کئی مہینوں سے آصف علی زرداری صاحب سے ٹیلی فون پر ہیلو ہائے بھی نہیں ہوئی۔ موصوف کا ذہن اگرچہ تنہائی میں ہوئی ملاقاتوں میں بھی پڑھنا بہت مشکل ہوتا ہے۔ان سے بے تکلفی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے جھلاکر تقاضہ کرنا پڑتا ہے کہ اپنی کہی بات کو وضاحت سے بیان کریں اور سیاسی اُفق پر جو مناظر ابھرتے دیکھ رہے ہیں ان کا منطقی جواز پیش کریں۔ ایسے سوال اٹھانے والوں کی ”ذہانت“ سے لطف اندوز ہوتی مسکراہٹ کے ساتھ مگر وہ غچہ دے جاتے ہیں۔
اتوار کی صبح اچانک خبر ملی کہ سابق صدر اسلام آباد کے پنج ستاری ہوٹل میں چند صحافیوں سے گفتگو کریں گے۔مجھے وہاں مدعو نہیں کیا گیا تھا۔ بغیر کسی رسمی دعوت کے منہ اٹھائے اگر وہاں پہنچ جاتا تو خوش دلی سے محفل میں بٹھالیا جاتا۔میرے اندر بیٹھا رپورٹر مگر کب کا مرکھپ چکا ۔ خبر کے معاملے میں جو دے اس کا بھلا اور جو نہ دے اس کا بھی بھلا والا رویہ اختیار کر چکا ہوں۔ ویسے بھی دورِ حاضر کی صحافت میں تجزیہ کار ہوئے صحافی کو ٹھوس معلومات کی ضرورت نہیں رہی تخیل کے گھوڑے دوڑاتے ہوئے کوئی ”وکھری گل“ ایجاد کرکے لوگوں کو حیران کرنا ہوتا ہے اور میں نوٹنکی کے اس دھندے میں نووارد ہوتے ہوئے بھی کچھ رونق لگا لیتا ہوں۔ رزق کا بندوبست ہوجاتا ہے۔
رات سونے سے قبل تھوڑی دیر کو ٹیلی وژن دیکھا تو اطلاع یہ ملی کہ صحافیوں کے ساتھ ہوئی گفتگو میں آصف علی زرداری نے اعلان کیا ہے کہ عمران خان صاحب سے حکومت نہیں چل رہی۔ حکومت نہ چلے تو ملک بھی کسی سمت کی طرف بڑھتا نظر نہیں آتا۔حزب مخالف کی تمام جماعتیں لہذا یکجا ہوکر قومی اسمبلی میں ایک قرارداد لائیں۔ اس قرارداد میں حکومت سے کیا مطالبہ ہو؟ اس کا جواب میسر نہیں تھا۔ اگرچہ سوال ذہن میں یہ بھی اٹھا کہ حکومتیں اسمبلی میں پیش ہوتی قراردادوں سے ہرگز پریشان نہیں ہوا کرتیں۔ وزیر اعظم کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک لائی جاتی ہے ۔ یہ تحریک اپنا ہدف حاصل نہ بھی کرسکے تو کچھ وقت کے لئے حکومت کو وختا ضرور ڈال دیتی ہے اور میری دانست میں فی الوقت عمران حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی گنجائش موجود نہیں ہے۔
فرض کیا اس تحریک کی کامیابی کے سو فیصد امکانات ہوں تب بھی تحریک عدم اعتماد کی بدولت نمودار ہوئے نئے وزیر اعظم کے لئے حکومت سنبھالنا تقریباََ ناممکن ہوجائے گا۔ ایسا کوئی نسخہ دور دور تک نظر نہیں آرہا جسے استعمال کیا جائے تو پاکستان کا معاشی بحران ٹل جائے۔ افغانستان اور بھارت سے تعلقات تھوڑے نارمل ہوجائیں اور ٹرمپ انتظامیہ کی تسلی کا بندوبست بھی ہوجائے۔ ملک پر نازل ہوئے اس کڑے وقت کا عمران خان صاحب ہی کو سامنا کرنا ہے۔ اس ضمن میں انہیں دیگر سیاستدانوں کی معاونت ہر صورت درکار ہے۔ اپنے مخالفین کو لیکن وہ ”جرائم پیشہ افراد کا گروہ“ قرار دیتے ہیں جسے احتساب کی چکی سے گزرنا ہوگا۔ جیلوں میں بند ہوکر اپنے گناہوں کا کفارہ ادا کرنا ہوگا۔ دریں اثناءقوم سے عمران خان صاحب کی نیک نیتی پر بھروسہ کرنے کی تلقین ہورہی ہے۔آصف علی زرداری اس ضمن میں انتظار کرنے کو تیار کیوں نہیں ہورہے اس کی وجہ مجھے سمجھ نہیں آئی۔
دوکو دو سے ملاکر چار بنانے والی منطق استعمال ہو تو بہت رعونت سے کہا جاسکتا ہے کہ آصف علی زرداری اپنے خلاف ایف آئی اے کی جانب سے ہوئی تحقیقات سے گھبراگئے ہیں۔ فالودہ بیچنے والوں کے نام بنائے اکاﺅنٹس کی نشان دہی نے انہیں پریشان کردیا ہے۔میں اس خیال سے ہرگز اتفاق نہیں کرتا۔ آصف علی زرداری تفتیش اور جیل سے گھبرانے والے آدمی نہیں ہیں۔ اتوار کے روز جو پیغام دینے وہ صحافیوں سے ملے ہیں اسے سنجیدگی سے لینا ہوگا۔
اتوار کی رات آصف علی زرداری کی صحافیوں سے ہوئی گفتگو کی ٹی وی پر خبر دیکھنے کے بعد میں رپورٹر والی ڈھٹائی کے ساتھ ان سے ملاقات کا بندوبست کرسکتا تھا۔ دل مگر بہت ا داس تھا۔ہماری ایک بہت ہی محنتی اور مخلص ساتھی انجم نیاز کینسر سے ہار کر اس دنیا میں نہ رہیں۔ان کے انتقال کی خبر آئی تو یادوں کا سیلاب ذہن میں اُمڈ آیا۔ میں حواس باختہ ہوگیا۔
صبح اُٹھ کر یہ کالم لکھنے کو قلم اٹھایا تو ارادہ تھا کہ یہ فقط انجم نیاز کے بارے میں ہوگا۔ یہ سوچ کر مگر ہمت نہ ہوئی کہ میرے قارئین کی اکثریت اس سے شناسا نہ ہوگی۔ انجم نے اپنے صحافتی کیرئیر کا طویل عرصہ ڈان اخبار کے لئے لکھنے میں صرف کیا تھا۔ بعدازاں کافی برس کے لئے امریکہ چلی گئی۔ وہاں سے اس کے کالم چند اُردو اخباروں میں ترجمہ ہوکر چھپتے رہے ۔ ترجمے میں لیکن اس کی کانونٹ سکول میں سیکھی اور انگریزی ادب کے گہرے مطالعے کے سبب سنوری ا نگریزی کی شگفتگی اور بے ساختی اپنا ا ثر نہ دکھاپائی۔
انجم نیاز نے کبھی اپنا تعارف فلاں صاحب کی بیٹی کے طورپر نہیں کروایا تھا۔ مجھے بھی اس کے خاندان کی خبر اپنی بیوی کے توسط سے ملی تھی۔ اسے مگر کبھی ظاہر نہ ہونے دیا۔ چونکہ انجم نیاز فقط اپنے کام کے سبب صحافت میں اپنا مقام بنانے کی تگ ودو میں مصروف رہی اس لئے میں اس کے خاندانی واسطوں کا ذکر کرتے ہوئے اس کی روح کو تکلیف نہیں پہنچانا چاہوں گا۔والد صاحب اس کے بہرحال اعلیٰ ترین حکومتی اور سرکاری عہدوں پر فائزرہے تھے۔پاکستان میں کرکٹ کو فروغ دینے کے لئے 50ءکی دہائی میں انہوں نے اہم ترین کردار اداکیا تھا۔ پاکستانی کرکٹ ٹیم کے قیامِ پاکستان کے بعد پہلا دورئہ انگلستان کے ہر لمحے کو انجم نے اپنے بچپن میں بہت اشتیاق سے دیکھا تھا۔ اس دور نے فضل محمود کو اودل کا ہیرو بنایا تھا۔ کاردار کی کپتانی کی دھوم مچی تھی۔
