تحریک انصاف کے ناقدین کو کھلے دل سے تسلیم کر لینا چاہیے کہ پیر کی صبح تک اسلام آباد میں بے پناہ ہجوم کے ساتھ داخل نہ ہونے کے باوجود عاشقان عمران خان نے اتوار کے روز اپنی قوت کا قابل ستائش مظاہرہ کیا ہے۔امریکہ اور برطانیہ ہی نہیں یورپ کے کئی شہروں میں بھی اپنی بھرپور موجودگی کو ثابت کیا۔ بات ابھی تک مگر اس سوال پر رکی ہوئی ہے کہ خیبرپختونخواہ کے وزیر اعلیٰ ایک بڑے لشکر کے ساتھ اسلام آباد کے ڈی چوک پہنچ پائیں گے یا نہیں۔ رواں برس اکتوبر کے پہلے ہفتے میں وہ اپنے ہمراہ آئے قافلے کو غچہ دے کر اسلام آباد کے خیبرپختونخواہ ہاﺅس پہنچ گئے تھے۔ وہاں چند ہی لمحے گزارنے کے بعد ”غائب“ ہوگئے اور کئی گھنٹوں تک لاپتہ رہنے کے بعد حیران کن انداز میں پشاور پہنچ گئے۔
اب کی بار اکتوبر کی کہانی دہرانا مشکل نظر آ رہا ہے۔ وجہ اس کی عمران خان کی اہلیہ ہیں۔ چند روز قبل عدالت سے ضمانت کے حصول کے بعد وہ پشاور چلی گئی تھیں۔ وہاں وزیر اعلیٰ کے لئے مختص گھر میں مقیم رہیں اور کارکنوں سے رابطے استوار کئے۔ وہاں قیام کے دوران ہی انہوں نے جمعرات کے روز ایک وڈیو پیغام بھی جاری کیا۔ اس پیغام کا مواد ہمارے برادر ملک سعودی عرب کے ساتھ تعلقات کے حوالے سے کافی قابل اعتراض تھا۔ عاشقان عمران مگر اس کے بارے میں فکر مند نہیں۔ بشریٰ بی بی پشاور سے آئے قافلے میں نہ صرف شامل ہیں بلکہ اس پر کڑی نگاہ بھی رکھے ہوئے ہیں۔ ان کے ہوتے ہوئے علی امین گنڈا پور کے لئے اکتوبر کی تاریخ دہرانا تقریباً ناممکن ہو جائے گا۔
علی امین گنڈاپور اگر قافلے کے ہمراہ اسلام آباد آنے کو ڈٹے رہے تو پنجاب اور وفاق کی پولیس کو انہیں روکنے کے لئے ہر نوعیت کا ہتھکنڈہ استعمال کرنا ہو گا۔ اس کی وجہ سے ایک صوبے کے عوام ہی نہیں بلکہ وہاں کی حکومت بھی ایک اور صوبے (پنجاب) کے علاوہ وفاق کے خلاف بھی علم بغاوت اٹھاتی نظر آئے گی۔ ہمارا تحریری آئین ایسی صورت حال سے نبردآزما ہونے کا واضح راستہ فراہم نہیں کرتا۔ گورنر راج ہی واحد حل نظر آتا ہے۔ اس کا نفاذ مگر ایک بار پھر عدالتوں کو سیاسی قضیوں میں ملوث کر دے گا۔ معاملات حد سے بڑھے تو آئین میں تحریر شدہ محدودات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے چند طاقتور ادارے ”وفاق بچانے“ کے نام پر غیر معمولی اقدامات لینے کو مجبور ہو سکتے ہیں۔ دوسری صورت میں وفاق اور پنجاب پولیس علی امین گنڈا پور کے ہمراہ آئے قافلے کو راستہ دینے کو مجبور ہو جائیں گی۔ انہیں راستہ مل گیا تو راولپنڈی ہی نہیں اسلام آباد میں موجود تحریک انصاف کے چاہنے والوں کے حوصلے بلند ہو جائیں گے۔ علی امین کے ڈی چوک پہنچنے تک کارکنوں کا جم غفیر ان کے استقبال کو موجود ہو گا۔ سوال اٹھتا ہے اس کے بعد کیا ہو گا؟
