عبید اللہ علیم کی محبتیں جب خیال وخواب ہوچکیں تو اسے لہو میں وحشتیں ناچنا نظر آنا شروع ہوگئیں۔ ’’لہو میں ناچتی وحشتوں‘‘ کا تصورکئی بار اس مطلع والی غزل کو سنتے ہوئے دھیان میں لانے کی کوشش کی۔ ہر مرتبہ ناکام رہا۔دوش شاعر کے سرپر ڈال دیا کہ اس سے بات نہیں بنی۔ منگل کی سہ پہر سے مگر میں نے ’’لہو میں ناچتی وحشت‘‘ کو دریافت کرلیا ہے۔انسانیت ہمارے ہاں خیال وخواب ہوچکی ہیں۔اندھی نفرت اور عقیدت پر مبنی ایک سیاسی تقسیم ہے جس نے تمام فریقین کو وحشی بنارکھا ہے،
بیگم کلثوم نواز شریف کے انتقال کی خبر آئی تو ٹی وی والوں نے تبصرے کے لئے رابطہ کیا۔ گفتگو کرتے ہوئے نہایت خلوص واحترام سے میں نے یہ تجویز پیش کردی کہ عمران خان صاحب کی حکومت ان کے میاں،بیٹی اور داماد کے لئے ازخود چند روز کے لئے پیرول پر رہائی کا بندوبست کردے۔ اس بندوبست کے لئے حکومت کا ازخود اٹھایا قدم ہمارے معاشرے میں وحشیانہ حد تک بڑھتی تقسیم کو ختم نہ سہی مگر اس کی حدت کو کم کرنے میں کافی مددگار ثابت ہوسکتا ہے۔ بعدازاں یہ تجویز میں نے ایک ٹویٹ کی صورت بھی لکھ دی۔
میری تجویزکے منظر پر آتے ہی گالیوں اور طعنوں کا لاوا پھٹ پڑا۔ اصلی سے کہیں زیادہ جعلی ناموں سے بنائے اکاؤنٹس نے مجھ جیسے ’’بدکار اور لفافہ‘‘ صحافی کو یہ یاد دلانے کی کوشش شروع کردی کہ قانون سب کے لئے برابر ہوتا ہے۔ نواز شریف اور ان کا خاندان قومی دولت لوٹنے کا مجرم ہے۔ ان کے لئے ہمدردی کے جذبات پیدا کرنے والے مجھ ایسے سہولت کار یہ بتائیں کہ جیلوں میں موجود ہر قیدی بھی کیا اپنے کسی قریبی عزیز کے جنازے میں شرکت کا حقدار ہوتا ہے۔ صرف نواز شریف کے ساتھ خصوصی سلوک کیوں؟
میں نے بہت احترام سے انگریز کے دور سے متعارف کروایا ’’جیل مینوئیل‘‘ یاد دلوا دیا۔ اسے آخری بار غازی ضیاء الحق شہید کے اسلامی دور حکمرانی کے ابتدائی ایام میں مزید بہتر بنایا گیا تھا۔ اس کی شق 554-Bکے تحت صوبائی حکومت ہی نہیں ایک عام ڈی سی او بھی اس بات کا مجاز ہے کہ اگر کسی قیدی کا کوئی قریبی عزیز فوت ہوجائے تو اس کی تدفین میں شرکت کے لئے اسے پیرول پر رہا کرنے کا حکم جاری کردے۔
مجھے مغلظات کا نشانہ بنانے والے کسی ایک صاحبِ ایمان نے لیکن مذکورہ شق کو دیکھنے کی زحمت ہی گوارہ نہ کی۔ قانون کی حکمرانی اور اسے سب کے لئے برابر ہونے کا تذکرہ کرتے رہے۔ ایسے لوگوں کی اکثریت کا تعلق اس جماعت سے تھا جس کے سربراہ کو پاکستان کی اعلیٰ ترین عدالت صادق وامین ٹھہراچکی ہے۔ 22 برسوں کی مسلسل مشقت کے بعد یہ جماعت اب حکمران جماعت بن گئی ہے۔ اپنے عہدے کا حلف اٹھاتے ہی وزیر اعظم نے پاکستان کو مدینہ جیسی ریاست بنانے کا وعدہ کیا ہے۔ خدا انہیں اپنے اس مقصد میں کامیاب کرے۔ ان کے نامزد کردہ ڈاکٹر عارف علوی نے تاہم اسلامی جمہوریہ پاکستان کا صدر منتخب ہوتے ہی یہ دریافت کرلیا کہ ہمارا آئین انہیں کسی بھی نوعیت کے مقدمات کے حوالے سے عدالتوں میں حاضری سے ’’استثناء‘‘ مہیا کرتا ہے۔
