ماضی میں بھی آصف زرداری اور پیپلز پارٹی کے قائدین یہ خواہش کا اظہار کرتے رہے ہیں کہ بلاول بھٹو زرداری کو وزیراعظم بننا چاہیے ۔ پارٹی کی طرف سے بلاول بھٹو زرداری کو ایک اہل اور قابل قبول وزیر اعظم کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کی جاتی رہی ہے۔ یعنی کہ بلاول بھٹو زرداری کو شہباز شریف کے بہتر متبادل کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ پیپلز پارٹی کا خیال ہے کہ اسٹبلشمنٹ کی ویسی ہی حمایت کی بدولت جو اس وقت شہباز شریف کو حاصل ہے، پیپلز پارٹی اور بلاول بھٹو زرداری بہت بہتر نتائج دے سکتے ہیں۔ اگر اس مؤقف کو تسلیم کر لیا جائے اور پیپلز پارٹی ایسی صورتحال پیدا کرنے میں کامیاب ہو جائے جہاں شہباز شریف کی حکومت سیاسی طور سے تنہا اور مجبور ہو جائے تو اسٹیبلشمنٹ کو بھی یقیناً اس کی حمایت سے ہاتھ کھینچنا پڑے گا ۔ ایسے میں شاید اسے پیپلزپارٹی کو ایک موقع دینا پڑے ۔
لیکن اس صورت میں ضروری ہوگا کہ پیپلز پارٹی کے پاس مسلم لیگ (ن) کی طرح متبادل سیاسی و پارلیمانی حمایت موجود ہو ۔ اس بات کا امکان نہیں ہے کہ شہباز شریف کو اگرحکومت سے دستبردار ہونا پڑتا ہے یا انہیں عدم اعتماد کا سامنا ہوتا ہے ، تو وہ مجبور ہوکر آئیندہ حکومت سازی میں تو پیپلز پارٹی کی حمایت کریں گے۔ اور یہ اعلان کریں کہ ٹھیک ہے، اگر ہم نہیں تو آپ حکومت بنا لیں تاکہ تحریک انصاف کا راستہ رکا جا سکے ۔ اس لیے سوچنا چاہئے کہ ایسے تنازعہ میں پیپلز پارٹی کے پاس کیا آپشن ہوں گے۔ موجودہ حکومت کو دھمکیاں دیتے ہوئے پیپلز پارٹی کو خود بھی اس بارے میں حقیقت پسندانہ انداز میں سوچنا چاہیے۔ کیونکہ پیپلز پارٹی کے پاس ایک ہی آپشن ہوگاکہ وہ تحریک انصاف کے ساتھ کچھ ایسا تعاون استوار کر سکے جو ایک نئی حکومت کی بنیاد بن سکے ۔ شہباز شریف کو ہٹا کر ایک ایسی حکومت قائم ہو جس میں بلاول بھٹو زرداری وزیراعظم ہوں اور تحریک انصاف ان کی حمایت کر رہی ہو ۔ گزشتہ سال انتخابات کے بعد پیپلز پارٹی، تحریک انصاف کے ساتھ ایسے تعاون کی خواہش ظاہر کرچکی تھی لیکن ناکام ہوئی تھی۔ اب بھی دونوں پارٹیوں کے درمیان قربت میں اضافہ نہیں ہؤا۔
اس کے علاوہ اس حقیقت کو بھی فراموش نہیں کیا جا سکتا کہ اسٹیبلشمنٹ تحریک انصاف کو کسی بھی قسم کی رعایت دینے پر آمادہ نہیں ہے۔ اس حوالے سے کافی واضح اشارے سامنے آ چکے ہیں کہ تحریک انصاف کو اس وقت تک کوئی رعایت نہیں دی جا سکتی جب تک وہ اپنے غلطیوں میں نادم نہ ہو۔ 9مئی اور 26نومبر کے حوالے سے وہ فوج کو مطعون کرنے کی بجائے خود اپنی غلطیوں کی ذمہ داری قبول کریں۔ تحریک انصاف اس معاملے میں کسی قسم کی لچک دکھانے پر تیار نہیں ہے۔ گزشتہ دنوں فوجی عدالتوں سے سزائیں پانے والے 19 افراد کو معافی دے کر رہا کیا گیاتھا۔ سانحہ 9مئی کے الزامات کے بعد سزا ملنے پر ان لوگوں کی معافی کے درخواست آرمی چیف نے قبول کی تھی۔ معافی ناموں میں ان لوگوں نے اپنی غلطیوں کا اعتراف کیا اور مستقبل میں ایسی غلطی نہ دہرانے کا وعدہ کیا تھا ۔ لیکن رہائی کے بعد ان کا چیف منسٹر ہاؤس پشاور میں خیر مقدم کیا گیا ۔ وہاں انہوں نے وہی نعرے لگائے جو تحریک انصاف کے عام لیڈر لگاتے ہیں اور فوجی عدالتوں میں مقدمات کو مسترد کر دیا ۔ اس صورتحال میں تحریک انصاف خود اپنے سیاسی امکانات کم کرتی جا رہی ہے ۔
شاید اسی صورتحال کو سمجھتے ہوئے اب تحریک انصاف کے مذاکراتی وفد میں شامل اسد قیصر نے مطالبہ کیا ہے کہ جب تک اصل بااختیار لوگوں کا نمائندہ بات چیت میں شامل نہیں ہوگا تو ایسے مذاکرات کا کوئی فائدہ نہیں ہوسکتا۔ ان کا کہنا تھا کہ فیصلہ سازی کااصل اختیار رکھنے والوں کی شمولیت کے بغیر بات چیت سے کیا حاصل ہوسکتا ہے؟ ظاہر ہے ان کا یہ اشارہ اسٹبلشمنٹ کی طرف ہے۔ تحریک انصاف پہلے بھی حکومت کی بجائے اسٹبلشمنٹ یا فوج کے ساتھ بات چیت پر اصرار کرتی رہی ہے لیکن فوج نے ایسی کسی درخواست کو قابل غور نہیں سمجھا تھا۔ اس کے بعد پی ٹی آئی نے اپنا رویہ نرم کیا تھا لیکن اب پارٹی ایک بار پھر پرانے مؤقف کی طرف لوٹنے کا اشارہ دے رہی ہے۔ اس کے ساتھ ہی اسد قیصرنے یہ انہونی شرط بھی رکھی ہے کہ مذاکرات کے دوران عمران خان سے کسی تعطل کے بغیر رابطہ رکھنے کی ضمانت دی جائے ورنہ یہ مذاکرات جاری نہیں رہ سکتے۔
حکومتی کمیٹی میں شامل سینیٹر عرفان صدیقی نے ان شرائط پر حیرت کا اظہار کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ تحریک انصاف نے طے شدہ طریقہ کے مطابق ابھی تک اپنے مطالبات تحریری طور سے پیش نہیں کیے۔ اب بات چیت کے لیے نئی شرائط سخت ہیں جن سے پورا مصالحتی عمل ہے خطرے میں پڑ سکتا ہے ۔ گو کہ ابھی یہ کہنا قبل از وقت ہوگا کہ حکومت اور تحریک انصاف کے درمیان ہونے والے مذاکرات کا انجام کیا ہوگا لیکن اس حوالے سے بداعتمادی کی موجودہ صورت حال کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ بظاہر کوئی بھی فریق اعتماد سازی کے لیے ایک قدم آگے بڑھانے پر راضی نہیں ہے۔
ان حالات میں حکومت ہی نہیں پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف کے لیے بھی امکانات محدود رہیں گے۔ سیاسی جماعتوں کو سمجھنا چاہئے کہ بحران جاری رکھنے سے نہ ملک کے مسائل حل ہوں گے اور نہ ہی سیاسی عمل کے لیے یہ خوش آئیند صورت حال ہوگی۔
( بشکریہ : کاروان ۔۔۔ ناروے )
فیس بک کمینٹ