نظر بظاہر عاشقان عمران فقط یہ چاہتے ہیں کہ ان کے قائدکو فی الفور رہا کر دیا جائے۔ میں یہ بات مگر سوچ نہیں سکتا کہ عمران خان کو رہا کر دیا گیا تو وہ اڈیالہ جیل سے ڈی چوک پہنچ کر اپنے کارکنوں سے خطاب کے ذریعے انہیں گھر لوٹنے کا حکم دے کر بنی گالہ روانہ ہو جائیں گے۔ فرض کیا یہ ہو بھی گیا تو بنی گالہ پہنچتے ہی وہ حکومت کے خلاف اگلے راﺅنڈ کی تیاری شروع کر دیں گے۔ شہر شہر جا کر لوگوں کو اس امر پر قائل کریں گے کہ 8 فروری 2024 کے دن ان کی پارٹی کا مینڈیٹ چرایا گیا تھا۔ پاکستان میں امن و خوش حالی فقط اسی صورت یقینی بنائی جا سکتی ہے اگر مبینہ طور پر فارم 47 کی بدولت قائم ہوئی حکومت کا خاتمہ ہو۔ اس کی جگہ عبوری حکومت کا قیام عمل میں آئے جس کا واحد مقصد فوری انتخاب ہوں۔ اسلام آباد پر لشکر کشی کی بدولت عمران خان کی رہائی گویا وقتی بحران سنبھالنے کے بعد مزید بحرانوں کو جنم دے گی۔
نئے انتخاب کا ذکر چلا ہے تو سوال یہ بھی اٹھے گا کہ وہ فقط نئی قومی اسمبلی کے چناﺅ کے لئے ہوں گے یا چاروں صوبوں سے بھی ”نیا مینڈیٹ“ حاصل کیا جائے گا۔ نئے انتخاب کے حصول کے لئے لازمی ہے کہ موجودہ وزیر اعظم اور وزرائے اعلیٰ اپنی اسمبلیوں کو تحلیل کرنے کا اعلان کریں۔ شہباز شریف اور مریم نواز صاحبہ وفاق اور پنجاب کے حوالے سے اس کے لئے آمادہ ہو بھی گئے تو اس امر کی کوئی ضمانت نہیں دے سکتا کہ مراد علی شاہ بھی سندھ اسمبلی کی تحلیل کو رضا مند ہو جائیں گے۔ بلوچستان کے سرفراز بگتی بھی انکار کر سکتے ہیں۔ وہ دونوں راضی نہ ہوئے تو پاکستان کے دو صوبے – بلوچستان اور سندھ- ”قومی دھارے“ سے جدا ہوئے نظر آئیں گے۔ خیبر پختون خواہ کے وزیر اعلیٰ کی جانب بڑھائے دباﺅ کے نتیجہ میں عمران خان کی رہائی کے باوجود لہٰذا ”سیاسی استحکام“ مفقود رہے گا۔ ابتری اور خلفشار کے بلکہ نئے باب کھل جائیں گے۔
اپریل 2022 سے مسلسل اس کالم میں دہائی مچاتا رہا کہ عمران خان کی تحریک عدم اعتماد کے ذریعے وزارت عظمیٰ سے فراغت کے بعد نئے انتخاب ہی وطن عزیز کو سیاسی و معاشی استحکام کی راہ پر ڈال سکتے ہیں۔ شہبازشریف صاحب نے مگر سیاست کے بجائے ریاست کو دیوالیہ ہونے سے بچانے کو ترجیح دی۔ دیوالیہ تو یقینا ٹل گیا مگر ملک کو سیاسی استحکام نصیب نہیں ہوا۔ دیوالیہ سے بچاﺅ کے لئے آئی ایم ایف کے دباﺅ پر مہنگائی کا عذاب نازل ہوا تو عوام بددل ہو گئے۔ 8 فروری 2024 کے دن عوام کی اکثریت کے دلوں میں جمع ہوتی بددلی کا بھرپور اظہار ہوا۔ اس کے بعد بہتر یہ تھا کہ تحریک انصاف کو عددی اعتبار سے قومی اسمبلی کی سب سے بڑی جماعت تسلیم کرتے ہوئے ہر صورت حکومت تشکیل دینے کو مجبور کیا جاتا۔ وہ رضا مندنہ ہوتی تو ایک اور انتخاب کی راہ نکالی جاتی۔
بروقت سیاسی فیصلے نہ لینے کی وجہ سے پاکستان کا سیاسی بحران گھمبیر سے گھمبیر تر ہوتا رہا۔ دکھے دل مگر نہایت دیانتداری کے ساتھ یہ سوچنے کو مجبور ہو رہا ہوں کہ عمران خان کی رہائی بھی اب سیاسی استحکام یقینی نہیں بنا سکتی۔ ان کی رہائی کے بعد بلکہ سیاسی قضیوں کے نئے باب کھلیں گے۔ ان سے بچاﺅ کے لئے ریاست کے دائمی اداروں کو شاید ”کچھ نیا“ کرنا پڑے گا۔
(بشکریہ: روزنامہ نوائے وقت)