دانیال عزیز کی سیاست کا میرے لئے بطور صحافی ’’جائزہ‘‘ لینا تقریباََ ناممکن ہے۔اس ضمن میں سب سے زیادہ دِقت ان دنوں محسوس ہوئی جب وہ جنرل مشرف کے دور میں تشکیل دئے نیشنل ری کنسٹرکشن سے وابستہ ہوکر ’’نیا جمہوری نظام‘‘ کھڑا کرنے کی کوششوں میں مصروف تھے۔ عسکری حلقوں میں افلاطون تصور ہوتے جنرل نقوی مذکورہ ادارے کے سربراہ تھے۔ذاتی طورپر وہ ایک مہذب اور خلیق انسان تھے۔ ان سے چند ملاقاتوں کے بعد مگر اندازہ ہوا کہ موصوف اسی ’’بنیادی جمہوریت‘‘ کا احیاء چاہ رہے ہیں جو ہمارے اولیں ’’دیدہ ور‘‘ جنرل ایوب نے 1960ء کی دہائی میں متعارف کروائی تھی۔میری دانست میں جمہوریت کی یہ طرز بالآخر وطن عزیز کو 1971ء میں دو لخت کرنے کا باعث ہوئی۔
جنرل نقوی کی ’’تحلیلِ نفسی ‘‘ تاہم کسی اوردن کے لئے مؤخر کرنا ہوگی۔ آج کے دن تو مجھے اعتراف کرنا ہے کہ چودھری انور عزیز کے ساتھ میرے بے شمار واسطوں سے دیرینہ اور گہرے مراسم رہے ہیں۔ میں اور میری بیوی انہیں اپنے گھر کا ’’بڑا‘‘ شمار کرتے تھے۔ دانیال عزیز ان کے فرزند ہیں اور موصوف کی سیاست کا ذکر کرتے ہوئے مجھے ’’صحافیانہ غیر جانب داری‘‘ کا ڈرامہ لگانا انتہائی منافقانہ محسوس ہوتا ہے۔
چند دنوں سے طویل عرصے کی گمنامی اور گوشہ نشینی کے بعد دانیال عزیز ریگولر اور سوشل میڈیا پر ’’رش‘‘ لینا شروع ہوگئے ہیں۔وجہ اس کی دانیال عزیز کی جانب سے دیا ایک بیان ہے جس میں انہوں نے مسلم لیگ (نون) کے قد آور رہ نما اور کئی بار وفاقی وزیر رہے احسن اقبال کو شہباز حکومت کی قیادت میں اپریل 2022ء سے اگست 2023ء تک چلائی مخلوط حکومت کے دوران ریکارڈ توڑ مہنگائی کا یک و تنہا ذمہ دار ٹھہرادیا ۔
دانیال سے دیرینہ اور گہری قربت کے باوجود میں احسن قبال کو شہباز حکومت کی نازل کردہ مہنگائی کا واحد ذمہ دار ٹھہرانے کو آ مادہ نہیں۔اس کالم کے مستقل قاری بخوبی جانتے ہیں کہ میں تواتر سے عمران خان کو تحریک عدم اعتماد کے ذریعے وزارت عظمیٰ کے منصب سے ہٹانے والی کاوش کی مخالفت کرتا رہا ہوں۔مذکورہ تحریک کامیاب ہوجانے کے باوجود مصر رہا کہ پاکستان کو ’’دیوالیہ‘‘ سے بچانے کے لئے عوام کے لئے ناقابلِ برداشت اقدام محض اس حکومت کو لینا ہوں گے جو نئے انتخاب کے ذریعے معروض وجود میں آئے۔ مسلم لیگ (نون) کے علاوہ تحریک انصاف اور جماعت اسلامی کے سوا ہماری تمام سیاسی جماعتوں کے نمائندوں پرمشتمل حکومت کو تاہم اپنی دانش وفراست پر بہت مان تھا۔ وہ اسی قومی اسمبلی کی ’’آئینی مدت‘‘ مکمل کرنے کو ڈٹ گئی جسے 2018ء کے انتخابات کے دوران ’’دھاندلی‘‘ کی پیداوار پکارا گیا تھا۔ مذکورہ اسمبلی میں عددی اعتبار سے تحریک انصاف سب سے بڑی جماعت تھی۔ اس کی بے پناہ اکثریت نے عمران حکومت کے خاتمے کے بعد اسمبلی رکنیت سے استعفیٰ دے دیا۔ ان کے دئیے استعفوں کے بعد اپوزیشن سے محروم قومی اسمبلی محض ایک ٹانگ کے سہارے پھونک پھونک کر قدم اٹھاتی نظر آئی۔کوئی بھی جرأت مند قدم اٹھانے کے قابل نہ رہی۔ اس کی تمام تر توجہ بھی پاکستان کو دیوالیہ سے بچانے پر مرکوز رہی۔اس تناظر میں آئی ایم ایف کو رام کرنے کے لئے اسے بجلی،گیس اور پٹرول کی قیمتوں میں ریکارڈ اضافہ کرنا پڑا۔
دیوالیہ ہونے کے خوف میں جڑی عوامی تائید سے محروم اور بھان متی کا کنبہ دِکھتی حکومت کی بے بسی کا عمران خان نے بھرپور فائدہ اٹھایا۔ روزانہ کی بنیاد پر وہ شہر شہر جاکر عوامی اجتماعات سے خطاب کرتے رہے۔رابطہ عوام مہم کے ذریعے انہوں نے عوام کی مؤثر تعداد کو اس امر پر قائل کردیا کہ امریکہ ان کی وطن دوستی اور خودمختاری کی تمنا سے گھبرا گیا تھا۔اس نے پاکستان کی عسکری قیادت کو مجبور کیا کہ وہ اپوزیشن جماعتوں کے ساتھ مل کر عمران خان کو تحریک عدم اعتماد کے ذریعے وزارت عظمیٰ سے فارغ کردے۔
