چیف جسٹس آف پاکستان میاں ثاقب نثار نے ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن ملتان سے خطاب کرتے ہوئے دل کی بات کہہ دی انہوں نے کہا ”گلگت بلتستان میں جرائم کی شرح نہ ہونے کے برابر ہے مگر جب ہم نے ڈیمز بنانے کی بات کی تو پاکستانی تاریخ کا سب سے بڑاسانحہ 12گرلز سکولوں کو جلا کر راکھ کردینے کی شکل میں رونما ہوا۔ آخر کونسی طاقتیں ہیں جو پاکستان کو ترقی کرتے ہوئے نہیں دیکھ سکتیں“۔
جناب چیف جسٹس صاحب یہ وہی طاقتیں ہیں جو ملک میں دھماکے کرواتی ہیں ، منصفا نہ انتخابات نہیں ہونے دیتیں،جمہور کی آواز کو دبایا جاتا ہے اور عوام میں مقبول ہونے والی جمہوری طاقتوں کو راستے سے ہٹا دیا جاتا ہے ۔ اب تعلیم کے دشمن ہار چکے ، ہارنے والے بزدل بھی ہیں اور جاہل بھی ، صرف لڑکیوں کے سکولوں کو جلایا گیا ۔ دیامر کے کوہستانی پہلی بار ایسا نہیں کررہے ۔ چلاس موڑ کے قریب درہ بابو سر سے اترتے ہی مسافر بسوں کو روک کر نگر اور ہنزہ جانے والے پردیسیوں کو قتل کیا گیا ۔ ان چالیس افراد کے قتل کے بعد پھر پچیس مسافر ماردیے گئے۔ سکردو اور گلگت کے لوگ کوہستان کے راستے گھر جانے سے ڈرتے ہیں اور پہاڑوں کے بیچوں بیچ محفوظ ٹنل کا مطالبہ بھی درست ہے کہ جینے کو کس کا دل نہیں کرتا۔ مجھے پاکستا ن کے خوبصور ت گاؤں ترشنگ میں سکردو کے عباس صدپارہ نے بھی اپنے دکھ کا اظہار کیا کہ اسلام آباد ، پشاوریا لاہور جانے کے لئے ہمارے پاس صرف کوہستان کا راستہ ہے اور وہاں ہمارا قاتل دندناتا پھرتا ہے کوئی حکومت ہمیں جینے کا حق دے اور چلاس کے ان پیشہ ور قاتلوں کو لگام دے۔پھر ایک شام نانگا پربت کی چوٹی سر کرنے کی خواہش لئے امریکا، اٹلی اور سپین سے آئے گیارہ کوہ پیما قتل ہوئے تو قاتل کوہستانی تھے مگر یہ سب واقعات کم تر تھے کہ چند لوگ قتل کئے گئے مگر اب ہزاروں ماؤں ، بہنوں اور بیٹیوں کو تعلیم سے دور رکھنے کےلئے ان کے 12سکول جلا دیے گئے ۔ پالنے والے نے فرمایا” کہہ دو کہ عالم اور جاہل برابر نہیں ہوسکتے“ سکول جلانے والے اب سمجھدار ہوگئے ہیں کہ فرد کو قتل کرنے سے صرف ایک خاندان تباہ ہوتا ہے اور سکولوں کو تباہ کرنے سے ایک قوم تباہ ہوگی۔ دہشت گردوں کا مشیر اور سکرپٹ رائٹر سمجھد ار ہے جس نے کہیں سے سن لیا ہوگا کہ ”مجھے ایک تعلیم یافتہ ماں دو میں تمہیں ایک تعلیم یافتہ قوم دوں گا“ ۔ متعد د بار ہم اپنے بچوں کو لئے چلاس سے گزرے ، جگلوٹ رکے اور ضلع دیامر میں راتوں کے مسافر رہے مگرا ب نہیں رہیں گے کہ قاتل دندناتا پھرتا ہے ۔ سوات کے پہاڑی سکولوں میں پڑھنے والی ایک بچی/ملالہ تعلیم کے دشمنوں پر بھاری رہی اگر دیا مر کے پہاڑی سکولوں کو تباہ نہ کیا جاتا تو سینکڑوں ملالائیں کیسے سنبھالی جاتیں ۔