موصوف پر 2014کے دھرنے کے دوران پاکستان ٹیلی وژن پر قبضہ کرکے اس کی نشریات میں تعطل ڈالنے والے گروہ کی معاونت کا الزام ہے۔ یہ الزام قطعاََ جھوٹا اور بے بنیاد ہوگا۔ فیصلہ اس ضمن میں لیکن عدالت ہی نے کرنا ہے اور اب صدر عارف علوی آئین پاکستان کے ذریعے اپنے عہدے کو عطا ہوئی طاقت کے باعث کسی عدالت کو جوابدہ نہیں رہے۔
ریاستِ مدینہ کے خلفائے راشدین کو ایسا اختیار ہرگز حاصل نہیں تھا۔ ان میں سے کم از کم دو قاضیوں کے سامنے پیش ہوئے اور تاریخ بنائی۔ وزیر اعظم عمران خان صاحب کو بھی ا پنے صدر کی طرح عدالتی حاضری سے استثناء مل چکا ہے۔ قانون ان دوکے مداحین کی دانست میں لیکن اب بھی سب کے لئے برابر ہے۔ نواز شریف ایک سزا یافتہ مجرم ہیں۔ انہیں اپنی اہلیہ کی تدفین میں شرکت کے حق سے محروم رہنا ہوگا۔
’’حق‘‘ کا لفظ میں نے جان بوجھ کر ’’قانون سب کے لئے برابر ہے‘‘ کی دہائی مچانے والوں کی تسلی کے لئے استعمال کیا ہے۔Pakistan Prisons Rules 1978بھی ایک قانون ہے۔اس کی شق نمبر554-Bہے اور یہ کسی سزا یافتہ قیدی کو اپنے قریب ترین عزیز کی تدفین میں شرکت کا ’’حق‘‘ فراہم کرتی ہے۔ میں نے فقط اس ’’حق‘‘ کا تذکرہ کیا تھا اور نواز شریف کے سیاسی مخالفین کے لہو میں وحشت ناچنا شروع ہوگئی۔
یہ الگ بات ہے کہ منگل کی رات کے آخری حصے میں مدینہ جیسی ریاست بناتے حکمرانوں کو بھی بالآخر یہ قانون یاد آگیا۔ بہت لیت ولعل کے بعد نواز شریف،مریم نواز اور کیپٹن صفدر کو پیرول پر رہا کرنا پڑا۔ اس رہائی کو یقینی بنانے کے لئے شہباز شریف نے کون کون سے دروازے کھٹکھٹائے اس کا ذکر وہ خود ہی کردیں تو بہتر ہوگا۔ زیادہ مناسب اگرچہ یہ ہوتا کہ شہباز صاحب چیف سیکرٹری پنجاب کے نام نواز شریف کے لئے پیرول پر رہائی کی درخواست لکھتے اور وہ افسر بغیر کسی سے اجازت کا انتظار کئے پاکستان کے آئین و قانون کے مطابق خود کو میسر اختیار کا استعمال کرلیتا۔ ضابطے کی عام کارروائی کے ذریعے نواز شریف کی اس موقعہ پر رہائی ہوجاتی تو یقین آجاتا کہ وطنِ عزیز میں صادق وامین کے وزیر اعظم بن جانے کے بعد قانون سب کے لئے برابر ہوگیا ہے۔ ریاستِ پاکستان مدینہ جیسی ریاست بننے کی جانب گامزن ہے۔
(بشکریہ: روزنامہ نوائے وقت)
فیس بک کمینٹ