زی ایک ڈرائیور ہے، وہ گزشتہ بیس برس سے ایک ہی شخص کے ہاں نوکری کر رہا ہے، زی کا مالک ایک خدا ترس آدمی ہے، وہ زی کا بہت خیال رکھتا ہے، حکومت کے مروجہ قوانین کے تحت مقرر کردہ تنخواہ کے علاوہ بھی وہ زی کو بہانے بہانے سے پیسے دیتا رہتا ہے، زی جب کبھی بیمار پڑ جائے تو اس کے علاج کی ذمہ داری بھی ا±س کا مالک ہی اٹھاتا ہے، مگر ہماری کہانی زی کے گرد گھومتی ہے اس کے مالک کے گرد نہیں۔ ہر انسان کی طرح زی میں بھی کچھ خوبیاں ہیں اور کچھ کمزوریاں۔ زی صبح سویرے ڈیوٹی پر حاضر ہو جاتا ہے، اس کے بعد اس کا گھر واپس جانے کو دل نہیں کرتا۔ زی صرف ایک ڈرائیور نہیں بلکہ پرسنل اسسٹنٹ ہے، اسے پڑھنا لکھنانہیں آتا مگر اس کی مینجمنٹ کئی ایم بی ایز سے بہتر ہے، آپ اسے ایک مرتبہ کوئی کام کہہ دیں اور پھر بھول جائیں، وہ کسی بے چین روح کی طرح کام کے پیچھے پڑ جائے گا، اپنے صاحب کی تمام ملاقاتیں وہ طے کرتا ہے۔ صاحب جب کسی تقریب میں جاتے ہیں تو واپسی پر انہیں دوسروں کی طرح اپنے ڈرائیور کو تلاش نہیں کرنا پڑتا، زی نہ جانے کہاں سے آناً فاناً گاڑی ان کے سامنے لا کھڑی کرتا ہے۔ زی میں کئی خامیاں بھی ہیں، سب سے بڑی خامی یہ ہے کہ زی کو پیسے مانگنے کی عادت ہے، وہ اپنے تمام اخراجات صاحب سے وصول کرنے کے بعد مختلف حیلے بہانوں سے صاحب کے دوستوں سے علیحدہ پیسے بٹورتا ہے، کبھی کسی بچے کی بیماری کا سنا کر تو کبھی کسی مرگ کا خرچہ سنا کر، کئی موقعوں پر ا±س کے یہ جھوٹ پکڑے گئے مگر زی باز نہیں آیا کیونکہ زی کو جوئے کا شوق ہے، وہ عادی قسم کا جواری تو نہیں مگر اسے شوق ضرور ہے۔ اس کے صاحب کو زی کی جوئے کی عادت کا بھی علم ہے اور کئی مرتبہ انہوں نے اسے سمجھانے کی کوشش بھی کی مگر زی ہر مرتبہ یہی جواب دیتا ہے کہ وہ جوا چھوڑ چکا ہے۔ زی کو پان کھانے کی بھی بہت عادت ہے، تمباکو والا پان، دنیا میں شاید اس سے زیادہ مضر صحت چیز ایجاد نہیں ہوئی مگر زی اس کے بغیر نہیں رہ سکتا، ا±س کے منہ میں ہر وقت پان ہوتا ہے جبکہ جیب میں آٹھ دس پان ”ریزرو“ میں ہوتے ہیں، شہر سے باہر جانا پڑے تو زی اپنے اسپیشل پان ساتھ لے کر جاتا ہے۔ اس کے علاوہ بھی زی میں کئی چھوٹی موٹی بشری کمزوریاں ہیں جیسے جھوٹ بولنا، لگائی بجھائی کرنا، چونکہ پڑھنا لکھنا نہیں جانتا اس لیے کبھی کبھی اسے کوئی پتہ سمجھانا کسی عذاب سے کم نہیں ہوتا۔
