یہ ان دنوں کے قصے ہیں جب عمران خان کا شوکت خانم ہسپتال زیر تعمیر تھا اور وہ دنیا بھر میں فنڈ ریزنگ ڈنر اور کانسرٹ کر رہا تھا۔ یہ حقیقت ہے کہ ایسے ڈنر بھی ہوئے جن میں خواتین نے اپنے زیور اتار کر عمران خان کی جانب اچھال دیے۔ اس مہم میں نہ صرف مشہور راک سنگر مائک جیگر شامل تھا بلکہ نصرت فتح علی خان نے بھی اپنی گائیکی اس کے لیے وقف کر دی۔ انہی زمانوں میں دلدار پرویز بھٹی اس کے ایک شو کی میزبانی کرنے کے لیے نیو یارک گیا اور دماغ کی رگ پھٹنے سے اس کا انتقال ہو گیا۔ مجھے امید ہے کہ عمران خان‘ دلدارپرویز بھٹی کو وزیر اعظم ہونے کے بعد کبھی نہ کبھی یاد کرے گا۔ جب وہ سیاست کے کوچے میں آیا تو نہایت نامعقول قسم کے سیاست دانوں نے کہا کہ یہ تو ایک بھک منگا ہے۔ لوگوں سے چندے مانگتا پھرتا تھا۔ اگر پیمانہ یہی ہے تو اس صدی کا سب سے بڑا انسان عبدالستار ایدھی بھی تو بھیک مانگتا تھا۔ اپنے لیے نہیں خلق خدا کے دکھوں کا مداوا کرنے کے لیے مانگتا تھا۔ کسی صوفی بزرگ نے کہا تھا کہ خلق خدا کے لیے بھیک مانگنا صوفیا کرام کا شیوہ ہے۔ ان دنوں شوکت خانم ہسپتال کے احاطے میں جتنے بھی فنڈریزنگ فنکشن ہوتے‘ زبردست نوعیت کے کھانے ہوتے مجھے ان میں مدعو کیا جاتا۔ خان صاحب کے پرائیویٹ سیکرٹری ایک عجیب اتفاق ہے‘ مستنصر نام کے تھے اور وہ کارڈ بھیجنے کے علاوہ فون پر یاددہانی کرواتے کہ عمران خان نے خصوصی طور پر کہا تھا کہ آپ ضرور شامل ہوں اور میں شامل ہوتا۔ اگرچہ مجھے یقین ہوتا کہ بقیہ سینکڑوں مہمانوں کو فون کر کے خان صاحب کا یہی ’’خصوصی‘‘ پیغام پہنچایا جاتا تھا۔ ان موقعوں پر محض رسمی سلام دعا ہوتی یہاں تک کہ جب پرنس ڈیانا شوکت خانم کے احاطے میں جلوہ گر ہوئیں تو خاں صاحب سے رسمی دعا سلام بھی نہ ہوئی اور میں انہیں مورد الزام نہیں ٹھہراتا۔ ڈیانا اگر میری خصوصی مہمان ہوتی تو میں بھی طوطا چشم ہو جاتا۔ عمران خان نے جب سیاست میں قدم رکھنے کا فیصلہ کیا تو ان دنوں جاپان کے سب سے بڑے ٹیلی ویژن چینل نے ان کے بارے میں ایک طویل ڈاکو منٹری تیار کی۔ ان کے پاکستانی نمائندے نے مجھ سے رابطہ کیا کہ پاکستان کے صرف چند لوگوں کو انٹروشو کے لیے چنا گیا ہے اور میڈیا اور ادب کے شعبے سے آپ ان کے بارے میں گفتگو کریں گے۔ میں نے کہا کہ حضور میں بالکل تیار ہوں البتہ ایک گزارش ہے۔ میں ایک پروفیشنل میڈیا پرسن ہوں۔ یہ میرا روزگار ہے آپ فرمائیں کہ عمران خان کے بارے میں گفتگو کرنے کے لیے آپ مجھے کتنی ادائیگی کریں گے؟ پاکستانی نمائندے ذرا دنگ رہ گئے۔ کہنے لگے ’’تارڑ صاحب… ہمیں‘ درجنوں لوگ فون کر رہے ہیں کہ ہم اس ڈاکومنٹری میں گفتگو کرنا چاہتے ہیں۔’’میں نے پھر گزارش کی کہ حضور آپ ان کے انٹرویو کر لیں میں ادائیگی کے بغیر شامل نہیں ہو سکتا۔ اس پر موصوف کہنے لگے ’’تارڑ صاحب اس ڈاکو منٹری کو کروڑوں لوگ دیکھیں گے۔ جاپان کے بچے بھی آپ سے واقف ہو جائیں گے۔ میں اب قدرے ترش ہو گیا اور کہا ’’بے شک میں جاپان کے طول و عرض میں مشہور ہو جاؤ ں گا لیکن اس سے مجھے کیا فائدہ ہو گا۔ میں نے تو جاپان جانا ہی نہیں۔ اور جہاں تک مشہوری کا معاملہ ہے تو یقین کیجیے کہ اس سلسلے میں ‘ میں پاکستان میں خودکفیل ہوں’’قصہ مختصر جاپانی ٹیلی ویژن نے مجھے ادائیگی بہت مناسب کر دی یہ انٹرویو اسلام آباد کے ایک لاج میں ہوا۔ بہت مختصر کرتا ہوں جو کچھ میں نے آن ریکارڈ کہا۔ یعنی میری خواہش ہے کہ عمران سیاست کی دلدل میں قدم نہ رکھیں یہاں بہت دغا باز ‘ فریبی اور دو نمبر لوگ ہیں۔ ایسے کوے ہیں جن کے درمیان اگر کوئی ست رنگ پرندہ آ جائے تو اسے نوچ کھاتے ہیں۔ وہ اگر اپنے آپ کو خلق خدا کی فلاح کے لیے وقف کئے رکھیں تو ان کے حق میں بہتر ہو گا۔ انہیں کرکٹ کی عادت ہے۔ اگر مخالف کو آؤ ٹ کر دیا تو وہ سر جھکا کر پیولین کا رخ کر لے گا لیکن سیاست میں اگر آپ اس کی تینوں وکٹیں گرا دیں تو وہ پھر بھی کریز پر کھڑا رہے گا اور کہے گا کہ میں تو ناٹ آؤ ٹ ہوں کر لو جو کرنا ہے۔ تو عمران خان اگر سیاست میں نہ آئیں تو اس ملک کے لیے اور ان کے لیے بہتر ہو گا۔ بعدازاں مجھ تک خبر پہنچ گئی کہ عمران خان نے میری گفتگو کو پسند نہ کیا لیکن ذرا دیکھئے تو سہی کہ آج کیا ہو رہا ہے۔ درجنوں مہان سیاست دانوں کی تینوں وکٹیں جڑ سے اکھڑ کر فضائے بسیط میں پرواز کر رہی ہیں اور وہ کریز پر کھڑے ہیں کہ ہم تو ناٹ آؤ ٹ ہیں۔ ہم ہرگز پیولین کو واپس نہیں جائیں گے۔ گرینڈ الائنس بنائیں گے۔ میری آخری ملاقات عمران خان کے گھر زمان پارک میں ہوئی انہوں نے مجھے رات کے کھانے کے لیے مدعو کیا۔ مجھے حیرت ہوئی کہ زمان پارک کا یہ گھر بہت ہی سادہ بلکہ کسی حد تک بوسیدہ تھا۔ صوفے پرانے تھے اور پردے بھی اپنا رنگ کھو چکے تھے مجھے اس لیے بھی حیرت ہوئی کہ جمائما ان دنوں اسی گھر میں مقیم تھی۔ تو وہ شاندار شکل والی وحشی سنہرے چہرے والی ارب پتی خاتون آخر کیسے اس گھر میں رہتی ہے۔ اس دوران عمران خان مجھ سے بہت فرینڈلی نہ ہوئے۔ انہوں نے کچھ سوال کئے اور میں نے حسب توفیق جواب دیے لیکن میں نے محسوس کیا کہ یہ ایک ایسا شخص ہے جو پاکستان کے لیے فکر مند ہے۔ مجھ ایسے شخص سے بھی مشورے کر رہا ہے کہ مجھے پاکستان کے لیے کیا کرنا چاہیے۔ ڈنر ٹیبل پر آراستہ کوئی پر تکلف طعام نہ تھا۔ ایک دیسی سادگی تھی۔ میں نے نوٹ کیا کہ عمران خود یونہی خوراک پر چونچیں مار رہے ہیں۔ کھاتے کچھ نہیں اور بہت اصرار کے ساتھ مجھے کھلا رہے ہیں کہ یہ لیجیے۔ یہ بھی چکھئے۔ بہت مدت ہو چکی زمان پارک کی اس شب کو ۔ مجھے صرف یہ یاد ہے کہ میں سوچتا تھا کہ آخر جمائما گولڈ سمتھ ایسے گھر میں کیسے رہتی ہے اور عمران خان کے چہرے پر پاکستان کے لیے ایک فکر مندی تھی۔ اور ہاں۔ میں نہایت آسانی سے دعویٰ کر سکتا تھا کہ عمران خان نے مجھے ذاتی طور پر اپنے گھر ڈنر کے لیے مدعو کیا تو اس نے کہا کہ آپ اس ملک کے مایہ ناز ادیب اور ٹیلی ویژن کی مزید مایۂ ناز شخصیت ہیں تو میں آپ سے درخواست کرتا ہوں کہ آپ تحریک انصاف میں شامل ہو کر پاکستان کی تقدیر جگا دیں۔ نہیں‘ ہرگز نہیں۔ اس ڈنرڈیٹ پر عمران خان نے ملکی صورت حال‘ ثقافت اور ادب کے بارے میں مجھ سے کچھ سوال کئے۔ مجھے قطعی طور پر تحریک انصاف میں شمولیت کی دعوت نہ دی۔ بفرض محال اگر وہ دعوت دیتا تو بھی شائد میں قبول نہ کرتا۔ اگر میں نے سیاسی ہونا ہوتا تو ضیاء الحق کے آسمانوں پر اٹھ جانے پر‘ پیپلز پارٹی کی جانب سے نیشنل اسمبلی کا الیکشن لڑنے کے لیے دعوت قبول کر لیتا۔ مجھے ان دنوں صرف ’’خلائی مخلوق‘‘ سے شکایت ہے اس نے یہ کیسی دخل اندازی کی کہ گوجرانوالہ‘ سیالکوٹ‘شیخو پورہ‘ فیصل آباد وغیرہ سے نون لیگ کثرت سے جیت گئی۔ عمران خان کی کیسی پشت پناہی کی کہ وہ سادہ اکثریت کے لیے دھکے کھاتا پھرتا ہے۔ یہاں تک کہ ایم کیو ایم کے دروازوں پر دستک دیتا ہے۔ خلائی مخلوق مجھے تم سے بہت گلاہے۔ اگر تم نے بدنامی مول لینی تھی تو عمران خان کے الیکشن ڈبے میں کم از کم دو سو نشستیں تو ڈال دیتی۔ خلائی مخلوق اگر ہوتی تو ایسا ہوتا۔ الیکشن میں خلائی نہیں خدائی مخلوق تھی جس نے عمران خان کو ووٹ دیا۔ آپ چیک کر لیجیے۔ میرے انگوٹھے پر سیاہی کا ایک نشان ہے اور میں خدائی مخلوق ہوں۔
( بشکریہ : روزنامہ 92 نیوز )
فیس بک کمینٹ