نئے پاکستان میں پرانے مقدمات کے فیصلے اگر ہوجائیں تو 1947ء سے ایک طرف جھکا ہوا انصاف کا ترازو برابر آجائے گا۔کرائے کے مورخین کے ہاتھوں لکھوائی گئی تاریخ درست ہوجائے تو ہماری کوئی سمت متعین ہو ۔ قاتل غازی اور مقتول شہید کے نعرے قابل تعزیر جرم قرار پائیں ، مگر کون ان تاریخی مقدمات کا فیصلہ کرے؟
جبرکے حوالات سے تنہائی کے زندان تک ، قرارداد پاکستان سے قیام پاکستان تک ، پاکستان کے پہلے سرکاری قتل سے عدالتی خون تک اور سب سے اہم جمہوری نظام میں غیر سیاسی قوتوں کے کردار تک کی تحقیقات باقی ہیں۔عدلیہ اور میڈیا تک غیر جانبدار نہ رہ سکے ، کیوں نہ رہ سکے؟ اس کی تحقیقات بھی ضروری ہیں۔بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کے معالج کرنل ڈاکٹر الہی بخش کی کتاب”قائد اعظم کے آخری ایام “ پر 1949ءسے 1976ءتک پابندی کس نے لگائی ؟
آخری وقت اور آخری ملاقاتی کے بارے مادرِ ملت فاطمہ جناح کے الفاظ کیا تھے اور کس کے بارے تھے؟گورنر جنرل پاکستان کو کھٹارا ایمبولینس کس کے حکم پر فراہم کی گئی؟بیماری کے عالم میں امریکہ اور برطانیہ علاج کروانے والوں نے کس مقصد کےلئے محمد علی جناح کو ایک پہاڑی جنگل میں بھیجا جہاں کوئی طبی سہولت بھی میسر نہ تھی۔نئے پاکستان میں تحقیقات ،یہاں سے شروع ہونی چاہیے کہ پہلے وزیر اعظم کو قتل کس نے کروایا اور کیوں کروایا؟پھر قاتل کو قتل کروا کر تحقیقات کا دروازہ بند کرانے میں کس کا ہاتھ تھا؟پاکستان کے قومی خزانے پر سب سے پہلے ڈاکہ کس نے ڈالا؟ یہ تحقیقات بھی ادھوری ہیں۔ مادر ملت فاطمہ جناح کو غدار کے گولڈ میڈل سے کیوں نوازا گیا؟نیا پاکستان ان تحقیقات کا متحمل ہوسکتا ہے تو کسی کے بیانیے کی کیا اوقات، تحقیقات کے بعد مجرم ثابت ہونے والوں کو قبروں سے نکال کر پھانسی پر لٹکانے کا مطالبہ بھی نہیں ، صرف تاریخ کو درست کرنا مطلوب ہے تو بھٹو کے عدالتی قتل کے فیصلے پر بھی نظر ثانی کرلی جائے کہ اتنا مہنگا انصاف اس وقت ریڑھی پر بکنے والے گلے سڑے پھلوں سے بھی سستا ہوگیا تھا کہ تعزیرات پاکستان کی فوجداری دفعہ109پر سزائے موت دے دی گئی اور مذکورہ دفعہ پر یہ پہلی اور آخری سزا تھی ۔ اس سستے انصاف کی فراہمی کے پیچھے کس کا ہاتھ تھا ۔ اگر دستانے اتار لیے جائیں تو عدالتی تاریخ بھی شرمندگی سے بچ سکتی ہے۔پاکستان میں دہشت گردی کا آغاز کس گھر سے ہوا ، یہ تحقیقات بھی ضروری ہیں کیونکہ اس چڑیل نے صرف گھر نہیں اجاڑے بلکہ حال کے ساتھ ساتھ مستقبل بھی مشکوک کردیا۔بے نظیر بھٹو کا خون بھی حساب مانگتا ہے اور اس کے کئی کردار تو ابھی زندہ و تابندہ ہیں ۔ محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر سے ٹی وی پر کس نے معافی منگوائی ؟ کیمیائی ٹیکنالوجی کی منتقلی کی لاش ایٹمی سائنسدان کے گلے میں ڈال کر کس کس نے معصومیت کا سرٹیفیکیٹ لیا؟چوہدری شجاعت حسن نے اپنی کتاب میں آدھا سچ تو لکھ دیا اور آدھا ابھی تحقیقات کا طلب گار ہے۔انصاف کا ترازو ابھی تک ایک سمت میں جھکا ہے اسے توازن میں لانے کے لئے یہ ساری تحقیقات ضروری ہیں۔تحقیقات کے بعد سزا و جزا مقصد نہیں بلکہ ہم صرف تاریخ اور ریکارڈ درست کرنے کے خواہاں ہیں۔اگریہ واقعی نیا پاکستان ہے تو تحقیقات بھی نئے انداز سے ہونی چاہیں ورنہ چہرے تو پہلے بھی بدلتے رہے۔
فیس بک کمینٹ