اعزاز سید ایک چیتا رپورٹر ہے۔ بہت خلوص سے اپنے ساتھیوں کو یہ بتاتا ہے کہ میں اس کے استادوں میں شامل ہوں۔ایسی انکساری آج کے نوجوان صحافیوں میں بہت کم دیکھنے کو ملتی ہے۔ خدا اسے جزادے مگر اس کے ایک حالیہ کالم نے مجھے دل پر نقش ہوئے چند داغ یاد دلادئیے
کالم اس کا انٹیلی جنس بیورو کے بار ے میں تھا۔ عرف عام میں ہم اسے IBکہتے ہیں۔ اعزاز کا دعویٰ ہے کہ عمران خان صاحب کو جب 25جولائی 2018کے روز ہوئے انتخابات کے نتائج آجانے کے بعد اپنے وزیر اعظم ہوجانے کا یقین ہوگیا تو آئی بی کے سربراہ کو طلب کیا گیا۔ مذکورہ افسر سے یہ جاننے کی کوشش ہوئی کہ تحریک انصاف کے دئیے دھرنے کے دوران اس کے ادارے نے کونسے صحافیوں کو عمران خان صاحب کی کردار کشی وغیرہ کے لئے رقوم فراہم کی تھیں۔افسرِ مذکورہ نے ایسا کوئی واقعہ نہ ہونے پر اصرار کیا۔
اعزاز نے یہ تو نہیں لکھا کہ وزیر اعظم کو افسرکے دعوے پر اعتبار آیا یا نہیں۔ البتہ یہ خبر ضروردے دی کہ آئی بی کو اب اپنے وسائل سیاست دانوں کی کرپشن کے بارے میں تحقیقات کے لئے مختص کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ دہشت گردوں پر نگاہ رکھنا اس کی ذمہ داری نہیں رہی۔
آئی بی کو کرپشن کے معاملات پر توجہ دینے کی ہدایت والی خبر مجھے اپنے تئیں بھی کافی معتبر ذرائع سے چند روز قبل ملی تھی۔ ایک ریٹائرڈ رپورٹر ہوتے ہوئے میں نے اسے نظرانداز کیا۔ ویسے بھی آخری عمر میں کونے میں بیٹھ کر دہی کھاتا اور خود کو حکمرانوں کے غضب سے بچانے کی ہر ممکن کوشش کرتا ہوں۔ ”حساس“ معاملات میں خواہ مخواہ گھسنے کی کوشش نہیں کرتا۔
اعزاز سید کے کالم سے تھوڑا پریشان اور زیادہ ناراض اس وجہ سے ہوا کہ اس کے اختتام پر فریاد کی گئی تھی کہ وزیر اعظم آئی بی کو ان تمام صحافیوں کی فہرست کے اجراءکا حکم دیں جسے یہ ادارہ خفیہ فنڈ سے نوازتا رہا ہے۔
خفیہ فنڈز کا ذکر ہمارے ہاں کئی برسوں سے مسلسل ہوئے چلا جارہا ہے۔کوئی غیر نہیں ہم صحافی بذاتِ خود اس کا تذکرہ عموماََ اپنے ہی ایسے ساتھیوں کو بدنام کرنے یا ان پر گند اچھالنے کے لئے استعمال کرتے ہیں جو ہمیں کسی بھی وجہ سے ناپسند ہوتے ہیں۔ اصولوں سے زیادہ ایسے معاملات میں بااثر حسد کا جذبہ ہوتا ہے۔ بسا اوقات کوئی صحافی خود کو پاک صاف ثابت کرنے کے لئے بھی ان فنڈز کا ذکر کرتا ہے۔
1975سے صحافت کے علاوہ میرا کوئی اور ذریعہ معاش نہیں ہے۔ اس فنڈ کا ذکر لہذا مسلسل سنا۔ بذاتہی اس کے وجود کے بارے میں آگہی 1985میں ہوئی۔ غیر جماعتی انتخابات کے بعد جونیجو حکومت بنی تو اس کے وزیر خزانہ ورلڈ بنک کے لاڈلے اور مڈل کلاس سے اُٹھے بہت محنتی اور ذہین مانے ڈاکٹر محبوب الحق مرحوم لگائے گئے۔ انہوں نے پہلا بجٹ پیش کیا۔ اس بجٹ کے بارے میں "Positive” باتیں لکھنے کے لئے چند صحافیوں کو سات ہزار روپے فی کس والے چیک جاری ہوئے۔ ان چیکوں کی فہرست میں نے ایک بار وزارتِ خزانہ کے ایک افسر کی میز پر رکھی دیکھ کر اچک لی۔ مذکورہ افسر گورنمنٹ کالج لاہور سے میرا دوست تھا۔ میری حرکت پر تلملاتا رہا۔ میں نے اس سے وعدہ کیا کہ یہ فائل دیکھ کر اس میں لکھے ناموں کا تذکرہ ذاتی محفلوں میں بھی نہیں کروںگا۔ وہ مطمئن ہوگیا۔ میری حیرانی کی تسلی کے لئے اس نے یہ انکشاف بھی کیا کہ فیلڈ مارشل ایوب خان کے سنہری دور سے وزارتِ خزانہ اپنے ہر بجٹ کو منظرعام پر لانے سے قبل چند صحافیوں کے لئے رقوم مختص کرتی ہے تاکہ وہ پیش کردہ بجٹ کے بارے میں اچھی باتیں لکھیں۔ جو فائل دیکھ کر میں حیران ہورہا تھا وہ غیر معمولی شے نہیں ہے۔
ڈاکٹر محبوب الحق مرحوم میری ساس اور سسر کے ساتھ گورنمنٹ کالج میں پڑھے تھے۔ میں اس رشتے کی وجہ سے ان سے کافی لبرٹی لے لیتا تھا۔ 1988 میں ان سے گلہ کیا کہ مجھے ان کی جانب سے پیش کردہ بجٹ کے بارے میں ”اچھی باتیں“ لکھنے کی بذریعہ چیک ترغیب کیوں نہیں دی گئی تھی۔ ایمان داری کی بات ہے کہ میرے پھکڑپن سے ان کا چہرہ سرخ ہوگیا۔ بہت غصے میں کہا کہ اگر تم ”ایسے“ ہوتے تو میں تمہیں چیک دینے کے بجائے تھپڑوں سے نوازتا۔ اس کے بعد کسی سے چیک ملے نہ تھپڑ۔
1989کے نومبر میں لیکن محترمہ بے نظیر بھٹو کی پہلی حکومت کے دوران ان کے معاونِ خصوصی نصیر اللہ بابر مرحوم نے ایک روز اپنے دفتر ضرور طلب کرلیا۔ وزارتِ اطلاعات کی جانب سے ہر ماہ وزیر اعظم کو صحافیوں کی ایک فہرست پیش کی جاتی تھی۔ اس میں یہ اطلاع دی جاتی کہ کونسے صحافی کو نرم مزاج رکھنے کے لئے کتنی رقم دی گئی ہے۔ وزیر اعظم اس فہرست پر نگاہ ڈال کر اسے ضائع کر دیتیں۔
بابر صاحب پر محترمہ کو بے تحاشہ اعتماد تھا۔ ایسی فہرستیں ان سے پہلے بابر صاحب دیکھتے۔ اس ماہ جو فہرست پیش ہوئی اس میں میرا نام بھی شامل تھا۔ بابر صاحب نے اس کے گرد سرخ دائرہ لگایا اور اسے وزیر اعظم کے سامنے رکھ دیا۔ محترمہ نے وہ فہرست دیکھی تو میرے نام کے گرد بنائے دائرے کے ساتھ تیر لگا کر سبز سیاہی سے انگریزی میں ایک فقرہ لکھا جس کا مفہوم تھا کہ اگر نصرت نے پیسے لینا شروع کر دئیے ہیں تو اتنے کم کیوں۔ واضح رہے کہ میرے کھاتے میں اس ماہ دس ہزار روپے ڈالے گئے تھے۔ میں ان دنوں The Nation کے اسلام آباد میں بیوروچیف تھا۔ وہاں میری ساتھی رپورٹر مریانہ بابر صاحب کی بہت چہیتی اور قریبی کزن تھیں۔ بابر صاحب نے مریانہ کی وساطت سے مجھے اپنے دفتر بلایا اور کافی شرمندہ انداز میں وہ کاغذ میرے سامنے رکھ دیا۔ وہ رکھتے ہوئے انہوں نے آنکھیں چراتے ہوئے انگریزی میں یہ فقرہ بھی کہا کہ شاید شادی کے بعد تمہارا گزارہ مشکل سے ہورہا ہے۔ ایسے حالات آگئے ہیں تو وزارتِ اطلاعات سے رجوع کیوں کیا۔ تمہیں خبر ہے کہ وزیر اعظم تمہیں چھوٹے بھائیوں کی طرح لیتی ہیں۔ انہیں کافی برا لگا کہ تم نے حقیر دکھتی رقم کے حصول کے لئے وزارتِ اطلاعات رابطہ کیوں کیا۔