پاکستان کی سیکورٹی ایجنسیوں سے صرف کوہستان ہی نہیں سنبھالا جارہا کہ ساری شدت پسندی چلاس اور اس کے گردو نواح میں کیوں ہے ۔ گونر فارم سے رائے کوٹ پل اور جگلوٹ ہی قانون کے دائرہ سے کیوں باہر ہیں ؟ دشمنوں کی کیا چال ہے کہ ایک ہی رات میں چلاس ، گیال، داریل، تبوڑا ور تانگیر کے سکول جلائے گئے ۔ دو آرمی پبلک سکول بھی تباہ کردیے گئے ۔گلگت بلتستان کے پرامن اور خوبصور ت علاقے کو ایک سازش کے تحت نشانہ بنایا گیا ۔ وہی سازش جو ضیاءالحق کے زمانے میں اہل سکردو نے بھگتی تھی جب سکردو کو مذہبی نفرت میں جھلسانے کی کوشش کی گئی اور پھر سکرپٹ رائٹر ز کو ناکامی ہوئی ۔ اب سکولوں کو جلانے والوں کو بھی ناکامی ہوگی کیونکہ جب نیتیں ہی صاف نہ ہوں تو ناکامی ہی مقدر میں لکھ دی جاتی ہے۔
قراقرم سے گزرتے ہوئے اور جگلوٹ میں قیام کے دوران ہم نے کتنی بچیوں کو خوش و خرم سکول بیگ اٹھائے سکولوں کی طرف جاتے دیکھا تھا مگر ا ب ان کے لئے پورے علاقے میں کوئی سکول نہیں رہا ۔ ایک سو کلومیٹر کے علاقے میں قائم تمام سکول جلادیے گئے۔
پاکستان کی تاریخ کا بڑا درد ناک واقعہ تھا جب آرمی پبلک سکول کے بچوں کو قتل کیا گیا مگر یہ واقعہ بھی تاریخ کا بڑا سانحہ ہے جب علم و عقل کے میدان میں مقابلہ نہ کرسکنے والے جاہل اب درسگاہوں کو جلارہے ہیں اور درسگاہیں بھی صرف معصوم بیٹیوں کی ۔ اس جدید دور میں ہم کس قدر نہتے اور بے بس ہیں کہ ہمار مستقبل تباہ کردیا گیا اور دشمن نہیں مل رہا ۔ قراقرم فورس، گلگت پولیس اور ہمارے مستقبل کی حفاظت کے ضامن ادارے بچیوں کو تعلیم کا بنیاد ی حق دینے میں اپنا کردار ادا کریں اور علم دشمن قوتوں کا چہرہ بے نقاب کریں ۔ جگلوٹ کے آرمی سکول ، گلی بالااور گلی پائین کی بچیاں اپنے سکول بیگ لئے راکھ کے ڈھیر پر بیٹھی اپنے مسیحا کی منتظر ہیں۔
چیف جسٹس آف پاکستان میاں ثاقب نثار نے درست فرمایا کہ ڈیم کی تعمیر اور فنڈز جمع کرنے کے حکم کے بعد دیامر میں صرف گرلز سکولوں کا جلایا جانا کوئی عام سی بات نہیں ، دشمن کوئی ہم میں سے ہے ۔
جناب چیف جسٹس صاحب یہ وہی طاقتیں ہیں جو ملک میں دھماکے کرواتی ہیں ، منصفا نہ انتخابات نہیں ہونے دیتیں،جمہور کی آواز کو دبایا جاتا ہے اور عوام میں مقبول ہونے والی جمہوری طاقتوں کو راستے سے ہٹا دیا جاتا ہے ۔ اب تعلیم کے دشمن ہار چکے ، ہارنے والے بزدل بھی ہیں اور جاہل بھی ، صرف لڑکیوں کے سکولوں کو جلایا گیا ۔ دیامر کے کوہستانی پہلی بار ایسا نہیں کررہے ۔ چلاس موڑ کے قریب درہ بابو سر سے اترتے ہی مسافر بسوں کو روک کر نگر اور ہنزہ جانے والے پردیسیوں کو قتل کیا گیا ۔ ان چالیس افراد کے قتل کے بعد پھر پچیس مسافر ماردیے گئے۔ سکردو اور گلگت کے لوگ کوہستان کے راستے گھر جانے سے ڈرتے ہیں اور پہاڑوں کے بیچوں بیچ محفوظ ٹنل کا مطالبہ بھی درست ہے کہ جینے کو کس کا دل نہیں کرتا۔ مجھے پاکستا ن کے خوبصور ت گاؤں ترشنگ میں سکردو کے عباس صدپارہ نے بھی اپنے دکھ کا اظہار کیا کہ اسلام آباد ، پشاوریا لاہور جانے کے لئے ہمارے پاس صرف کوہستان کا راستہ ہے اور وہاں ہمارا قاتل دندناتا پھرتا ہے کوئی حکومت ہمیں جینے کا حق دے اور چلاس کے ان پیشہ ور قاتلوں کو لگام دے۔