صدر مملکت آصف زرداری نے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں سیاسی ہم آہنگی پر زور دیا ہے اور کہا کہ اب ہم وقت ضائع نہیں کرسکتے ۔ ہمیں ایک نئے باب کا آغاز کرنا ہوگا۔ اس دوران میں تحریک ارکان کے ارکان کی شدید ہنگامہ آرائی جاری رہی اور وہ عمران خان کی تصویر والے بینر اٹھا کر اسپیکر کی نشست کے سامنے احتجاج کرتے رہے۔ ان میں عمران خان کی رہائی کا مطالبہ سر فہرست تھا۔
کسی بھی پارلیمنٹ میں اختلاف اور احتجاج تو کوئی نئی بات نہیں ہے لیکن عام طور سے یہی دیکھنے میں آتا ہے کہ جب ملک کا سربراہ حکومتی پالیسی واضح کرنے اور لائحہ عمل کے خدو خال نمایاں کرنے کے لیے سالانہ خطاب کے لیے آتا ہے تو ارکان عام طور سے صبر و سکون سے اس کی بات سنتے ہیں۔ بعد میں تقاریر کے دوران میں احتجاج یا اختلاف رائے رجسٹر کروایا جاسکتا ہے۔
البتہ آج قومی اسمبلی اور سینیٹ کے مشترکہ اجلاس میں ملک کے صدر کو علامتی احترام دینے کی یہ روایت دیکھنے میں نہیں آئی بلکہ تحریک انصاف کے ارکان نے ’گو زرداری گو یا چور چور‘ جیسے ناگوار نعروں سے صدر کی تقریر سننے سے انکار کیا اور کوشش کی گئی کہ کسی بھی طرح صدر مملکت کا خطاب ادھورا رہ جائے۔ البتہ آصف زرداری نے بھرپور قوت سے اپنی بات ایوان کے سامنے پیش کی اور ملک کو آگے لے جانے کے لیے مل جل کر کام کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔ ان کا بنیادی پیغام یہی تھا کہ سیاسی تقسیم ختم ہونی چاہئے اور معیشت کی بحالی کے لئے ہر پاکستانی اور تمام سیاسی لیڈروں و پارٹیوں کو اپنا حصہ ڈالنا چاہئے۔ البتہ دنیا بھر کے سفیروں اور ملکی و غیر ملکی میڈیا کے سامنے تحریک انصاف کے احتجاج سے واضح ہورہا تھا کہ اس پارٹی کے ارکان نہ تو مفاہمت کی بات سننا چاہتے ہیں اور نہ ہی وہ یہ چاہتے ہیں کہ کسی حکومتی نمائیندے کی طرف سے وسیع تر سیاسی اتفاق رائے اور قومی منصوبہ کی ضرورت پر دلائل کو سنا جائے۔
صدر کی تقریر کے خلاف تحریک انصاف کے اس شدت پسندانہ احتجاج سے اس کے سوا کوئی مقصد حاصل نہیں ہوسکتا کہ پارٹی فی الوقت موجودہ نظام کو ماننے اور اسے کام کرتے دیکھنے پر راضی نہیں ہے۔ اس مؤقف یا احتجاج کی بنیاد تو اسی اصول پر رکھی گئی ہے کہ 8 فروری کو منعقد ہونے والے انتخابات دھاندلی زدہ تھے ۔ اس لیے موجودہ حکومت کو نہیں مانا جاسکتا۔ تحریک انصاف کے بانی تواتر سے یہ کہنے لگے ہیں کہ ملک پر آرمی چیف کی حکومت ہے اور شہباز شریف کی حیثیت کٹھ پتلی سے زیادہ نہیں ہے۔ گزشتہ روز اڈیالہ جیل میں صحافیوں سے باتیں کرتے ہوئے انہوں نے جس لب و لہجہ میں بہاولنگر میں فوج و پولیس تنازعہ کا ذکر کیا ، اس کے ذریعے بھی درحقیقت وہ یہی پیغام عام کرنا چاہتے تھے کہ اس وقت نہ تو سیاسی جماعتوں کے اتحاد کی حکومت ہے اور نہ ہی شہباز شریف کے پاس بطور وزیر اعظم کوئی اختیارات ہیں۔ ان کا دعویٰ ہے کہ حقیقت میں جنرل عاصم منیر ملک کے حاکم ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جب بھی فوجیوں کا دل کرتا ہے وہ پولیس جیسے سول ادارے کے اہلکاروں کی ’پھینٹی‘ لگادیتے ہیں تاکہ لوگوں کو معلوم ہو کہ اصل حاکم کون ہے۔
