علی اعجاز سے محض شناسائی تھی۔ ان کے انتقال کی خبر سنی تو دل بہت اداس ہوگیا۔ کئی برس قبل ہواایک واقعہ یاد آگیا۔ ذہن میں فلم کی صورت چلتا رہا۔ اسے یاد کرتے ہوئے احساس ہوا کہ کئی دہائیوں تک ”سٹار“ کہلاتا یہ شخص کتنا سادہ اور نیک طینت تھا اور ایسے لوگ اب ڈھونڈنے سے بھی کیوں نہیں ملتے۔
سقوطِ ڈھاکہ کے بعدجب پیپلز پارٹی برسرِ اقتدار آئی تو لاہور کے چند بے تحاشہ پڑھے لکھے اور ان کی سوچ سے متاثر ہوئے نوجوانوں نے طے کرلیا کہ پاکستان میں چین جیسا انقلاب برپا ہوگیا ہے۔ پاکستانی انقلاب کے چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو ہیں۔
چین میں ان دنوں ”ثقافتی انقلاب“ کا چرچا تھا۔ چیئرمین ماﺅ اپنی چہیتی بیوی کی قیادت تلے جمع ہوئے نوجوانوں کو تلقین کررہے تھے کہ حکومت کے اہم عہدوںپر فائز لوگوں پر کڑی نگاہ رکھی جائے۔ وہ خود غرض اور سہل پرست ہوچکے ہیں۔ عوام کی خواہشات اور ضروریات سے چین کے قدیمی جاگیرداروں کی طرح بیگانہ۔ ان کی بے حسی کو بے نقاب کیا جائے اور ان کی جگہ لینے کو انقلابی نوجوانوں کا نیا ”کیڈر“(Cadre) آگے بڑھے۔
چین کے ”ثقافتی انقلاب“ کو تخلیقی صلاحیتوں سے مالامال ہمارے ایک ڈرامہ نگار،مصور،اداکار اور کلاسیکی رقص کی مہارت حاصل کرنے کو تڑپتے ڈاکٹر انور سجاد نے بہت لگن سے سمجھنے کی کوشش کی۔ اس نتیجے پر پہنچے کہ پاکستان کے ”انقلاب“ کو محفوظ بنانے کے لئے یہاں کے فن کاروں کو بھی منظم ہوکر نئی ثقافت متعارف کروانا چاہیے۔ غالباََ پاکستان ٹیلی وڑن کے لاہور سنٹر پر تعینات پروڈیوسر یاور حیات بھی خفیہ طورپر ان کے ہمنوا تھے۔
”خفیہ“ کا الزام میں اس لئے عائد کررہا ہوں کیونکہ ان دنوں یاور صاحب ایسے ڈرامائی سلسلے پروڈیوس کرنے کو ترجیح دیتے جن میں کرداروں کی بھرمار ہو۔ ان میں سے اکثر ڈرامے ڈاکٹر انور سجاد یا منوّ بھائی لکھا کرتے تھے۔ کرداروں کی بھرمار کے باعث لاہور ٹیلی وڑن سنٹر کے دروازے پر کھڑے اور اتفاق سے اس کے اندر کسی نہ کسی طرح گھس کر راہداریوں میں گھومنے والے نوجوانوں کو سکرین پر آنے کا ”چانس“مل جاتا۔ جسے بولنے کو ایک آدھ لائن مل جاتی وہ خود کو مستقبل کا دلیپ کمار تصور کرنا شروع ہوجاتا۔
ڈاکٹر انور سجاد نے ان نوجوانوں کی اکثریت کو اپنے گردجمع کرلیا۔Actors Equityنام کی ایک تنظیم قائم ہوگئی۔ اس کا باقاعدہ دفتر تو کہیں تھا نہیں۔ریڈیو سٹیشن کی دیوار کے باہر موجود ایک کھوکھا نما ریستوران انقلابی فن کاروں کا ”ہیڈکوارٹر“ بن گیا۔
مجھے اداکار بننے کا شوق نہیں تھا۔ ڈرامہ لکھنے کی بہت خواہش تھی۔اسی باعث سورج ڈھلتے ہی اس ہیڈکوارٹر پہنچ جاتا۔ اسکول براڈکاسٹ کے فیچروں اور کوئز شوز میں چھٹی جماعت سے حصہ لینے کی وجہ سے میری کئی پروڈیوسروں اور فن کاروں سے واقفیت ہوچکی تھی۔ وہاں اجنبی محسوس نہ کرتا۔کئی لوگوں کو پلے سے چائے اور شامی کباب فراہم کرنے کی وجہ سے شناسائی کا دائرہ مزید بڑھنا شروع ہوگیا۔
”ثقافتی انقلاب“ اور ”کیڈر“ وغیرہ کی مجھے ککھ سمجھ نہیں تھی۔انقلابی گفتگو محض سنتا رہتا۔ اس دوران انکشاف یہ ہوا کہ ٹیلی وژن تو محض Idiot Boxہے۔ لوگوں تک انقلابی پیغام پہنچانے کا اصل میڈیم تھیٹر ہے۔ انقلابی فن کاروں کو لاہور آرٹس کونسل پر اپنی حاکمیت قائم کرنا ہوگی تاکہ وہاں عوامی ناٹک ہوں۔چین کی طرز پرعوامی بیلے کی بنیاد ڈل سکے۔ایسا ہوجانے کی صورت میں ٹی وی سینٹر کے دروازے پر امید بھرے دلوں سے کھڑے نوجوانوں کو اپنے تخلیقی جواہر دکھانے کے بے پناہ امکانات نصیب ہوجائیں گے۔
