پانچ اگست کو ملک بھر میں تحریک انصاف کا احتجاج تھا۔ یہ احتجاج انہوں نے اپنے بانی رہنما عمران خان کی رہائی کے لیے کیا۔ عمران خان کو پانچ اگست 2023 کو گرفتار کیا گیا تھا۔ عمران اور ان کی جماعت ایجی ٹیشن کی سیاست کرتی ہے ۔ سچ تو یہ ہے کہ ان کی احتجاج کی سیاست حکومتی سیاست سے بہت بہتر ہے۔ احتجاجی سیاست قدرے آسان بھی ہوتی ہے کیونکہ اس میں اپنی غلطیوں کا زیادہ دفاع نہیں کرنا پڑتا۔ لیکن عمران کی جماعت کے لیے اب احتجاجی سیاست کرنا بہت مشکل ہو گیا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کے پاس عمران کی غیر موجودگی میں احتجاج کو لیڈ کرنے کے لیے کوئی متبادل رہنما موجود نہیں ہے۔ ساتھ ہی یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ پاکستان کی سیاست ہمیشہ سے نظریات کی بجائے شخصیات کے گرد ہی گھومتی رہی ہے۔
اس وقت پاکستان کی تمام متحرک سیاسی جماعتیں دائیں بازو کے نظریات رکھتی ہیں۔ پاکستان پیپلز پارٹی واحد سیاسی جماعت ہے جس نے اپنی سیاست کی ابتدا سوشلزم سے کی۔ لیکن 90 کی دہائی میں محترمہ بینظیر بھٹو نے عملاً پی پی پی کی سوشلسٹ سیاست سے علیحدگی اختیار کر لی۔ اس کے باوجود "سوشلزم ہماری معیشت ہے” کا نعرہ اس وقت بھی پیپلز پارٹی کے بنیادی نکات میں موجود ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں بائیں بازو کی سیاست کے بچے کھچے حامی اب بھی پیپلز پارٹی سے رغبت رکھتے ہیں۔ وہ انتہائی حبس اور مذہبی انتہا پسندی کے ماحول میں سانس لینے کے لیے اس جماعت کو اب بھی گوشہء عافیت سمجھتے ہیں۔
پاکستان کی یہ بدقسمتی رہی ہے کہ جنرل ضیاء الحق کے دور سے لے کر آج تک پاکستان میں دائیں بازو اور مذہب کی سیاست کو فروغ دیا گیا ہے۔ اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت عوام بالخصوص نوجوانوں کو فکری طور پر غیر سیاسی بنا دیا گیا ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان کے نوجوانوں کی اکثریت کو آج دائیں اور بائیں بازو کی سیاست کا علم ہی نہیں ہے۔ اس میں ان کا قصور نہیں ہے۔ ہم نے تو بہت سے سابق سرخوں کو بھی یہ کہتے سنا ہے کہ دنیا سے بائیں بازو کی سیاست اب ختم ہو گئی ہے اس لیے ان اصطلاحات کو اب استعمال نہیں کرنا چاہیے۔ لیکن ان کا یہ دعویٰ درست نہیں ہے۔
دائیں بازو کے سیاستدان ہمیشہ سے قدامت پسند رہے ہیں۔ وہ مذہبی سیاست کے زبردست حامی ہوتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ضروری نہیں ہے کہ وہ خود یا ان کا معاشرہ بھی مذہبی ہو۔ وہ ایسا طاقتور یا امیر طبقات کے تحفظ کے لیے کرتے ہیں۔ وہ عوامی اور احتجاجی طاقت پر یقین نہیں رکھتے۔ ان کے نزدیک ریاست میں تبدیلی صرف پیسے کی طاقت سے لائی جا سکتی ہے۔ دوسری طرف بائیں بازو کی سیاست اصل مزاحمت کی سیاست ہے۔ یہ پسے ہوئے طبقات کے حقوق کے لیے کی جاتی ہے۔ یہ سیاست کسی مظلوم کی حمایت کرتے ہوئے یہ نہیں دیکھتی کہ وہ کتنا غریب ہے یا اس کا رنگ، نسل اور مذہب کیا ہے۔
