جنت، دوزخ، اچھائی برائی کا ردعمل ہے۔ ہم اپنے عمل سے اپنے لئے نتیجہ متعین کرتے ہیں فرشتے تو صرف ڈائری لکھنے میں منہمک ہیں مگر ہماری ذات کے اندر بیٹھا ہوا جج ہمیشہ انصاف کرتا ہے۔ جونہی ہم سے کوئی گناہ سرزد ہوا دل نے اسے گِلٹ بنا کر دماغ کی شریانوں میں رکھ دیا تا کہ وہ ہر لمحہ ہمیں دوزخ کا احساس دلاتا رہے۔ اسی طرح نیک عمل کے احساسات جنت کی شادمانی اور فرحت کی مانند ہیں۔ یوں قدرت نے ہمیں اپنے اعمال سے دنیا کو جنت یا دوزخ بنانے کا اختیار بخشا ہے۔ اُس دن دنیا جنت بن جائے گی جب ہر فرد اپنے حصے کا کام کرنا شروع کر دے گا اور اپنے فرض کو ایمان کا حصہ بنا لے گا۔ ظاہر ہے جب فرض کی اہمیت اور اپنے حصے کی ذمہ داری تسلیم کر لی جائے گی تو کام بھی مثبت ہو گا۔ مسئلہ یہ ہے کہ ہم حقوق و فرائض کی بات کرتے ہیں یعنی پہلے حق طلب کرنا اور پھر فرض ادا کرنا۔ یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے مزدوری پہلے طلب کی جائے اور کام بعد میں۔ فرض کی حیثیت مقدم ہے۔ فرض کی ادائیگی ہی حقوق کی ضمانت بنتی ہے۔ ہمارا فرض کسی اور کا حق ہوتا ہے۔ اس طرح ہر کسی کا فرض کو اہمیت دینا دوسروں کے حقوق کی طرف پیش قدمی ہے۔ شکر ہے قوم کسی ایک مسئلے پر تو متفق اور متحرک ہوئی۔ سب کو احساس ہو گیا کہ زندہ رہنے کے لئے درخت لگانا ضروری ہے لیکن اب اس ضرورت کو فرض کی طرح ادا کرنے کی ضرورت ہے۔ ذرا سوچیں آج تک کتنے درختوں نے ہمارے لئے آکسیجن کی سپلائی کی ذمہ داری ادا کی۔ یہ وہ خوراک ہے جو ہمیں چوبیس گھنٹے درکار رہے۔ چند لمحوں کی عدم فراہمی ہمارے وجود کو راہِ عدم کا مسافر بنا سکتی ہے۔ درخت ہر لمحہ اپنی ڈیوٹی پر چوکس کھڑے ہیں، نہ سوتے ہیں نہ آرام کرتے ہیں، دن اور رات کے وظائف جدا جدا ہیں، ان کے کام میں کوئی وقفہ نہیں لیکن ہم میں سے اکثریت انہیں نظر بھر کر دیکھتی بھی نہیں، ان کی خوبصورتی کو سراہتی ہے نہ ان کے احسان کا تذکرہ کرتی ہے۔ جنگلوں پہاڑوں اور ویرانوں میں لگے درختوں کو فطرت خود پالیتی ہے۔ موسمی بارش ان کی پیاس بجھاتی ہے مگر آج ہم صرف ان درختوں پر انحصار کر کے زندہ نہیں رہ سکتے اب ہمیں پوری دھرتی کو سرسبز بنانا ہے۔ سوچنے کی بات ہے آج تک ہم نے کتنے درخت لگائے؟ ہر سال بہار اور ساون کے موسم میں ہم میں سے کتنے لوگوں نے اپنے اس فرض کو محسوس کیا اور نہ صرف خود درخت لگائے بلکہ دوسروں کو بھی اس طرف ترغیب دی۔ اکثریت کا جواب نفی میں ہو گا اس لئے کہ ہم نے کبھی بھی درخت لگانے کو کام سمجھا نہ ترجیح بنایا۔ کتنی حیرت کی بات ہے کہ ہم ہر لمحہ سانس لیتے ہیں اور ہر لمحہ آکسیجن ہمیں درختوں کی اہمیت سے روشناس کرتی ہے لیکن پھر بھی ہم درخت لگانے کی طرف توجہ نہیں کرتے۔
