جس وقت وزیر اعظم کے دونوں بیٹے لندن سے تمام غیر معمولی پروٹوکول اور وی وی آئی پی سیکورٹی کے ساتھ بنی گالہ پدھار رہے تھے تو اس وقت لندن کے اسپتال میں بیگم کلثوم نواز کی آخری سانسیں ان کے قفس عنصر ی سے پرواز کر رہی ہونگی۔ پاکستان کی تین بار سابق خاتون اول نے ایک طرح کی بے وطنی اور کینسر جیسی بیماری میں اس دنیا کو چھوڑا جب انکے میاں نواز شریف (انکے بائوجی) اور بیٹی مریم نواز اپنے ملک میں پابند سلاسل ہیں۔ شاید انکو مریم کی گرفتاری اور سزا کا نہیں بتایا گیا تھا۔ ماہ محرم میں وقت کے بااختیار اور طاقتوروں کی طرف سے ایک خاندان سے اس طرح کا سلوک اسلامی اور ملکی تاریخ کی بہت ساری زیادتیاں یاد دلاتا ہے۔ مجھے نہیں معلوم کہ پنجاب میں عام پنجابی شریف خاندان سے اس طرح کے سلوک پر کتنا جذباتی ہوتا ہے یا اس کا دل کتنا پسیجتا ہے لیکن ہم سندھی ظاہر ہے کہ اس طرح کے واقعات پر اسی کا ساتھ دیتے ہیں جو سڑک پرخالی ہاتھوں بے بس اور بے سراپا پٹ رہا ہوتا ہے اور اسوقت وہ نواز شریف اور اسکا خاندان ہے۔ بیگم کلثوم نواز کاانتقال طبعی موت ہوتے ہوئے بھی جن حالات و حقائق میں ہوا ہے وہ تاریخ میں سیاسی موت ہی کہلائے گا بالکل ایسے جیسے بیگم بھٹو کے ساتھ اس ملک میں ہونے والا سلوک۔ اگرچہ بیگم بھٹو اور بیگم کلثوم نواز کے حالات اور زندگیوں چاہے شخصیات میں بہت سا فرق ہے، شاید زمین و آسمان کا لیکن ایک بات واضح ہے کہ جس نے بھی اس ملک کے چوہدریوں کے ساتھ متھا لایا ہے اس کو بہت بڑی قیمت ادا کرنا پڑی ہے وہی شاعر والی بات کہ
مٹی کی محبت میں ہم آشفتہ سروں نے
وہ قرض اتارے ہیں کہ واجب بھی نہیں تھے
مجھے یاد ہے بیگم کلثوم نواز کا پہلا کھڑاک جب لاہور کے رستم زماں خاندان کی یہ لڑکی ملک کے اصلی اور وڈے پہلوان (بدمعاشوں کو بھی پہلوان کہتے ہیں) فوجی آمر پرویز مشرف کے سامنے ڈٹ گئی تھی۔ جب اس کا میاں نواز شریف جیل میں اور پورا خاندان عتاب میں تھا۔ سارے گھر کے مرد یا جیل میں تھے یا جلاوطنی میں تو اسوقت جلوس کی قیادت کرنے لاہور کے شاہراہ پر یہ نکلی تھی۔پولیس نے کرین لفٹر کے ذریعے اس کی کار کو جس میں بیگم کلثوم نواز سوار تھیں کئی گھنٹے اٹھائے رکھا تھا۔ کئی گھنٹوں تک مسلم لیگ نون کے کارکن اور لیڈر آمنے سامنے تھے۔ اسکا نتیجہ یہ نکلا تھا کہ جب سابق صدر امریکہ بل کلنٹن برصغیر کے دورے پر جاتے ہوئے چند گھنٹوں کو پاکستان رکا تھا تو اس نے غیر نمائندہ فوجی آمر پرویز مشرف سے براہ راست بات کرنے سے بھی اجتناب برتا تھا۔ یہ اور بات ہے اسی دورے سے چند گھنٹے پہلے نواز شریف کی معزول کابینہ کےگم شدہ یا نظر بند اسوقت کے ساتھی جن میں چوہدری نثار اور مشاہد حسین بھی شامل تھے رہا کردئیے گئے تھے۔ مشرف حکومت کے ہاتھوں رانا ثناءاللہ کو ماورائے قانون کوڑے مارے جانے کے واقعے نے مشرف اور اسکی آمرانہ حکومت کو دنیا بھر میں کافی رسوا کیا تھا۔ میں سوچ رہا ہوں اگر گیارہ ستمبر کی دہشت گردی نہ ہوتی تو مشرف جیسے پھر کیا بیچ رہے ہوتے؟
نواز شریف کے دفاع کے ایک وکیل رعد کو قتل کردیا گیا،اعجاز بٹالوی نے کن وجوہات پر کیس نہیں لڑا! سندھ سے تعلق رکھنے والے جج نے تمام دباؤکے باوجود نواز شریف کو سزائے موت نہیں سنائی۔
