھاتے چلے جارہے ہیں کہ وہ ”احتیاط“ سے کام لیں۔اپنی زندگی اور سیاست کو اجیرن وغارت کرنے والے ججوں اور جرنیلوں کے نام نہ لیں۔ وہ جج اور جرنیل اب ریٹائر ہوچکے ہیں۔ اس کے باوجود ریاست کے دو طاقت ور ترین ستونوں کی علامت ہیں۔ ان کے ”احتساب“ کی بات چلے تو ادارے ”چونک“ جاتے ہیں۔انہیں ترنت یاد آجاتا ہے کہ 1990سے نواز شریف کو تین بار وزارت عظمیٰ پر براجمان رہنے کا موقعہ ملا تھا۔ اپنے کام پر توجہ مرکوز رکھنے کے بجائے وہ مگر اپنے دور کے صدر اور خاص طورپر افواج پاکستان کے سربراہان سے ”خواہ مخواہ کے پنگے“ لیتے رہے۔اسی باعث صدر غلام اسحاق خان نے 1993میں ان کی پہلی حکومت کو برطرف کردیا تھا۔ 1999میں ان کی دوسری حکومت کے دوران حالات اس نہج تک پہنچ گئے کہ جنرل مشرف پاکستان میں چوتھا مارشل لاءلگانے کو ”مجبور“ ہوگئے۔نواز شریف نے اس کے باوجود ”پلٹ کر جھپٹنے“ کی عادت ترک نہ کی۔
ان کی تیسری حکومت کے دوران راحیل شریف کو نواز شریف ہی نے چیف آف آرمی سٹاف تعینات کیا تھا۔ وہ انہیں بھی مگر ناراض کربیٹھے۔ وزیر اعظم کے رویے سے مایوس ہوکر عسکری قیادت لہٰذا عمران خان کی سرپرستی کو”مجبور“ ہوگئی۔انہوں نے جارحانہ سیاست سے شریف خاندان کی سیاست کے خلاف جو فضا بنائی اس نے سپریم کورٹ کو بالآخر یہ قوت فراہم کی جو نواز شریف کی تاحیات نااہلی کا سبب ہوئی۔وزارت عظمیٰ سے فارغ کردئیے جانے کے بعد نواز شریف کو احتساب عدالت نے بدعنوانی کے الزام کے تحت جیل بھجوادیا تھا۔ وہ جیل میں تھے تو ان کی صحت تشویش ناک حد تک بگڑگئی۔ انہیں علاج کی خاطر جیل سے نکال کر پہلے ہسپتال اور پھر لندن بھیجنا پڑا۔ لندن میں تقریباََ چار سال گزارنے کے بعد وہ اب اگلے ماہ کی 21تاریخ کو لاہور واپس لوٹ رہے ہیں۔
اپنی آمد سے چند دن قبل نواز شریف نے مسلم لیگ کے سرکردہ رہ نماﺅں اور کارکنوں کے لاہور میں ہوئے ایک اجتماع سے لندن میں بیٹھ کر بذریعہ زوم خطاب کیا۔ مذکورہ خطاب کے دوران اپنے حامیوں کا لہو گرمانے کو انہوں نے چار سابق ججوں اور جرنیلوں کے نام لے کر انہیں کڑی تنقید کا نشانہ بنایا۔جوش خطابت میں ایک ایسا نام بھی لے دیا جو ان دنوں سپریم کورٹ کے حاضر جج ہیں اور مستقبل کے چیف جسٹس بھی ہوسکتے ہیں۔
نوازشریف کے خطاب کی تفصیلات عوام کے روبرو آئیں تو شہباز شریف جو حال ہی میں لندن میں تقریباََ تین ہفتے قیام کے بعد وطن لوٹے تھے لاہور میں محض چند گھنٹے گزارنے کے بعد گھبراہٹ میں برطانیہ کا ٹکٹ کٹوانے کو مجبور ہوگئے۔ میرے ذرائع مصر ہیں کہ مقتدر کہلاتی قوتوں کے اہم ترین پیغامبروں نے لاہوراور گوجرانوالہ کے درمیان ایک مقام پر شہباز صا حب سے تفصیلی ملاقات کی تھی۔اس دوران انہیں بتایا گیا کہ اپنے حالیہ خطاب کی بدولت نوازشریف ”زمین جنبد نہ جنبد گل محمد“ سنائی دئے ہیں۔ قصہ مختصر وہ ماضی کی تلخ باتیں بھلاکر کشادہ دلی سے آگے بڑھنے کو آما دہ نظر نہیں آ رہے۔ شہباز شریف کو پہنچائے مبینہ پیغام نے انہیں فوراََ لندن جاکر اپنے بڑے بھائی سے نرم روی اور درگزر والا رویہ اختیار کرنے کی درخواست کو اکسایا۔