یہ ایک سیاسی بیانیہ ہے۔ بدقسمتی سے ملک میں یہ سیاسی بیانیہ طویل عرصہ سے سنائی دے رہا ہے لیکن اسے درحقیقت سیاسی جماعتیں ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لیے ہی استعمال کرتی ہیں ۔ اس نظریہ کی بنیاد پر وسیع تر سیاسی اتحاد بنا کر سیاست میں فوجی اثر و رسوخ کم کرنے کے لیے کسی ٹھوس اور قابل عمل حکمت عملی کا حصہ نہیں بننا چاہتیں۔ بلکہ ہر سیاسی لیڈر اس تاک میں رہتا ہے کہ جب بھی موقع ملے تو فوج ہی کے تعاون سے سیاسی حریف کی گردن دبوچ لی جائے اور ملک کا اقتدار حاصل کرلیا جائے۔ حالانکہ ان سیاسی لیڈروں کو بخوبی علم ہونا چاہئے کہ اس طریقے سے یعنی دیگر سیاسی حریفوں کو عسکری قیادت کی مدد سے شکست دے کر اقتدار حاصل کرنے کا نتیجہ وہی نکلے گا جس کا مزہ خود عمران خان چکھ چکے ہیں اور اب شہباز شریف اسی صورت حال کا سامنا کررہے ہیں۔
یادش بخیر جب عمران خان 2018 کا انتخاب جیت کر اقتدار حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے تھے تو اپوزیشن میں موجود مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی نے بعینہ یہی رویہ اختیار کیا تھا۔ پیپلز پارٹی کے چئیرمین بلاول بھٹو زرداری نے قومی اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے ہی عمران خان پر ’نامزد وزیر اعظم‘ کی پھبتی کسی تھی ۔ بعد میں یہ الزام اتنا عام ہؤا کہ اسے اپوزیشن پارٹیوں کے سلوگن کی حیثیت حاصل ہوگئی۔ یہی سلوگن 2022 کے شروع میں عمران خان کے خلاف سیاسی اتحاد بنانے اور اسی سال اپریل میں انہیں عدم اعتماد کے ذریعے اقتدار سے محروم کرنے کا سبب بنا تھا۔ فرق بس یہ تھا کہ جو عسکری عناصر پہلے عمران خان کے پشت پناہ تھے، انہوں نے اپوزیشن کو عدم اعتماد کے لئے میدان ہموار کرنے کا اشارہ دے دیا تھا۔ یوں دیکھتے ہی دیکھتے جن چھوٹے سیاسی گروہوں کی بنیاد پر عمران خان نے قومی اسمبلی میں اکثریت حاصل کی تھی ، وہ بکھر گئی اور تحریک انصاف کی حکومت ختم ہوگئی۔
یہ واضح ہے کہ اس موقع پر اپوزیشن کا مقصد نہ تو ملک میں آئینی بالادستی کو یقینی بنانا تھا اور نہ ہی وہ معیشت کے بارے میں کسی پریشانی میں مبتلا تھی۔ بلکہ ان کے پیش نظر صرف یہی ایک مقصد تھا کہ عمران خان کے خلاف قومی اسمبلی میں اکثریت ملتی ہے تو اپنی حکومت قائم کی جائے۔ حالانکہ قومی اسمبلی کی مدت میں صرف 16 ماہ باقی تھے اور کسی بھی ذی شعور کو یہ سمجھنے میں کوئی دشواری نہیں ہونی چاہئے تھی کہ اس مختصر وقت میں کوئی بھی حکومت کوئی بڑا اور مشکل معاشی فیصلہ کرکے تبدیلی لانے کی پوزیشن میں نہیں ہوگی۔ ان حالات میں اوّل تو ایک غیر مقبول حکومت کے خلاف عدم اعتماد لانا ایک عاقبت نا اندیشانہ سیاسی فیصلہ تھا۔ اس پر مستزاد یہ کہ عدم اعتماد کے بعد نئے انتخابات کا اعلان کرنے کی بجائے شہباز شریف کی سربراہی میں بھان متی کے کنبے جیسی کمزور اور ناکارہ حکومت قائم کرلی گئی۔ اس وقت پیپلز پارٹی بھی اس حکومت کا حصہ تھی جس نے بعض ’اصولوں‘ کی وجہ سے اب شہباز شریف کی حکومت کو اعتماد کا ووٹ تو دیا ہے لیکن ان کی حکومت میں شامل ہونے سے گریز کیا ہے۔ البتہ ملک کی صدارت سمیت متعدد آئینی عہدے ضرور ’عوضانہ‘ کے طور پر مانگ لیے ہیں۔