دانیال عزیز کا یہ دعویٰ سو فیصد درست ہے کہ عمران خان جب ’’سائفر‘‘ کی بنیاد پر مذکورہ بالا داستان کو فروغ دے رہے تھے تو شہباز حکومت اس کا توڑ ڈھونڈنے میں ناکام رہی ۔ غالباََ یہ فرض کرلیا گیا کہ ’’پانچویں پشت کی ابلاغی جنگ‘‘ کے لئے ’’ذہن سازوں‘‘ کے لشکر تیار کرنے والے عمران خان کی پھیلائی کہانی کا جواب فراہم کردیں گے۔ یہ سوچتے ہوئے مگر یہ حقیقت فراموش کردی گئی کہ سیاستدانوں کو اپنی جنگ خود ہی لڑنا ہوتی ہے۔’’کوئی اور ‘‘ ان کے دفاع کے لئے اپنے وسائل ضائع کرنے کو رضا مند نہیں ہوتا۔
تلخ حقیقت یہ بھی تھی کہ ’’میر جعفر‘‘ پکارے جانے کے باوجود ان دنوں کے سپہ سالار قمر جاوید باجوہ وکٹ کے دونوں جانب کھیلتے ہوئے اپنے عہدے کی معیاد میں مزید توسیع کے خواہش مند تھے۔ اسی خواہش کے ہاتھوں وہ ’’میر جعفر‘‘ پکارے جانے کے باوجود صدر علوی کے دفتر میں عمران خان سے ملاقاتیں کرتے رہے اور پرویز الٰہی کو سازشی انداز میں عمران خان کی حمایت میں کھڑا کردیا۔
دانیال عزیز اگرچہ اس حقیقت کا ادراک بھی نہیں کررہے کہ 16مہینے تک پھیلے اقتدار کے دوران ان کی جماعت نے اپنی ساکھ اور ووٹ بینک کو جس بے دردی سے لٹایا ہے اس کا ازالہ اب احسن اقبال یا مریم اورنگزیب صاحبہ کے سرڈالنے کے ذریعے ممکن نہیں۔ نوازشریف سمیت مسلم لیگ (نون) کی صف اوّل کی قیادت کو قوم کے روبرو پورا سچ بول کر اپنی محدودات کا دیانت داری سے اعتراف کرنے کے بعد آگے بڑھنے کی راہ دکھانا ہوگی۔ یہ ہوتا مگر نظر نہیں آرہا۔ مسلم لیگ (نون) کے سرکردہ رہ نمائوں سے نتہائی میں ملاقات کرو تو ان کی بدن بولی یہ تاثر دیتی ہے کہ فروری 2024ء کی آٹھ تاریخ کوطے ہوئے انتخاب محض ایک رسمی کارروائی ہے جن کے نتیجے میں ان کی جماعت ایک بار پھر برسراقتدار آجائے گی۔
دانیال عزیز کو نواز شریف کے جارحانہ دفاع کی وجہ سے غضب ناک ہوکر سابق چیف جسٹس ثاقب نثار نے 2013ء کے انتخاب میں حصہ لینے کے لئے نااہل ٹھہرادیا تھا۔چودھری انور عزیز مرحوم نے اپنے فرزند کی نااہلی کا عمر کے آخری حصے میں نہایت دلیری سے توڑ ڈھونڈ لیا۔ اپنی بہو مہناز دانیال عزیز کو شکرگڑھ میں قومی اسمبلی کے حلقے سے ریاست کی جانب سے کھڑی بے شمار رکاوٹوں کے باوجود حیران کن اکثریت سے کامیاب کروادیا۔
2018ء کے انتخاب کے بعد دانیال عزیز شکرگڑھ ہی میں ٹکے رہنے کو ترجیح دیتے ہیں۔دریں اثناء اس کے والدین کے علاوہ ہماری ذہین ترین بہن کرن عزیز بھی اس دنیا سے رخصت ہوگئیں۔ دانیال ابھی ان کی جدائی کے صدمے سے سنبھل بھی نہیںپائے تھے تو بذاتِ خود ایک خونی حادثے کی زد میں آگئے۔اس حادثے میں ان کا زندہ بچ جانا ایک معجزہ ہے۔ ٹھوس وجوہات کی بنیاد پر 2018ء سے مسلسل اپنے حلقے یعنی شکر گڑھ تک محدود ہوئے دانیال عزیز عوامی رائے جانچنے کا بہترین پیمانہ ہیں۔ بہتر یہی تھا کہ لندن سے لوٹ کر نواز شریف انہیں اپنے ہاں بلواکر تنہائی میں ہوئی چند ملاقاتوں کے ذریعے خلق خدا میں مہنگائی کی وجہ سے عوام میں مسلم لگ (نون) کے خلاف ابلتے غصے کا ادراک کرتے اور اس کا توڑ ڈھونڈتی انتخابی حکمت عملی تشکیل دیتے۔ یہ مگر ہوا نہیں اور میری ناقص رائے میں دانیال عزیز کا مسلم لیگ (نون) سے جدائی کا سفر شروع ہوچکا ہے۔احسن اقبال ممکنہ جدائی کا محض ’’بہانہ‘‘ہی ثابت ہوں گے۔
(بشکریہ: روزنامہ نوائے وقت)
فیس بک کمینٹ