زی کی خوبیوں خامیوں کو ہم فی الحال یہیں چھوڑتے ہیں کیونکہ گزشتہ آٹھ دس ماہ سے زی شدید بیمار ہے، بے تحاشہ پان کھانے کی وجہ سے ا±س کی شوگر خوفناک حد تک بڑھ چکی ہے، بینائی پر بھی اثر پڑا ہے، اس کی تشویشناک حالت کو دیکھتے ہوئے اس کے صاحب نے اسے انہی ڈاکٹروں کو دکھایا جن سے وہ اپنا علاج کراتے ہیں، اسے ادویات لے کر دیں، شوگر کے لئے انسولین اور بینائی کے لئے عینک لگوائی، ڈاکٹروں نے زی کو احتیاطیں بھی بتائیں جن میں سرفہرست تمباکو والے پان سے نجات حاصل کرنا تھا۔ زی نے چند دن تک انسولین کا استعمال کیا، آنکھوں میں قطرے بھی ڈالے اور دن میں ایک دو پان کھانے کم کر دیے (یا کم ازکم اپنے صاحب کو یہی بتایا) جس سے اس کی حالت کچھ بہتر ہوئی مگر زی پان کے بغیر نہیں رہ سکتا، اسی طرح باقاعدگی سے انسولین لگانا بھی اسے کسی عذاب سے کم نہیں لگتا، اس کے صاحب نے اسے کئی مرتبہ سمجھایا ہے کہ تمباکو والے پان اس کے لیے ایسے ہی ہیں جیسے وہ اپنے ہاتھوں سے زہر پی رہا ہے مگر زی یہ بات سمجھنا ہی نہیں چاہتا۔ اس کا خیال بلکہ اس کی خواہش ہے کہ کوئی ایسی ”پاور ڈوز“ ہو جسے لینے کے بعد اس کی شوگر اور بلڈ پریشر یکدم ٹھیک ہو جائیں، اسے انسولین بھی نہ لگانی پڑے اور وہ تمباکو والے پان ویسے ہی کھاتا رہے جیسے وہ شروع دن سے کھاتا آیا ہے۔ زی کی حالت روز بروز خراب ہوتی جا رہی ہے مگر وہ بدستور اندھا دھند پان کھا رہا ہے، انسولین نہیں لگاتا، شوگر بھی چیک نہیں کرتا، وہ اب بھی کسی پاور ڈوز کی تلاش میں ہے جس کی ایک خوراک اس کی تمام بیماریوں کو ٹھیک کر دے، اسے کوئی احتیاط نہ کرنی پڑے، روزانہ پیٹ میں انسولین کی سوئیاں نہ چبھونا پڑیں، آنکھوں میں قطرے نہ ڈالنا پڑیں۔
زی کی طرح ہماری قوم کو بھی مختلف بیماریاں لاحق ہیں، قوم کی شوگر خطرناک حدوں کو چھو رہی ہے، بلڈ پریشر بے قابو ہو چکا ہے اور ہماری بینائی اتنی کمزور ہو چکی ہے کہ ہمیں کچھ بھی صاف دکھائی نہیں دیتا، اس پر مستزاد ،ہم زی کی طرح کسی بھی قسم کی احتیاط کے قائل نہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ ہم ایک صحت مند قوم بن جائیں، ہماری جسم سے بدعنوانی، آئین سے انحراف، بری طرز حکمرانی، نا اہلی اور نالائقی کے جراثیم ختم ہو جائیں، مگر اس کے لیے ہم اپنی کوئی بھی عادت تبدیل کرنے کے لیے تیار نہیں، ہم باقاعدگی سے آئین پر عمل کرنے کی انسولین نہیں لگانا چاہتے اور نہ ہی اپنی آنکھوں میں جمہوریت کے قطرے ڈالنا چاہتے ہیں۔ زی کی طرح ہماری بھی خواہش ہے کہ ہمیں بھی کہیں سے ایک ”پاور ڈوز “ مل جائے جسے استعمال کرنے کے بعد ہمارے تمام مسائل حل ہو جائیں، ہمیں کوئی احتیاط، کوئی اور کام نہ کرنا پڑے، ادھر پاور ڈوز لی ادھر تمام بیماریاں ہوا۔ ماضی میں ہم یہ پاور ڈوز استعمال کر چکے ہیں اور ہر مرتبہ اس کے خطرناک نتائج ہی برامد ہوئے ہیں، ایک موقع پر اس پاور ڈوز کے استعمال کے بعد ہمیں اپنا بازو کٹوانا پڑ گیا تھا مگر زی کی طرح ہمیں اب بھی عقل نہیں آئی، ہمیں یقین ہے کہ ہماری تمام بیماریوں کا حل ایک پاور ڈوز میں ہے، تمباکو والا پان چھوڑنے کی کوئی ضرورت نہیں۔
(بشکریہ:روزنامہ جنگ)