لاہور آرٹس کونسل ان دنوں آج کی طرح کا شاندار کمپلیکس نہیں تھا۔کافی اداس سی جگہ تھی۔ اگرچہ یہاں ایک ہال تھا جہاں150کے قریب تماشائی کوئی ڈرامہ دیکھ سکتے تھے۔ آرٹس کونسل کا انتظام ان دنوں نعیم طاہرصاحب کے مکمل کنٹرول میں تھا۔
میں نعیم صاحب کو نہیں جانتا تھا۔ ان کی بیگم یاسمین طاہر صاحبہ جو امتیاز علی تاج کی بیٹی ہیں مجھے پہچانتی تھیں کیونکہ ان کی سکول براڈ کاسٹ کی خاتون پروڈیوسر سے قریبی د±عا سلام تھی۔ یاسمین صاحبہ کی آواز کو ”گولڈن وائس“ کہا جاتاتھا۔ ”وہ فوجی بھائیوں کے لئے“ ایک پروگرام کرتی تھیں جو بہت مقبول تھا۔ ریڈیو سٹیشن پر لوگ ان کے ر±عب تلے دبے نظر آتے۔
امتیاز علی تاج کا لکھا ایک مشہور ڈرامہ ہے۔ ”قرطبہ کا قاضی“۔نعیم صاحب اس کے مرکزی کردار کا پارٹ کئی بار ریڈیو پاکستان کے لئے کرچکے تھے۔ ایک بار اس کو دہرایا گیا تو اس میں نعیم صاحب کے کردار کے بچپن کی ایک لائن بولنے کے لئے مجھے بھی کہا گیا۔ میں تیار نہیں تھا۔ پروڈیوسر نے دوشامی کباب کھلاکر راضی کرلیا۔نعیم صاحب ڈرامے کی ریکارڈنگ کے لئے باقی اداکاروں سے بہت پہلے آتے اور بہت خشوع سے ریہرسل میں ہاتھ میں پنسل پکڑے سکرپٹ پر نشان لگاتے ہوئے حصہ لیتے۔میں ان کے پیشہ وارانہ انہماک سے بہت متاثر ہوا۔ اس کے بعدان سے کئی برسوں تک ملاقات ہی نہ ہوئی۔
بہرحالActors Equityکے انقلابی کیڈر نے اعلان کردیا کہ نعیم طاہر”رجعت پسند“ ہیں۔لاہور آرٹس کونسل کو ان کے قبضے سے بازیاب کروانا ہوگا۔تاکہ وہ ”انقلابی ثقافت“ کا گڑھ بن سکے۔ عوام تک یہ پیغام پہنچانے کے لئے ایک پریس کانفرنس کے انعقاد کا فیصلہ ہوا۔علی اعجاز کو یہ ذمہ داری سونپی گئی کہ وہ نعیم طاہر کے ”رجعت پسندانہ“ خیالات کو بے نقاب کرنے اس کانفرنس سے خطاب کریں۔ان کے خطاب کا متن ڈاکٹر انور سجاد نے لکھا تھا۔ وہ مجھے خوب جانتے تھے۔ حکم صادر فرمایا کہ میں علی اعجاز مرحوم کو ان سے خطاب میں استعمال ہوئی بھاری بھر کم اصطلاحوں کا تلفظ اور مطلب سمجھاﺅں۔
پریس کانفرنس کے انعقاد سے قبل علی اعجاز جیسا نامور فن کارمودب شاگردوں کی طرح بہت انکساری کے ساتھ مجھ سے مشکل الفاظ کا تلفظ اور معنی پوچھتا رہا۔بالآخر ہم مال روڈ پر واقع انڈس ہوٹل کے سامنے موجود ایک کیفے میں پریس کانفرنس سے خطاب کرنے پہنچ گئے۔
علی اعجاز صاحب نے پانی کا ایک گلاس پیا اور بہت روانی اور اعتماد کے ساتھ اپنی تقریر پڑھ ڈالی۔اسے ختم کرنے کے بعد انہوں نے داد طلب نگاہوں سے مجھے دیکھا مگر اس دوران ایک بزرگ صحافی نے کافی درشتی سے انہیں بتایا کہ نعیم طاہر کے خلاف انہوں نے بہت سنگین الزامات لگائے ہیں۔ان کی دیانت اور وطن دوستی پر سوالات اٹھائے ہیں۔
علی اعجاز مرحوم ہکابکا رہ گئے۔ سوال سنتے ہی بہت خلوص سے فوراََ کانوں کو ہاتھ لگاتے ہوئے اقرار کیا کہ نعیم طاہر اداکاری کے شعبے میں ان کے استادوں میں سے ہیں۔اس کے علاوہ نعیم طاہر کے سسر امتیاز علی تاج صاحب ہیں”جو ہم سب کے دادا استاد ہیں“ اور پھر ”یاسمین بی بی“ ہیں۔ ”میں ان کی شان میں گستاخی کا سوچ بھی نہیں سکتا“۔
مختصراََ نعیم طاہر صاحب کے خلاف علی اعجاز کی پڑھیFIRوہیں فارغ ہوگئی۔ میں گھبرا کر کیفے سے باہر نکلا اور رکشہ لے کر اپنے گھر چلا گیا۔علی اعجاز مرحوم کے ساتھ اس کے بعد Actors Equityکے ”انقلابیوں نے کیا سلوک کیا اس کی مجھے خبر نہیں۔ ان کی سادگی اور نیک طینتی کو لیکن میں ابھی تک بھلا نہیں پایا ہوں۔ ان کے انتقال کی خبر ا?ئی تو یہ واقعہ یاد کرتے ہوئے مسلسل سوچ رہا ہوں کہ اب ایسے سادہ اور نیک طینت لوگ ڈھونڈنے سے بھی کیوں نہیں ملتے۔
(بشکریہ: روزنامہ نوائے وقت)
فیس بک کمینٹ