میں غصے سے پھٹ پڑا اور بابر صاحب کو حقیقت بتائی کہ گزشتہ ماہ کے آغاز میں ان دنوں کے سیکرٹری اطلاعات نے مجھے ٹیلی فون کیا اور یہ بتایاکہ تھائی لینڈ میں صحافیوں کا ایک بڑا کنونشن ہورہا ہے۔ اس میں پاکستان کی نمائندگی کے لئے مجھے جانا چاہیے۔ میں نے کہا کہ میں ایسے کنونشن میں صرف اس صورت جاؤں گا اگر میرا ادارہ یعنی The Nationمجھے اس کے لئے نامزد کرے۔ موصوف نے اطلاع دی کہ اس کنونشن میں شرکت کے لئے جسے بھیجا جائے گا اس کے سفر کے اخراجات وغیرہ حکومتِ پاکستان کو دینا ہیں۔ میں نے انکار کردیا۔ شاید سیکرٹری صاحب نے میرے انکار کو بھی اقرار بناکر میرے کھاتے میں اس سفر کے اخراجات ڈال دئیے جو اختیار کرنے کا میں نے فیصلہ ہی نہیں کیا تھا۔
بابر صاحب کو میرے کہے پر مکمل اعتبار تھا۔ فوراََ گرین فون اٹھاکر مذکورہ سیکرٹری صاحب کی کلاس لے لی۔ بعدازاں ایک تقریب میں وزیر اعظم مجھے دیکھ کر ایک طرف لے گئیں اور مذکورہ واقعہ پر شرمندگی کا اظہار کیا۔ وزارتِ اطلاعات سے خفیہ فنڈ کے امکانات میرے لئے اس کے بعد ہمیشہ کے لئے بند ہوگئے۔ سچی بات ہے مجھے اس عمر میں ایسے امکانات کھو دینے پر رائیگانی کا احساس ہوتا ہے۔ بہتی گنگا میں نہانے سے اجتناب کے بارے میں تاسف۔
بات مگر IBکی جانب سے صحافیوں کو خریدنے کی کہانی سے شروع ہوئی تھی۔ اس کے بارے میں یہ عرض کردوں کہ محترمہ بے نظیر بھٹو کے دونوں ادوار میں نور لغاری صاحب اس ادارے کے سربراہ رہے ہیں۔ وہ میرے والد کے قریبی دوستوں میں سے ایک تھے۔ ہفتے میں کم از کم دوبار میں بغیر اطلاع دئیے ان کے گھر چلاجاتا تھا۔ وہ میری جانب سے ”خبروں کی تلاش“ کا مذاق اڑاتے۔ زبردست کھانا کھلاتے اور کئی بار تحفے میں ملی کوئی ٹائی بھی میرے حوالے کر دیتے۔
”خبر“ نام کی شے مگر ان سے کبھی نصیب نہ ہوئی۔ میری ”مالی معاونت“ کا بھی انہوں نے کبھی سوچا ہی نہیں۔ اس کے باوجود 1994کے آغاز میں ایک فہرست جاری ہوئی جس میں ان صحافیوں کا تذکرہ ہوا جنہیں آئی بی نے مبینہ طور پر گاڑیاں فراہم کر رکھی تھیں۔ میرا نام بھی اس فہرست میں موجود تھا
میری خوش بختی کہ مذکورہ فہرست میں مرحوم مجید نظامی کا نام بھی ڈال دیا گیا تھا۔ ہم دونوں اس فہرست کو عدالت میں چیلنج کرنے کی تیاری کر رہے تھے کہ وزیراعظم کے دفتر سے ہم دونوں کے نام مذکورہ فہرست میں آنے پر ٹھوس معذرت بھری تردید آگئی۔ باقی ناموں کے بارے میں خاموشی اختیار ہوئی۔
سبق اس قصے سے یہ ملا کہ بسا اوقات آپ کے نام چند فہرستوں میں خواہ مخواہ ڈال دئیے جاتے ہیں۔ اعزاز سید کو ایسی ہی کسی فہرست سے محفوظ رہنے کی دُعا کرنا چاہیے۔
(بشکریہ: روزنامہ نوائے وقت)
فیس بک کمینٹ