انسانی حقوق کی تنظیموں، سیاسی پارٹیوں اور ایمنسٹی انٹرنیشنل نے پشتون تحفظ موومنٹ پر پابندی لگانے اور اسے کالعدم قرار دینے کے حکومتی فیصلہ کو مسترد کیا ہے اور اسے بنیادی حقوق کے لیے پر امن جد و جہد کے خلاف قرار دیا ہے۔ دوسری طرف حکومتی ترجمان نے پی ٹی ایم پر ریاست دشمن سرگرمیوں میں ملوث ہونے کا الزام لگاتے ہوئے واضح کیا ہے کہ کسی تنظیم کو ملکی مفادات کے خلاف کام کرنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔
حکومت نے اتوار کو پشتون تحفظ موومنٹ پر پابندی لگانے کا اعلان کیا تھا۔ اس حوالے سے سرکاری اعلان میں کہا گیا تھا کہ پشتون تحفظ موومنٹ امن عامہ اور ملک کی حفاظت کے لیے شدید خطرہ ہے۔ اس لیے اسے کالعدم تنظیموں کی فہرست میں شامل کیا گیا ہے۔ واضح رہے یہ تنظیم 2018 میں ایک نوجوان نجیب اللہ محسود کی پولیس مقابلے میں ہلاکت کے بعد احتجاج کرنے اور انصاف حاصل کرنےکے لیے قائم ہوئی تھی۔ اسٹبلشمنٹ کی طرف سے اس تنظیم اور اس کے سربراہ منظور پشتین پر بیرونی ایجنسیوں کے لیے کام کرنے کا الزام لگایا جاتا رہا ہے۔
واضح رہے پی ٹی ایم نے 11 اکتوبر کو پشتون قومی جرگہ بلایا ہؤا تھا۔ اس سے چند دن پہلے اس تنظیم پر پابندی لگا دی گئی ہے۔ انسانی حقوق کی تنظیموں کا خیال ہے کہ اس پر امن جرگے سے عین پہلے پی ٹی ایم پر پابندی تشویشناک ہے۔ پاکستان کے انسانی حقوق کمیشن نے اس پابندی پر تبصرہ کرتے ہوئے ایک بیان میں کہا ہے کہ ’پشتون تحفظ موومنٹ شہری حقوق کی تحریک ہے اور اس نے ہمیشہ آئینی حدود میں رہتے ہوئے پر امن طریقے سے اپنے مطالبات کے لیے جد و جہد کی ہے۔ اس تنظیم پر پابندی کا فیصلہ ناروا اور غیر شفاف ہے‘۔
قومی اسمبلی کے سابق رکن محسن داوڑ بھی نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی بنانے سے پہلے پی ٹی ایم کے رکن رہے تھے۔ انہوں نے ایک بیان میں اس حکومتی فیصلہ کی مذمت کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس فیصلے سے لاپتہ افراد کے لواحقین اور بنیادی حقوق کے لیے کام کرنے والوں کو یہ پیغام دیا گیا ہے کہ ریاست پر امن جد و جہد پر یقین نہیں رکھتی۔ عوامی نیشنل پارٹی کے لیڈر افراسیاب خٹک نے بھی ایکس پر ایک بیان میں کہا ہے کہ پر امن پشتون کانفرنس سے عین پہلے پی ٹی ایم پر پابندی سے پسے ہوئے طبقات کے خلاف حکومت کے نوآبادیاتی مزاج کی نشاندہی ہوتی ہے۔ عوامی ورکرز پارٹی نے بھی ایک بیان میں کہا ہے کہ اس اقدام سے جنگ سے متاثر پشتون عوام تنہا ہوں گے اور شدت پسند عناصر کوپنپنے کا موقع ملے گا۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل نے ایک بیان میں حکومت پاکستان سے مطالبہ کیا ہے کہ پشتون تحفظ موومنٹ پر پابندی کا فیصلہ واپس لیا جائے۔ یہ حکومتی اقدام تنظیم سازی اور پر امن جد و جہد کے حقوق کی خلاف ورزی ہے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کا کہنا ہے کہ پشتون جرگے سے پہلے پی ٹی ایم پر پابندی بنیادی حقوق کے خلاف جابرانہ حکومتی ہتھکنڈوں کا حصہ ہے۔ اس فیصلہ کے لیے حکومت کی طرف سے کوئی شواہد یا جواز فراہم نہیں کیے گئے۔تاہم منگل کو اسلام آباد میں میڈیا سے باتیں کرتے ہوئے وزیر اطلاعات عطااللہ تارڑ کا کہنا تھا کہ پشتون تحفظ موومنٹ پر ریاست دشمن سرگرمیوں کی وجہ سے پابندی عائد کی گئی ہے۔ اس تنظیم کے لوگوں نے قومی پرچم نذر آتش کیا، ملک کے سفارت خانوں پر حملے کیے اور غیرملکی فنڈ قبول کیے گئے۔ اس تنظیم کا دہشت گرد تنظیموں سے بھی گہرا رابطہ رہا ہے۔ کابینہ نے تمام شواہد کا جائزہ لے کر پی ٹی ایم پر پابندی لگانے کا فیصلہ کیا ہے۔ کسی بھی پارٹی کو ملک دشمن ایجنڈے پر عمل کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔
اس حکومتی وضاحت کے باوجود یہ دیکھنا محال ہے کہ یک طرفہ طور سے کسی خاص حجت کے بغیر ایک ایسے گروہ کو کالعدم قرار دیا جاتا ہے جس کا بنیادی منشور ہی شہریوں کے حقوق کی حفاظت ہے۔ پی ٹی ایم ایک نوجوان کی ناجائز طریقے سے پولیس حراست میں ہلاکت کے بعد احتجاج کے لیے قائم ہوئی تھی۔ اس نے شروع سے ہی لاپتہ افراد کی بازیابی اور خیبر پختون خوا کے قبائیلی علاقوں میں فوجی کارروائیوں کے دوران میں شہریوں کو ناجائز طور سے پریشان کرنے کے طریقوں کے خلاف آواز بلند کی تھی۔ اس تنظیم نے ہمیشہ پر امن رہنے کا عزم ظاہر کیا ہے۔ اس پر آج تک کبھی تشدد کرنے یا لاقانونیت پر اکسانے کا کوئی الزام ثابت نہیں کیا جاسکا۔ یہ تو قابل فہم ہے کہ بعض قبائیلی علاقوں میں سکیورٹی کے نام پر اختیار کیے جانے والے بعض طریقوں سے شہریوں کی تکالیف میں اضافہ ہوتا ہے لیکن ان کی نشاندہی سے فوجی حلقے پریشان ہوتے ہیں۔ البتہ کسی سول انتظام میں شہریوں کی سہولت اور حقوق و آزادیوں کی حفاظت بنیادی اہمیت کی حامل ہوتی ہے۔ حکومت یا فوج کو محض سکیورٹی کے نام پر شہری آبادیوں کو ہراساں کرنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔
اسی حوالے سے پی ٹی ایم کا دوسرا اہم مطالبہ لاپتہ افراد کے حوالے سے رہا ہے۔ یہ ایک ایسا مطالبہ ہے جس میں پشتون تحفظ موومنٹ تشویش کا اظہار کرنے والی واحد تنظیم نہیں ہے بلکہ لاپتہ افراد کے اہل خاندان کے علاوہ حال ہی میں بلوچستان میں خواتین کی سرکردگی میں کام کرنے والی بلوچ یک جہتی کمیٹی بھی اس حوالے سے ہی مطالبہ سامنے لاتی رہی ہے۔ ملک کے ہر حصے میں ریاست کی زور ذبردستی کے خلاف آواز اٹھانے والے لوگوں کو اٹھانے اور تشدد کے ذریعے خاموش کرانے کا سلسلہ کافی عرصہ سے جاری ہے لیکن کوئی سیاسی حکومت یا عسکری قیادت اس مسئلہ کی شدت اور سنگینی کو سمجھنے اور اسے تبدیل کرنے پر آمادہ نہیں ہے۔ سول حکومتیں تو اس معاملہ میں اپنی بے بسی کا اظہار کرتی رہی ہیں۔ پارلیمنٹ اگرچہ عوام کے ووٹوں سے منتخب ہوکر آتی ہے لیکن وہاں بھی لاپتہ افراد کے سنگین مسئلہ کو لے کر عوام کی بے چینی دور کرنے کی کوئی کوشش دیکھنے میں نہیں آئی۔ اس ریاستی ہتھکنڈے کا سب سے زیادہ اثر بلوچستان میں دیکھنے میں آتا ہے لیکن خیبر پختون خوا کے لوگوں کو بھی اس سلسلہ میں شکایات رہی ہیں۔ انہی شکایات کا اظہار پشتون تحفظ موومنٹ کرتی رہی ہے۔ اب اس پر اچانک پابندی لگادی گئی ہے۔ ملک کی سیاسی حکومت نے پابندی لگانے سے پہلے یہ جائزہ لینے کی کوشش بھی نہیں کی کہ عوامی مطالبات کو آواز دینے والی ایک تنظیم پر پابندی لگانے سے کن عناصر کی حوصلہ افزائی ہوگی اور ایسے علاقوں یا گھرانوں میں ریاست کے بارے میں کیا تاثر قائم ہوگا جہاں سے بے گناہ لوگوں کو اٹھا کر انہیں نامعلوم عقوبت خانوں میں بند رکھا جاتا ہے۔