اپریل 2022 میں اگر پی ڈی ایم کی حکومت قائم کرنے کی بجائے، انتخابات کروا لیے جاتے تو تقریباً یقین سے کہا جاسکتا ہے کہ اس وقت ملک میں جو شدید سیاسی نفرت او تقسیم دیکھنے میں آرہی ہے، اس سے بچا جاسکتا تھا۔ تاہم ہوس اقتدار کے علاوہ عسکری قیادت کو ’خوش‘ کرنے کی چاہ میں آصف زرداری اور نواز شریف جیسے سیاسی ’نابغے‘ کوبھی اس وقت جمہوریت کو پہنچنے والے نقصان کا کوئی اندازہ نہیں کرسکے۔ ان رویوں ہی کہ وجہ سے کہا جاسکتا ہے کہ پاکستانی سیاست دانوں کو نہ تو ملک میں جمہوری اداروں کے استحکام سے غرض ہے اور نہ ہی وہ کوئی بڑا قومی ہدف حاصل کرنے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ بلکہ اگر مزاج نازک پر گراں نہ گزرے تو یہ کہنے میں مضائقہ نہیں ہونا چاہئے کہ ملکی سیاسی لیڈروں کی گفتگو اور کردار اس حقیقت کی نشانددہی کرتی ہے کہ سیاسی لیڈروں کی موجودہ کھیپ درحقیقت پاکستان کو درپیش مسائل سمجھنے کی بنیادی صلاحیت سے ہی محروم ہے۔ وہ ابھی تک سیاست کو کھیل سمجھ کر عہدوں اور اختیارات کی تقسیم کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔ اس کااظہارکابینہ سازی اور عہدوں کی تقسیم سے بھی کیا جاسکتا ہے۔
بدقسمتی سے دو سال پہلے جو سیاسی ’کھیل‘ مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کھیل رہی تھیں، اب عمران خان اسی طریقے سے اپنے حریفوں کو مات دینا چاہتے ہیں۔ یعنی فوج حریف نہیں ہے بلکہ اس کا ساتھ مطلوب ہے۔ سیاسی لیڈروں کی اس سے صرف یہ لڑائی رہتی ہے کہ وہ ہمہ وقت اپنا وزن ایک ہی پلڑے میں کیوں نہیں ڈالتی۔ نواز شریف نے جب ’مجھے کیوں نکالا‘ کا نعرہ لگایا تھا تو ان کا شکوہ بھی یہی تھا ۔ اور اب عمران خان منتخب حکومت کو ’یرغمالی یا مسلط کردہ‘ قرار دے کر درحقیقت فوج سے یہی شکوہ کررہے ہیں کہ ’آخر مجھ میں کیا برائی تھی‘۔ اسی لیے بظاہر جنرل عاصم منیر کے خلاف نعرہ زنی کرتے ہوئے مسلسل انہیں یہ پیغام پہنچایا جاتا ہے کہ ’ہماری آپ سے کوئی لڑائی نہیں ہے‘۔ ہماری لڑائی صرف یہ ہے کہ شہباز کی بجائے عمران کو وزیر اعظم بننے میں مدد کیوں نہیں دی جاتی۔
سیاسی عاقبت نااندیشی کے اس سنگین ماحول میں اس سیاسی ہم آہنگی یا مشترکہ قومی مقاصد کی تکمیل کے لیے مل جل کر کام کرنے کا آغاز کیوں کر ہوسکتا ہے جن کا ذکر صدر مملکت نے اپنی گفتگو میں پرزور طریقے سے کیا ہے۔ آصف زرداری نے پولرائزیشن ختم کرنے کی بات توہے لیکن ان کی تقریر کا نچوڑ یہی ہے کہ یا تو انہوں نے خود اٹھارویں ترمیم کے ذریعے ملک میں جمہوری استحکام کے لیے کام کیا ہے یا پھر قائد اعظم کے بعد ’ ذوالفقار علی بھٹو اور بے نظیر بھٹو جمہوریت، وفاداری، رواداری اورسماجی انصاف کی علمبردار تھیں‘۔ 75 سال کی سیاسی تاریخ میں صدر مملکت کو اپنی پارٹی کے علاوہ کسی سیاسی لیڈر یا جماعت کے کردار میں کوئی ایسی خوبی دکھائی نہیں دی جس کا بالواسطہ حوالہ دے کر وہ وسیع تر قومی یک جہتی کا عملی مظاہرہ کرسکتے۔ اگر اسے گروہی سیاست نہیں کہتے تو نہ جانے اپنے اپنے نعرے اور اپنے اپنے لیڈر کا اور کیا مقصد ہوسکتا ہے۔
اسپیکر کی نشست کے سامنے تحریک انصاف کے نمائیندے جیخ و پکار کرتے سیاسی اتفاق رائے کے کسی بھی تصور کی دھجیاں بکھیر رہے تھے تو صدر آصف زرداری اپنی تقریر میں قومی اتحاد کو ایک گھرانے اور پارٹی تک محدود کرنے کا اصول بیان کررہے تھے۔ کیا عجب ہے کہ ایسے ملک میں غیر منتخب قوتوں کو شکست دینا ، ہر آنے والے دن کے ساتھ مشکل ہوتا جارہا ہے۔
( بشکریہ : کاروان ۔۔ ناروے )
فیس بک کمینٹ