پاکستان میں اس وقت 3.4فیصد رقبے پر درخت موجود ہیں اور یہ تناسب بھی ایک ارب درخت لگانے کے بعد حاصل ہوا جب کہ ماہرین کے مطابق 25فیصد حصے پر درختوں کا ہونا لازمی ہے۔ اس حساب سے ہمیں بیس بلین مزید درخت لگانے کی ضرورت ہے اور یہ اس صورت ممکن ہو گا جب ہم اگلے کئی سال یہ پریکٹس جاری رکھیں گے۔ اگر ہم نے مطلوبہ تعداد میں درخت اُگا لئے تو اس سے مٹی کا کٹاؤ کم ہو جائے گا اور وہ مٹی جو ہر سال بارشوں کی وجہ سے بہہ کر سمندر کی سطح کو بلند کرتی رہتی ہے اس سے نجات مل جائے گی۔ پہاڑوں پر درخت لگانے سے لینڈ سلائیڈنگ کم ہو جائے گی۔ پانچ سینٹی گریڈز تک درجہ حرارت نیچے گر جائے گا اور ایک طرح سے ہمارا موسم شدت سے اعتدال کی طرف بڑھے گا۔ کے پی خاصی تعداد میں درخت لگا کر سرفہرست ہے۔ وسطی پنجاب میں یہ مہم زوروں پر ہے۔ کشمیر، بلتستان اور سندھ میں بھی کچھ کام ہو رہا ہے جب کہ کچے کے علاقے اور بلوچستان میں زیادہ سے زیادہ درخت لگانے کے لئے اقدامات کی ضرورت ہے۔ درخت فطرت کا وہ عطیہ ہیں جو زندگی کو خوبصورت بناتے ہیں۔ درخت نہ ہوں تو آسمان بھی اچھا نہ لگے، سورج کے درمیان پردہ نہ رہے تو وہ ہمیں جلا کر بھسم کر دے، یہ زمین پر موجود نہ ہوں تو خالی پن کا احساس سوگواری کا باعث بنے، ان سے صرف ہریالی اور آکسیجن ہی حاصل نہیں کی جاتی بلکہ ان کے پتے مختلف بیماریوں میں استعمال ہوتے ہیں، خود ان کا وجود ماحول میں قوتِ مدافعت کو بڑھاتا اور انسان کو بیماریوں سے بچاتا ہے۔ ان کا پھل غذائی ضروریات پوری کرتا ہے۔ درخت لگانا سنت بھی ہے اور فرض بھی۔ ہمارے ہاں درخت کاٹنے کا رواج رہا ہے لیکن جتنی تعداد میں درخت کاٹے گئے اتنی تعداد میں لگائے نہ گئے جس کی وجہ سے ہمیں موسم کی شدت بھی جھیلنی پڑی اور پانی کی کمی کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ ایک پالیسی بنانے کی ضرورت ہے جس کے مطابق ہر سال جتنی تعداد میں تیار درختوں کو کاٹا جائے اس سے دگنی تعداد میں وہیں درختوں کی کاشت بھی ممکن بنائی جائے۔ پاکستان کو پانی کی جس کمی کا سامنا ہے وہ دن بدن گمبھیرصورت حال اختیار کرتی جا رہی ہے۔ پانی کی کمی کو بھی درختوں سے پورا کیا جا سکتا ہے۔ جس جگہ درخت ہوں گے وہاں بارش ہو گی۔ اگر پورے پاکستان میں درختوں کا جال بچھا دیا جائے تو نہ صرف بارش سے پانی کی کمی دور کی جاسکتی ہے بلکہ زمینوں کو سیراب کیا جا سکتا ہے، زیادہ فصل حاصل کی جاسکتی ہے اور موسم کو خوشگوار بنایا جا سکتا ہے۔ اس وقت سوچنے کی نہیں عمل کرنے کی ضرورت ہے۔ میں نے اپنے حصے کا درخت لگا دیا ہے اور میرے بچے اور دیگر خاندان بھی یہ فرض ادا کر چکا ہے۔ آپ بتائیے کیا آپ نے یہ فریضہ سرانجام دے دیا ہے؟ اب بات صرف ہماری ذات تک نہیں رہی بلکہ ہمارے اردگرد موجود تمام لوگوں کو اس جانب راغب کرنے تک آ پہنچی ہے۔ اپنے بچوں کو ہم نے صحت مند ماحول فراہم کرنے کے لئے انہیں زندگی کے بنیادی اصولوں سے روشناس کرانا ہے، انہیں درختوں کی اہمیت سمجھانی ہے، ان کی دیکھ بھال کا سلیقہ سکھانا ہے، فطرت سے جڑت اور محبت پیدا کرنی ہے۔ یہ صرف اسی صورت ممکن ہے جب وہ خود درخت لگائیں گے اور انہیں اپنی ذمہ داری کا احساس ہو گا۔ آئیے درخت لگائیں اور درخت کی طرح زندگی جینا سیکھیں۔ درخت کی زندگی ہمیں خدمتِ خلق کا سبق دیتی ہے۔ فطرت کی ہر شے خود کار نظام کے تحت خدمتِ خلق کا رجحان رکھتی ہے۔ آخر انسان اپنے اندر نیکی کے خود کار نظام کو کب فعال کرے گا؟
(بشکریہ: روزنامہ جنگ)
فیس بک کمینٹ