’’مجھے کیوں نکالا؟‘‘ نے ایک Momentum بنایا تھا۔ اصل جلوہ اس کا لودھراں کے ضمنی انتخاب میں نظر آیا۔ تحریک انصاف کے ’’امیر ترین‘‘ کے ہونہار بروا قومی سطح پر غیر معروف اقبال شاہ کے ہاتھوں بدترین شکست سے دوچار ہوئے۔ تقریباً انہونی دِکھتا یہ واقعہ اس حقیقت کے باوجود ہوا کہ نواز شریف، ان کی دُختر اور نون کے لاحقے والی مسلم لیگ کے کسی بھی سرکردہ رہ نما نے اس انتخاب میں اپنے امیدوار کے لئے تخت یا تختہ والی مہم نہیں چلائی تھی۔
واضح پیغام یہ بھی ملا کہ اٹک سے رحیم یار خان تک پھیلے پاکستان کے آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑے صوبے میں کسی نہ کسی وجہ سے نواز شریف کو ووٹ دینے والے لوگ بہت ضد کے ساتھ یکجا ہو گئے ہیں۔ حقائق خواہ کچھ بھی رہے ہوں، ان کی نظر میں نواز شریف کے ساتھ انصاف نہیں زیادتی ہوئی۔ اس ’’زیادتی‘‘ کے ازالے کا عام ووٹرکے پاس کوئی وسیلہ نہیں۔ صرف ایک ووٹ جسے نواز شریف سے منسوب فرد کی حمایت میں ڈال کر وہ اپنے دل کو تسلی دیتا ہے۔
ووٹر کی اپنے دل کو دی ہوئی تسلی مگر ریاست چلانے والوں کو پریشان کر دیتی ہے۔ نواز شریف کو ان کے حامیوں کے خیال میں اگر واقعتا کسی ’’سازش‘‘ کے تحت وزارتِ عظمیٰ سے فارغ کروایا گیا ہے تو آئندہ انتخابات میں ان کی جماعت کی کھڑکی توڑ واپسی گوارہ نہیں کی جا سکتی اور یہ بنیادی حقیقت نون کے لاحقے والی مسلم لیگ میں موجود ’’جی حضوریوں‘‘ کو سمجھ نہیں آ رہی۔ ’’ووٹ بینک‘‘ کی طاقت انہیں نواز شریف سے وفاداری نبھانے نہیں دکھانے پر مجبور کر رہی ہے۔
اپنے حلقوں میں ذاتی پھنے خانی برقرار رکھنے کے لئے مگر انہیں ریاستی سرپرستی درکار ہے۔ تھانے کچہریوں اور دیگر دفاتر میں بیٹھے ’’مائی باپ‘‘ ریاستی سرپرستی فراہم کرنے والے Tools ہیں۔ ان Tools کو کنٹرول کیا جاتا ہے۔ 2008 سے صوبہ پنجاب میں یہ کنٹرول شہباز شریف کے ہاتھ میں تھا۔ ’’جی حضوریوں‘‘ کو Wake Up کال دینے کے لئے انتہائی ضروری تھا کہ شہباز شریف کی ’’گڈگورننس‘‘ مہیا کرنے والی اس مشین پر ’’مکمل گرفت‘‘ کو بے نقاب کیا جائے۔ ثابت کیا جائے کہ ریاستی طاقت کا ’’اصل‘‘ سرچشمہ دائمی حوالوں سے کہاں سے پھوٹتا ہے۔
شہباز شریف کے ایک بہت ہی چہیتے اور وفادار افسر- احد چیمہ- کرپشن کے الزامات کے تحت گرفتار کر لئے گئے۔ حوالات کی سلاخوں کے پیچھے رعونت کی یہ علامت شرمندہ اور بے بس ہوئی نظر آئی۔ DMG افسروں میں تھرتھلی مچ گئی۔ What Next? کے سوال نے حواس باختہ کر دیا۔ احتجاج کی کوشش ہوئی اور ہمدردی کے بجائے سوالات اُٹھ کھڑے ہوئے۔نواز شریف ایک سیاست دان ہیں۔ سیاست دان کی اصل قوت اس کی Core Constituency ہوتی ہے۔ وہ اسے ہر صورت بہلائے رکھتا ہے۔ سیاست دان جب ’’مجھے کیوں نکالا؟‘‘ کی دہائی مچاتے ہیں تو ان کے حامی متحرک ہو جاتے ہیں۔ احد چیمہ ان کے مقابلے میں ایک سرکاری افسر ہیں۔ انگریز کے دور سے خلقِ خدا کے لئے ’’مائی باپ‘‘ بنائی افسر شاہی کی علامت۔ ’’ڈی سی صاحب بہادر‘‘ جب جیل کی سلاخوں کے پیچھے بے بسی سے کھڑا اپنے کردہ یا ناکردہ گناہوں کا حساب دیتا نظر آئے تو عام افراد کے دلوں میں ہمدردی کے جذبات پیدا نہیں ہوتے۔ ’’مکافاتِ عمل‘‘ جیسے الفاظ استعمال کرتے ہوئے لوگوں کی اکثریت بلکہ احتساب کے شکنجے میں آئے ’’مائی باپ‘‘ کی تکلیف، ذلت اور رسوائی سے Sadistic لطف اٹھاتی ہے۔