پاکستان تحریک انصاف اور پاکستان کی تمام سیاسی جماعتوں کا المیہ یہ ہے کہ وہ عوامی احتجاج کے ذریعے تبدیلی لانے پر سرے سے یقین ہی نہیں رکھتیں۔ عمران سمجھتے ہیں کہ وہ صرف اور صرف فوجی حمایت کے ذریعے ہی دوبارہ طاقت میں آ سکتے ہیں۔ یہ ان کا اور ان کے حامیوں کا نظریہ ہے۔ آپ ان سے بات کریں گے تو اسی نتیجے پر پہنچیں گے کہ ان کے خیال میں فیلڈ مارشل عاصم منیر کی برطرفی اور ان کے حامی کسی جرنیل کی چیف آف آرمی اسٹاف کے عہدے پر تعیناتی ہی ان کی سیاسی کامیابی کی ضمانت ہے۔ یہ ان کا مطمح نظر ہے۔
کل سے آج تک سوشل میڈیا پر پی ٹی آئی کے حامیوں کی بہت سی پوسٹیں میری نظر سے گزریں۔ ان کو دیکھ کر "عمران کو رہا کرو” کے مطالبے کی وجہ یہی سمجھ میں آئی کہ "عمران اس ملک کے واحد مقبول رہنما ہیں، ان کی جماعت ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت ہے، وہ ایک سیاسی ہی نہیں بلکہ روحانی شخصیت بھی ہیں، وہ اللہ کے ولی ہیں، وہ بےلوث ہیں، وہ قوم کی خاطر جیل کاٹ رہے ہیں، انہوں نے انصافیوں کو سیاسی شعور دیا ہے ورنہ وہ تو جاہل تھے، اور ان کا کوئی نعم البدل نہیں ہے ۔
یہاں تک کہ پی ٹی آئی کے تمام رہنما نالائق اور خود غرض ہیں”۔ اگر یہ سیاسی شعور ہے جو عمران نے اس قوم کے نوجوانوں کو دیا ہے تو یہ بہت خوفناک صورتحال ہے۔ عوامی سطح پر پی ٹی آئی کے حامیوں میں یہ شعور موجود نہیں ہے کہ طاقت کا اصل سرچشمہ محنت کش عوام ہیں۔ یہ بائیں بازو کی سیاست ہے جو عوام کو یہ شعور دیتی ہے کہ محنت کش ایک ہو کر تخت گرا سکتے ہیں اور تاج اچھال سکتے ہیں۔ 16 نومبر 1988 کے انتخابات میں ملک کے سب سے بڑے اخبار نے پیپلز پارٹی کی فتح پر یہ سرخی لگائی تھی کہ "تخت الٹ گئے اور تاج اچھل گئے”۔
آج اگر عمران خان کو رہا کر دیا جائے تو پی ٹی آئی پلک جھپکتے میں دوبارہ منظم ہو جائے گی۔ ان کے لاکھوں حامی آنکھیں بند کر کے ان کے پیچھے چل پڑیں گے۔ انہیں اسٹیبلشمنٹ کی اشیرباد حاصل ہوئی تو وہ انتخابات میں بڑی اکثریت حاصل کر کے حکومت میں بھی آ جائیں گے۔ ظاہر ہے کہ یہی ان کی جماعت اور ان کے حامیوں کی خواہش ہو گی۔ لیکن کیا وہ اپنے دائیں بازو کے قدامت پسند اور گھسے پٹے نظریات کے ساتھ مزاحمتی سیاست کا عوامی شعور بیدار کر سکتے ہیں؟ یہ ناممکن ہے۔ کیونکہ وہ خود سرمائے کی بالادستی کے حامی ہیں اور سرمایہ دارانہ مفادات کے محافظ ہیں۔ مٹھی بھر سرمایہ داروں کے سامنے وہ لاکھوں محنت کش عوام کو حقیر سمجھتے ہیں اور اس بات کے قائل نہیں ہیں کہ مجبور اور لاچار محنت کش کبھی بھی کوئی سیاسی تبدیلی لا سکتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ ان کے تربیت یافتہ حامی بھی یہی سمجھتے ہیں۔ یقین نہ آئے تو ابھی ان سے پوچھ کر دیکھ لیں۔ ان کا جواب یہی ہوگا کہ "پیسے کے بغیر کچھ نہیں ہو سکتا”۔
فیس بک کمینٹ

