ڈیمز کی تعمیر اور قبضہ مافیا کے خلاف آپریشن کا معاملہ اب شائد ویسے نہ دیکھا جاسکے جیسے دیکھا جارہا تھا مگر انصاف کے لئے دربدر ہوجانے والے بے سہارا لوگ پوچھتے پھرتے ہیں کہ نئے آنے والے چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کیسے جج ہونگے ؟ سائل جو عدالتوں کی راہداریوں میں اپنا دن اور وکلاءکے چیمبرز میں اپنی جیبیں ”گزارتے “ ہیں، اس عمل کے بدلے انہیں صرف ایک نئی تاریخ مل جاتی ہے، ان مدعیوں کی نظر اب نئے آنے والے چیف جسٹس پر ہے۔
کروڑوں روپے فنڈز جو ڈیمز کی تعمیر کے لئے جمع ہوئے ، ہسپتالوں کی صورتحال پر از خود نوٹس لیتے ہوئے غریب مریضوں کو علاج کی سہولیات کی فراہمی، قبضہ مافیا سے سرکاری و نجی اراضی کا واگزار کرانا ، سفارش کرنے والے وزراءکو نشان عبرت بنا دینا چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کے ایسے کا م ہیں جنہیں تاریخ یاد رکھے گی مگر ہمارا عدالتی نظام جو بے پناہ توجہ کا طالب تھا ، نظر انداز کیا جاتا رہا۔کسی نے سول جج سے لے کر ہائیکورٹس تک کی عدالتوں میں ملتوی ہونے والے مقدمات کی خبر نہیں لی۔ بیس بیس سال سے چلنے والے حکم امتناعی عدالتوں کا منہ چڑاتے ہیں۔ سامان جہیز مانگنے والی سائلہ اس وقت معاشرے میں مذاق بن جاتی ہے جب اس کا سامان اس کے شوہر کی دوسری بیوی دھڑلے سے استعمال کررہی ہوتی ہے اور ادھر تاریخ پہ تاریخ کی گردان جاری رہتی ہے۔
قابل ضمانت جرائم میں ملوث ملزم سال ہا سال سے اس لئے جیلوں میں پڑے ہیں کہ ارجنٹ لسٹ کے بعد جب ضمانتوں کی سماعت کا وقت ہوتا ہے تو جج صاحبان کیس Left Overکرکے ڈویژن بنچ میں چلے جاتے ہیں اور آئندہ اپنا کیس لگوانے کے لئے ملزم کے ورثاءکو پھر کچھ نیلام کرکے برانچ کے اہلکاروں کو رام کرنا پڑتا ہے ۔ 1989ءمیں دائر کیے گئے دیوانی نوعیت کے مقدمات اب تک التواءکی فہرستوں میں پڑے ہیں ۔”دادے کی طرف سے دائر کیے گئے کیس کا فیصلہ پوتا سنتا ہے“ والا جملہ حرف بہ حرف درست ہے۔
حق مہر کا مطالبہ ، خرچہ نان و نفقہ ، شوہر سے علیحدگی اور بچوں کے جیب خرچ جیسے کیس جو چند ہفتوں میں فیصلے کے متقاضی ہیں وہ ہڑتالوں ، جواب دعوﺅں ، وکالت ناموں کی تبدیلی اور طلبانوں کی بھینٹ چڑھ کر سالوں پر محیط ہوجاتے ہیں ۔ نقول برانچ سے مصدقہ نقل کا اجراءبغیر رشوت ممکن نہیں ، تاریخ پیشی دینے والا ریڈر کمرے کے سامنے منشیووں سے بخشش لیتا ہے مگر چیف جسٹس میاں ثاقب نثار ڈیموں کی تعمیر کےلئے فنڈز جمع کرتے کرتے ریٹائر ہورہے ہیں حالانکہ انصاف سے محروم معاشرہ بھلا ڈیموں سے کیسے مستفید ہوسکتا ہے؟؟
نئے آنے والے چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ عدالتی اصلاحات پر یقین رکھتے ہیں اور ڈیرہ غازی خان سے تعلق کی وجہ سے وہ نائب تحصیلدار کی عدالت سے لے کر اعلیٰ عدلیہ کے معاملات کو سمجھتے ہیں ۔64 سالہ آصف سعیدکھوسہ گورنمنٹ کالج لاہور ، پنجاب یونیورسٹی کے بعد کیمبرج یونیورسٹی سے ایل ایل ایم اور لنکنز ان سے بار ایٹ لاءہیں۔ کھوسہ صاحب ہائیکورٹ کے بعد18فروری 2010سے جج سپریم کورٹ ہیں اور وکلاءکی عالمی تنظیم کے سرگرم ممبر ہیں ۔ آپ کے عدالتی فیصلوں کی ایک بڑی تعداد ہے جو حوالہ جات کے طور پر پیش کی جاتی ہے اور جج صاحبان آصف سعید کھوسہ کے فیصلوں کی مثال دیتے ہوئے فیصلے کرتے ہیں ۔ آصف سعید کھوسہ کے چیف جسٹس آف پاکستان بننے سے یقینا سالوں سے عدالتی نظام سے مایوس قوم کا اعتماد بحال ہوگا اور روایتی تاخیری حربے آزمانے والوں کی حوصلہ شکنی ہوگی۔
انصاف کا بروقت حصول جج صاحبان کی ترجیح ہونا چاہیے کیونکہ ایک نسل کا انصاف کبھی بھی دوسری نسل کے لئے فائدہ مند ثابت نہیں ہوتا۔ فیملی نوعیت کے مقدمات کے فیصلوں میں تاخیر ایک نسل اجاڑ دیتی ہے۔اپنے مقدمے لے کر آنے والی لڑکیاں جب اپنے فیصلے کی مثل لے کر نکلتی ہیں تو ان کے ہاتھوں میں عدالتی کاغذ کے ساتھ ساتھ ان کے بالوں میں چاندی بھی آچکی ہوتی ہے۔ امید ہے کہ چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ عہدہ سنبھالنے کے بعد اپنی ماتحت عدلیہ کے ماتھے پر لگا یہ داغ بھی دھو ڈالیں گے ۔
فیس بک کمینٹ