پھر ایک شام نانگا پربت کی چوٹی سر کرنے کی خواہش لئے امریکا، اٹلی اور سپین سے آئے گیارہ کوہ پیما قتل ہوئے تو قاتل کوہستانی تھے مگر یہ سب واقعات کم تر تھے کہ چند لوگ قتل کئے گئے مگر اب ہزاروں ماؤں ، بہنوں اور بیٹیوں کو تعلیم سے دور رکھنے کےلئے ان کے 12سکول جلا دیے گئے ۔ پالنے والے نے فرمایا” کہہ دو کہ عالم اور جاہل برابر نہیں ہوسکتے“ سکول جلانے والے اب سمجھدار ہوگئے ہیں کہ فرد کو قتل کرنے سے صرف ایک خاندان تباہ ہوتا ہے اور سکولوں کو تباہ کرنے سے ایک قوم تباہ ہوگی۔ دہشت گردوں کا مشیر اور سکرپٹ رائٹر سمجھد ار ہے جس نے کہیں سے سن لیا ہوگا کہ ”مجھے ایک تعلیم یافتہ ماں دو میں تمہیں ایک تعلیم یافتہ قوم دوں گا“ ۔ متعد د بار ہم اپنے بچوں کو لئے چلاس سے گزرے ، جگلوٹ رکے اور ضلع دیامر میں راتوں کے مسافر رہے مگرا ب نہیں رہیں گے کہ قاتل دندناتا پھرتا ہے ۔ سوات کے پہاڑی سکولوں میں پڑھنے والی ایک بچی/ملالہ تعلیم کے دشمنوں پر بھاری رہی اگر دیا مر کے پہاڑی سکولوں کو تباہ نہ کیا جاتا تو سینکڑوں ملالائیں کیسے سنبھالی جاتیں ۔
پاکستان کی سیکورٹی ایجنسیوں سے صرف کوہستان ہی نہیں سنبھالا جارہا کہ ساری شدت پسندی چلاس اور اس کے گردو نواح میں کیوں ہے ۔ گونر فارم سے رائے کوٹ پل اور جگلوٹ ہی قانون کے دائرہ سے کیوں باہر ہیں ؟ دشمنوں کی کیا چال ہے کہ ایک ہی رات میں چلاس ، گیال، داریل، تبوڑا ور تانگیر کے سکول جلائے گئے ۔ دو آرمی پبلک سکول بھی تباہ کردیے گئے ۔گلگت بلتستان کے پرامن اور خوبصور ت علاقے کو ایک سازش کے تحت نشانہ بنایا گیا ۔ وہی سازش جو ضیاءالحق کے زمانے میں اہل سکردو نے بھگتی تھی جب سکردو کو مذہبی نفرت میں جھلسانے کی کوشش کی گئی اور پھر سکرپٹ رائٹر ز کو ناکامی ہوئی ۔ اب سکولوں کو جلانے والوں کو بھی ناکامی ہوگی کیونکہ جب نیتیں ہی صاف نہ ہوں تو ناکامی ہی مقدر میں لکھ دی جاتی ہے۔
قراقرم سے گزرتے ہوئے اور جگلوٹ میں قیام کے دوران ہم نے کتنی بچیوں کو خوش و خرم سکول بیگ اٹھائے سکولوں کی طرف جاتے دیکھا تھا مگر ا ب ان کے لئے پورے علاقے میں کوئی سکول نہیں رہا ۔ ایک سو کلومیٹر کے علاقے میں قائم تمام سکول جلادیے گئے۔
پاکستان کی تاریخ کا بڑا درد ناک واقعہ تھا جب آرمی پبلک سکول کے بچوں کو قتل کیا گیا مگر یہ واقعہ بھی تاریخ کا بڑا سانحہ ہے جب علم و عقل کے میدان میں مقابلہ نہ کرسکنے والے جاہل اب درسگاہوں کو جلارہے ہیں اور درسگاہیں بھی صرف معصوم بیٹیوں کی ۔ اس جدید دور میں ہم کس قدر نہتے اور بے بس ہیں کہ ہمار مستقبل تباہ کردیا گیا اور دشمن نہیں مل رہا ۔ قراقرم فورس، گلگت پولیس اور ہمارے مستقبل کی حفاظت کے ضامن ادارے بچیوں کو تعلیم کا بنیاد ی حق دینے میں اپنا کردار ادا کریں اور علم دشمن قوتوں کا چہرہ بے نقاب کریں ۔ جگلوٹ کے آرمی سکول ، گلی بالااور گلی پائین کی بچیاں اپنے سکول بیگ لئے راکھ کے ڈھیر پر بیٹھی اپنے مسیحا کی منتظر ہیں۔
چیف جسٹس آف پاکستان میاں ثاقب نثار نے درست فرمایا کہ ڈیم کی تعمیر اور فنڈز جمع کرنے کے حکم کے بعد دیامر میں صرف گرلز سکولوں کا جلایا جانا کوئی عام سی بات نہیں ، دشمن کوئی ہم میں سے ہے ۔
فیس بک کمینٹ