پی ٹی ایم پر پابندی کے تناظر میں غور کیا جائے تو کیا اب حکومت اسی اہم موضوع پر رائے عامہ ہموار کرنے کے لیے کام کرنے والی بلوچ یک جہتی کمیٹی پر بھی پابندی لگانے کا ارادہ کرے گی؟ پاک فوج کے ترجمان اور آرمی چیف اپنے بیانات میں بلوچ یک جہتی کمیٹی کو ملک دشمن قرار دیتے رہے ہیں جو ان کے بقول دہشت گردوں اور کریمنل مافیا کی پراکسی کے طور پر کام کرتی ہے۔ پاک فوج کی طرف سے شہری حقوق کے لیے کام کرنے والی کسی تنظیم کے خلاف ایسا سنگین الزام لگانے سے پہلے ٹھوس شواہد سامنے لانے اور کسی عدالت سے ان ثبوتوں کی بنیاد پر فیصلہ لینا چاہئے تھا۔ پشتون تحفظ موومنٹ کے حوالے سے بھی یہی اصول بنیادی اہمیت کا حامل ہے۔ کیا وزیر اطلاعات کے ایک بیان کو کسی تنظیم کے خلاف ثبوت مان کر خاموشی اختیار کرلی جائے۔ اگر حکومت کے اس ہتھکنڈے کو کسی احتجاج کے بغیر قبول کرلیا گیا تو یہ نام نہاد جمہوری حکومت ملک میں ہمہ قسم بنیادی حقوق سلب کرنے کا اقدام کرے گی۔ اس سے پہلے ملک کی بڑی سیاسی پارٹی تحریک انصاف کو جلسے کرکے اپنی بات عوام تک پہنچانے یا احتجاج کرنے کی اجازت نہیں دی جاتی اور جب یہ پارٹی پابندیوں کے خلاف احتجاج کرتی ہے تو اس کے لیڈروں کے خلاف تشدد اور دہشت گردی کے الزامات میں مقدمے قائم کیے جاتے ہیں۔ ان حالات میں کیا حکومت اقتدار پر قابض پارٹیوں کے علاوہ مخالفانہ آواز اٹھانے والی ہر پارٹی کو ملک دشمن قرار دے کر اس کے حقوق محدود کرنے کی کوشش کرے گی۔ ملکی معاشی استحکام یا سفارتی کامیابی کے عذر پر ایسے طریقوں کو قبول کرنا ممکن نہیں ہے۔
دیگر تمام تنظیموں و اداروں کی طرح پشتون تحفظ موومنٹ بھی لاپتہ افراد کے معاملہ کو شہریوں اور ریاست کے درمیان رخنہ ڈالنے کی کوشش قرار دیتی ہے۔ یعنی جب ریاستی ادارے شہریوں کو کسی الزام یا قانونی کارروائی کے بغیر اٹھاکر لے جائیں گے اور اپنی مرضی کے مطابق انہیں لاپتہ رکھا جائے گا یا تشدد کا نشانہ بنا کر ہراساں کیا جائے گا تو اسے کیسے ملک میں طویل المدت امن کی بحالی کا نام دیا جاسکتا ہے۔ انسانی حقوق کی دیگر تنظیموں کی طرح پی ٹی ایم بھی یہی مطالبہ کرتی ہے کہ جو لوگ بھی کسی قانون کی خلاف ورزی کے مرتکب ہوں ، انہیں کسی عدالت میں پیش کیا جائے اور ان کے خلاف ثبوت پیش کیے جائیں۔ تاکہ ان لوگوں کے خاندانوں کے علاوہ ملک کے شہریوں کو بھی علم ہوکہ کون لوگ کس قسم کے قوانین کی خلاف ورزی کررہے ہیں۔ یہ ایک جائز اور انصاف کے عالمگیر اصولوں کی بنیاد پر کیا جانے والا سادہ مطالبہ ہے۔ حکومت یا ریاست اگر اس مطالبے کو سننے کی بجائے اب مطالبہ کرنے والی تنظیموں کے خلاف ہی ریاستی اختیار استعمال کرنے کا عزم کرے گی تو اس سے جمہوریت اور انسانی حقوق پامال ہوں گے۔ کوئی بھی مہذب معاشرہ ایسے جبر کامتحمل نہیں ہوسکتا۔
حکومت یا ریاست کے پاسبان اداروں کو قومی مفاد، سلامتی یا حفاظت کے لیے فسطائی ہتھکنڈے اختیار کرنے کی بجائے ملک کے عوام کو اعتماد میں لے کر ، انہیں قومی تعمیر میں حصہ دار بنانا چاہئے۔ اسی صورت میں ملک میں پائیدار امن قائم ہوسکتا ہے۔ سادہ الفاظ میں اس بات کو یوں بیان کیا جاسکتا ہے کہ حکومت و ریاست تنظیموں و شہریوں سے جن اصولوں پر عمل کرنے کی توقع کرتی ہے، سب سے پہلے اسے خود انہیں مان کر ان کا احترام کرنا چاہئے۔ حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیموں پر ملک دشمنی یا سیاسی جماعتوں کو انتشار پیدا کرنے کا مرتکب قرار دینے سے بے چینی اور انتشار میں اضافہ ہوگا۔ اس کی ذمہ داری بلاشبہ اقتدار پر قابض جماعتوں ہی پر عائد ہوگی۔
(بشکریہ :کاروان ۔۔ناروے )
فیس بک کمینٹ