میری نسل کے صحافیوں کی خوش نصیبی کہ ہمارے ابتدائی ایام میں اس ملک کے Eliteٹھہرائے خاندانوں سے اُٹھی چند خواتین نے صحافت کو سنجیدگی سے اپنانے کی ہر ممکن کوشش کی۔ ایسی خواتین کھانا پکانے اور سلیقہ شعاری کو فروغ دینے مضامین لکھنے کی خواہاں نہیں تھیں۔ نہ ہی وہ فیشن اور باغبانی پر لکھنے کی خواہش مند۔
ہماری ان ساتھیوں کی بے پناہ کوشش ہوتی کہ مجھ جیسے ”لفنگے“ رپورٹروں کے ساتھ مل کر سیاسی اور سفارتی حوالوں سے ”خطرناک“ ٹھہرائی خبریں تلاش کریں۔ اس تلاش کے لئے مشقت کے علاوہ حکمرانوں کی رعونت بھی برداشت کرنا ضروری ہوتا ہے۔لاہور کی گلیوں سے اُٹھے مجھ جیسے ڈھیٹ رپورٹر یہ سب برداشت کرلیتے ہیں۔ نازونعم میں پلی انجم جیسی خواتین جو کھانے کی میزپرکپڑے کے نیپکن کے بجائے ٹشو پیپر کا ڈبہ رکھنا گناہ عظیم شمار کرتی ہیں،ایسی ذلت ومشقت کو برداشت نہیں کرسکتیں۔ صوفیاءکی طرح اس کے لئے من مارنا ہوتا ہے۔انجم نیاز نے اس کشٹ کو ہنستے مسکراتے برداشت کیا۔ کئی یادگار اور Exclusiveخبریں بریک کیں۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کی دوسری حکومت کی رخصت سے کئی ماہ قبل امریکی سفیر کے ایک انٹرویو کے ذریعے ہمیں خبردار کردیا کہ طالبان سے اصل ناراضگی ان کے سخت گیر نظریات نہیں بے نظیر حکومت سے اصل شکایت تیل کی اس پائپ لائن کی تعمیر ہے جو امریکہ کی بتائی تجویز سے قطعی مختلف ہے۔ اس میں ارجنٹائن کی ایک کمپنی بھی شامل ہے جو تیل کے کاروبار پر اجارہ دار بنی ملٹی نیشنل کمپنیوں کو ہضم نہیں ہورہی۔
انجم نیاز کا اصل دُکھ مگر یہ تھا کہ اسے جن سیاستدانوں اور سرکاری افسروں سے پالاپڑا وہ اس کے بچپن کے دور سے قطعی مختلف تھے۔ بے تحاشہ دولت جمع کرنے کی حرص وہ سمجھنے سے ہمیشہ قاصر رہی۔ اپنے اختیارات کی بنا پر دولت جمع کرکے حالیہ ہوئے امیروں کو وہ برداشت نہیں کرسکتی تھی۔ہم جیسے ”کنگلوں ۔“کے لئے ”وکٹورین“ محسوس ہوتی تہذیب کی نمائندہ انجم نیاز نودولتیوں کی مکروہ سیاست کو حقارت سے بے نقاب کرنا چاہتی تھی اور ہماری صحافت اس کی جرا¿ت اظہار کو برداشت کرنے کے قابل نہیں تھی۔بہت سی ان کہی باتیں اس کے وجود کے لئے بھاری پتھر بن گئیں۔ صحافت سے کنارہ کشی کے بعد اس کی بے چین طبیعت کو کینسر کا گھن کھا گیا۔ اچھا ہوا انجم نیاز جیسی نیک طینت عورتیں اب صحافت سے دور رہتی ہیں۔ نمک کی کان میں گھس کر نمک ہونے کو تیار اور سرجھکا کر اپنے مرد ساتھیوں کی طرح ڈنگ ٹپانے کو آمادہ۔
(بشکریہ: روزنامہ نوائے وقت)
فیس بک کمینٹ