مجھ سے کہیں زیادہ باخبر ،متحرک اور قابل اعتماد صحافی مگریہ دعویٰ کررہے ہیں کہ مقتدر قوتوں نے شہبازشریف سے کوئی خفیہ ملاقات نہیں کی۔احتیاط پسند چھوٹے بھائی ازخود اپنے بڑے بھائی کے آگ ا±گلتے خطاب سے پریشان ہوکر انہیں سمجھانے بجھانے لندن لوٹ گئے۔ وجہ کچھ بھی رہی ہو۔یہ خبر کوئی صحافی دے نہیں رہا کہ شہباز شریف اپنے بڑے بھائی کو بالآخر ٹھنڈاکرنے میں کامیاب ہوئے ہیں یا نہیں۔ شہباز صاحب کی فکر مندی سے قطع نظر ریگولر اور سوشل میڈیا پر چھائے ذہن سازوں کی اکثریت نواز شریف کے ”ولولہ انگیز خطاب“ کے بعد ازخود انہیں سمجھانے کی کوشش کررہی ہے کہ وہ ماضی کو بھلاکر پاکستان کے مستقبل کو سنوارنے کی راہ ڈھونڈیں۔ وہ اگران کی تیسری حکومت کو 2014سے مسلسل اضطراب اور بے ثباتی میں مبتلا رکھنے والے ججوں اور جرنیلوں کے ”احتساب“ کی تکرار جاری رکھیں گے تو ”ادارے“ ان پر اعتماد کرنے کو ہرگز آمادہ نہیں ہوں گے۔ نواز شریف کو دئے مشوروں نے مجھے نجانے کیوں ”ہدایت نامہ برائے خاوند“ کا عنوان اور کشمیری بازار سے گزرکر سنہری مسجد کے پہلو میں واقع برتنوں والے بازار سے ہوتے بچپن میں سکول جانا یاد دلانا شروع کردیا۔
میں تو ماضی کی یادوں میں کھویا رہا مگر بدھ کے روز جاوید لطیف صاحب نے ایک پریس کانفرنس سے خطاب کیا۔ شیخوپورہ سے قومی اسمبلی کے رکن رہے جاوید صاحب نواز شریف کے بہت قریب تصور ہوتے ہیں۔ ان کا اپنا اندازِ سیاست بھی کافی جارحانہ رہا ہے جس کے باعث انہیں ریاست کے ہاتھوں کافی اذیتیں برداشت کرنا پڑیں۔ بدھ کے دن ان کی صحافیوں سے ہوئی گفتگو نے ”ذہن سازوں“ کو مطمئن کردیا ہے۔جاوید صاحب کا فرمانا تھا کہ نواز شریف ”اداروں“ کو مطمئن رکھنے کی خاطر ماضی بھلانے کو تیار ہوجائیں گے۔ ”اداروں“ کو مگر ”9مئی کے ذمہ داروں“ کو معاف نہیں کرنا چاہیے۔
جاوید لطیف اپنی پریس کانفرنس میں ماضی بھلانے کے بدلے ”اداروں“ سے کیا طلب کررہے تھے اسے یکسرنظرانداز کرتے ہوئے ریگولر اور سوشل میڈیا پر چھائے ذہن ساز اصرار کررہے ہیں کہ جاوید لطیف کے ذریعے نواز شریف نے ”نیک چال چلن“ کی ضمانت فراہم کردی ہے۔ یہ ضمانت فراہم نہ ہوتی تو ”ادارے“ تحریک انصاف کے ساتھ قابل عمل سمجھوتے کی راہ ڈھونڈنے کو آمادہ تھے۔ وہ راہ بن جاتی تو نواز شریف لاہور ایئرپورٹ اترتے ہی ایک بار پھر جولائی 2018کی طرح گرفتار کرکے سیدھے جیل بھجوادئے جاتے اور ان کے ”والہانہ استقبال“ کی تیاریاں دھری کی دھری رہ جاتیں۔ قصہ مختصر ریگولر اور سوشل میڈیا پر چھائے ذہن سازوں کا ”ہدایت نامہ برائے خاوند“ نواز شریف کو سمجھانے بجھانے میں نظر بظاہرکامیاب ہوادکھائی دے رہا ہے۔
(بشکریہ: روزنامہ نوائے وقت)
فیس بک کمینٹ