’’اپنے افسر‘‘ کو آفت کی اس گھڑی میں شہباز شریف کوئی بھی ریلیف نہیں پہنچا پائے۔ رانا ثناء اللہ اور پنجاب حکومت کے ترجمان ملک احمد علی کے ذریعے تھوڑا بہت سیاپا ضرور ہوا۔ اس سیاپے نے لیکن شہباز شریف کو مزید کمزور بنا کر دکھایا ہے۔ 2008 سے اٹک سے رحیم یار خان تک پھیلے پاکستان کے آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑے صوبے کے ’’خادم اعلیٰ‘‘ بنے شہباز شریف کے ساتھ سانحہ یہ بھی ہو چکا ہے کہ قانونی اعتبار سے سینٹ کے انتخاب کے لئے ان کی جماعت کا اب کوئی امیدوار ہی نہیں۔ وزارتِ عظمیٰ سے نکالے جانے کے بعد نواز شریف، نون کے لاحقے والی مسلم لیگ کی قیادت کے لئے بھی نااہل ٹھہرا دئیے گئے ہیں۔ جن امیدواروں کو انہوں نے سینٹ کے انتخاب کے لئے ٹکٹ جاری کئے تھے وہ اب ’’آزاد‘‘ ہو چکے ہیں۔
ان امیدواروں کی ’’آزادی‘‘ نے پنجاب اسمبلی میں نون کے لاحقے والی مسلم لیگ کی نشستوں پر بیٹھے لوگوں کو بھی ’’آزاد‘‘ کر دیا ہے۔ ان کے لئے ضروری نہیں رہا کہ اسحاق ڈار کو دوبارہ سینٹ بھیجیں۔ نواز شریف کے ذاتی معاون ڈاکٹر آصف کرمانی کو ’’جھٹکا‘‘ دینے میں بھی شاید وہ کوئی عار محسوس نہ کریں۔ ان حالات میں برادری گرڈ کو سکاٹ لینڈ میں سیکھی مہارت اور ذرا کھلے ہاتھ سے چودھری سرور استعمال کرتے ہوئے سینٹ کے لئے منتخب ہو جائیں تو عمران خان کی بھی بلے بلے ہو جائے گی۔ گجرات کے چودھری برادران نے کامل علی آغا کو بھی ہوشیاری سے منتخب کروا لیا تو واضح پیغام یہ جائے گا کہ ’’تخت لاہور‘‘ کو شریف خاندان سے ’’واگزار‘‘ کروانا اب ممکن نظر آ رہا ہے۔
حالات کے بھنور میں پھنسے شہباز شریف کا ’’جی حضوری‘‘ بیانیہ موجودہ حالات میں Deliver کرنے کے قابل نہیں۔ ریاست کے دائمی اشرافیہ کے ساتھ اپنے تئیں ’’پُل‘‘ بنے شہباز شریف احد چیمہ کو ذلت و رسوائی سے نہ بچا پائے تو میرے اور آپ جیسے عامیوں کے لئے چھائوں کیسے بنیں گے۔ پنجابی والی کہانی ’’مک‘‘ چکی ہے۔ شہباز شریف کو بھی بالآخر ’’مجھے کیوں نکالا؟‘‘ والے بیانیے کے ساتھ کھڑا ہونا ہو گا۔ دیر اگرچہ انہوں نے بہت کر دی ہے۔
ذوالفقار علی بھٹو کا وقتِ زوال شروع ہوا تو غلام مصطفیٰ جتوئی مرحوم کو ’’اداروں کا احترام‘‘ کرنے والے بردبار شخص بنا کر سامنے لایا گیا تھا۔ بھٹو صاحب کو پھانسی دینے کے بعد جنرل ضیاء الحق نے جب خود کو سیاسی طور پر تنہا محسوس کیا تو 1980 کے موسم گرما میں وہ ایک بحری جہاز پر چھٹیاں منا رہے تھے۔ محمود ہارون کے ذریعے جتوئی صاحب سے Desperate رابطے ہوئے۔ مرحوم کو چھٹیاں ختم کر کے فوراً وطن واپس آنے پر مجبور کیا گیا۔
جتوئی صاحب وطن لوٹے تو ضیاء الحق نے انہیں وزیراعظم کی پیش کش کی۔ اسے قبول کرنے سے قبل مرحوم نے بیگم نصرت بھٹو صاحبہ سے ’’اجازت‘‘ بھی طلب کی۔ پیپلز پارٹی میں دھڑوں کی بنیاد پر نسلوں سے انتخابی سیاست کرنے والے ’’جی حضوریے‘‘ ان ملاقاتوں سے بہت خوش ہوئے۔ فرض کر لیا کہ جتوئی صاحب کے ’’پُل‘‘ بن جانے کے بعد ان کی مشکلات آسان ہو جائیں گی۔ جنرل ضیاء کو مگر ریگن کی صورت میں امریکہ کے منتخب ہوئے صدر سے کسی مناسب ڈیل کا انتظار تھا۔ 1981 میں ’’افغان جہاد‘‘ کو توانا رکھنے کے نام پر وہ ڈیل ہو گئی اور غلام مصطفیٰ جتوئی نظربند کر دیئے گئے۔ ’’پُل‘‘ کارآمد نہ رہا۔
2018 یقیناً 1980 کی دہائی سے بہت مختلف ہے۔ پاکستان کی سیاست میں یہاں کی دائمی اشرافیہ سے ’’پُل‘‘ بن کر کچھ حاصل مگر اب بھی نہیں کیا جا سکتا۔ شہباز شریف نے ’’نیویں نیویں‘‘ ہو کر کچھ حاصل کر لیا تو مجھے خوش گوار حیرت ہو گی۔
(بشکریہ : روزنامہ نوائے وقت)
فیس بک کمینٹ