نواز شریف کے تین بار حکومتیں چلانے کے انداز یا اسٹائل آف گورننس پر ہزاروں اختلافات اور اعتراضات کیے جا سکتے ہیں لیکن ایک بات کوئی مانے نہ مانے عتاب ان پر سویلین بالادستی پر بضد ہونے پر ہوا ہے۔ یہ قصیدہ نہیں یہ نوحہ ہے۔نوحہ اس ملک میں جمہوریت اور جمہوری اقدار کے جنازے نکالنے کا۔ مستقبل اس ملک میں نہ عمران خان کا ہے نہ زرداری کا مستقبل مریم نواز شریف کا ہے۔
نہ جانے کیوں اکثر سندھیوں کو مظلومیت اپیل کرتی ہے۔ مریم نواز شریف کی اپنی والدہ بیگم کلثوم نواز سےاسپتال سے وطن واپسی اور پھر گرفتاری پرسندھی اور شاعر میرے دوست جن کا نام بھی کوی ہے نے سندھی میں نظم لکھی تھی جس کا عنوان تھا ’’اک بیٹی کا ماں کو الوداع‘‘۔ سندھی شاعر کوی کی اس نظم کا میں نے پنجابی ترجمہ کیا تھا جو کچھ یوں ہے:
’’ہک دھی دا ماں نوں وداع‘‘
دل تاں کہندا بہت
تیرے پیراں دے نیڑے
انج میں بیٹھی رہواں
جے توں نیندروں اٹھیں
میرے ول جو تکیں
میں تیرے پیار توں
انج صدقے تھیواں
دل تاں کہندا بہت
تیرے کول نیانے دناں ورگے میں
نال تیرے مگر لیٹ جاواں وے ماں
دل تاں کہندا بہت
مگر کی کراں
دیس دے ویر مینوں پئے سد دے پئے
اوہ زنجیر مینوں پئے سد دے پئے
ہتھکڑیاں پانویں
کلائیاں دے وچ
چھنکدیاں رہون
پیر اوہ بزدلاں دے
ذرا تے کنبن
چنگا او میری ماں پیاری او ماں
میں پئی چلدی آں
میں پئی جاندی آں ہن
دیس دے ویر میرے پئے سد دے پئے
اہ زنجیر مینوں پئے سد دے پئے
اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ نوے کی دہائی میں نواز شریف کی دونوں حکومتوں میں بینظیر بھٹو اور اسکے محض شوہر ہونے کے ناتے آصف علی زرداری سے جو سلوک ہوا وہ ناقابل معافی اور ناقابل فراموش جورو ستم کی داستانیں ہیں۔ پاکستانی ریاست نے انکے بچوں کو انکی آنکھوں کے سامنے بڑا ہوتا دیکھنے سے روکےر کھا۔ بالکل ایسےجس طرح بینظیر حکومت میں نواز مسلم لیگ اور انکے خاندان جس میں انکے والد میاں شریف کی گرفتاری بھی شامل ہے ،سے سلوک قابل مذمت تھا۔ لیکن انیس سو نناوے والا نواز شریف اور دوہزار پانچ والی بینظیر بھٹو انیس سو نوے سے مختلف تھے۔ یہ ان کو مفت مشورہ یونانی سوشلسٹ پارٹی کے سیکرٹری جنرل نے دیا تھا کہ مشرف فوجی حکومت کے خلاف ماضی کی ناراضیاں شکوے بھلا کر آپس میں اتحاد کریں۔ اس مشورے پر عمل کرتے ہی بینظیر آصف علی زرداری کے ہمراہ جدہ میں سرور محل میں نواز شریف سے ملنے گئی تھی جہاں شہباز شریف، بیگم کلثوم نواز اور مریم نواز موجود تھے۔ دوسرا دور جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں لندن میں ہوا جہاں سی او ڈی (چارٹر آف ڈیموکریسی) معاہدہ ہوا تھا۔ لیکن یہ ہو نہ سکا اب یہ عالم ہے۔ ابھی اس معاہدے پر دستخطوں کی سیاہی بھی خشک نہ ہوئی تھی کہ بینظیر بھٹو جنرل پرویز مشرف سےابوظہبی میں خفیہ مذاکرات کے دور چلاتی رہیں ۔ جس طرح بیگم کلثوم نواز کی کار ابھی پولیس لفٹرپر فضا میں معلق تھی کہ شریفوں کے اسٹیبلشمنٹ سے جدہ جلاوطنی پر مذاکرات ہونا ہی چاہتے تھے۔
مگر اپنے تیسرے دور حکومت میں پرویز مشرف پر آئین سے غداری کا مقدمہ اور اس پر انکا بیانیہ ہی اصل جرم بن گیا۔ لیکن نواز شریف اب کھونے کو تمہارے پاس رہ کیا گیا ہے؟ فتح آخر عوام کی ہونی ہے۔ وہ بھی پنجاب کے عوام کی۔ کس طرح؟ یہ اک الگ قصہ ہے۔
(بشکریہ: روزنامہ جنگ)
فیس بک کمینٹ